غلام اور آقا کی کہانی ہمشہ سے چلتی چلی آرہی ہے گو کہ یہ انسانی معاشرے کا کوئی ضروری جزہو انسان یاتوآقا بن کر کائنات پر حکمرانی کرتا ہے یا غلام بن کر اپنے آقا کے اشاروں پر ناچتاہے یہ غلامی مختلف شکلوں کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔
ایک تو وہ غلام ہوتا ہے جو غریب ہونے کی وجہ سے کچھ معاوضے کے عوض کسی کی غلامی کرتا ہے۔ اور دوسرا غلام سوچ کا غلام ہوتا ہے وہ مال و اسباب ہونے کے باوجود بھی اپنے پسندیدہ آقا کی غلامی کرتا ہے۔ اب اس ہی طرح ایک غلام وہ ہوتا ہے جو بظاہر کسی کا غلام نا ہونے کے باوجود بھی غلام ہوتا ہے وہ اپنے مطلوبہ آقا کی ہر صحیح غلط کو یک معنی رکھتا ہے، جسے ہم اندھی تقلید بھی کہہ سکتے ہیں۔ غلامی کی یہ شکل سب سے زیادہ خطرناک نتائج پیدا کرتی ہے اور پورے معاشرے کو ڈبو دینے کا باعث بنتی ہے۔ پھر ایک قسم غلامی کی ایسی بھی ہے جو اپنی خواہشات و مفادات کی غلام ہوتی ہے، ایسے لوگ بظاہر آقا کے منصب پر بیٹھ بھی جائیں پھر بھی وہ غلام ہی ہوتے ہیں۔
بس ایک ہی چیز ہے جو انسان کو غلامی سے آزاد کرکے حقیقی آقا یا حکمران بنادیتی ہے اور وہ ہے اسلام،اس اسلام کو پا لینے کے بعد انسان صرف اور صرف اللہ اور اسکے رسول محمد ؐ کا غلام بن جاتا ہے اور یہ غلامی اسے ہر دنیاوی غلامی سے آزاد کرکے آقا و حکمران بنادیتی ہے۔ آج سے کئی صدیوں پہلے جب انسان غلامی کی دلدل میں بری طرح پھنس چکا تھا اور معاشرتی نظام تباہ برباد ہوچکا تھا تو نبی مہربان ختم النبیین محمدؐ نے اسلام کی شمع روشن کی اور غلامی سے نجات کا راستہ دکھایا، پھر بہت سے انسانوں کو ذہنی غلامی، نفسیاتی غلامی سے آزاد کروانے کے ساتھ ساتھ بہت سے غلاموں کو خرید کر آزاد کروایا،اور وہ انسان دنیا کے بہترین حکمران بن کر سامنے آئے۔
لیکن افسوس! ہم آج اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے انسان آقا سے غلام بننے کی طرف سفر پر گامزن ہوگئے ہیں۔ اسلام کو اپنی روح میں اتار لینے کے بعد جو ہم نے اللہ اور اس کے رسول محمدﷺ کی غلامی اختیار کرکے دنیا کی حکمرانی حاصل کی تھی آج اس غلامی کو ترک کرکے پھر دنیاوی غلامی اختیار کرلی ہے۔ آج ہم صرف یا تو اپنے مفادات کے غلام ہیں یا اندھی تقلید کا شکار ہیں۔
پاکستان جیسا پیارا وطن جو صرف دنیاوی غلامی ترک کرنے کے نتیجے میں ہم نے حاصل کیا تھا۔ آج ہم اسی ملک میں چند مفادات،چند خواہشات اور اندھی تقلید کرتے ہوئے نااہل اور چوروں کو حکمران بنا کر بٹھایا ہوا ہے کوئی اپنی قومیت کی بنیاد پر قاتل چورلٹیروں کا ساتھ دیتا ہے، تو کوئی بظاہر آن بان سے متاثر ہے اور بیچارے بہت سے تو یہ بھی نہیں جانتے کے ہم آخر ساتھ کس کا دے رہے ہیں اور انتہا یہ ہے کہ ہم اپنے آزاد ملک کو تباہ کرکے دوسرے ملک کی غلامی اختیارکرنے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھ بیٹھے ہیں۔ بس یورپ،امریکہ کی نوکری اور شہریت جس کو مل گئی وہی فاتح نظر آتا ہے لیکن یہ نہیں سمجھ آتی ہمیں کے کفار کی غلامی فتح نہیں دنیا کی سب سے بڑی ناکامی ہے لیکن جب فتح کا معیار ہی گرین اور ریڈ کارڈ ہوں تو کیسے محمد بن قاسم جیسا فاتح پیدا ہوگا آج مسلم دنیا جس پستی کا شکار ہے اسکی سب سے بڑی وجہ ہی ہماری غلام سوچ ہے اگر ہم غلامی سے آزاد ہوتے تو ضرور محمد بن قاسم کی طرح کفار کو شکست دیتے اور کشمیر،فلسطین،شام سمیت پوری دنیا پر حکمرانی کرتے جیسے خلافت عثمانیہ جیسی عظیم سلطنت ہم مسلمانوں نے ہی قائم کی تھی۔ بس ضرورت اپنے آپ کو غلامی سے آزاد کروانے کی ہے۔