ڈاکٹر میمونہ حمزہ
اللہ تعالی نے اپنی دو صفات کو کسی نبی کے لیے یکجا بیان نہیں کیا، سوائے اپنے نبی محمد ﷺ کے لیے؛ اس نے فرمایا: وبالمؤمنین رؤوف رّحیم ۔ (التوبۃ، ۱۲۸) آپؐ مؤمنوں کے لیے شفیق اور رحیم ہیں۔ اور اپنے بارے میں فرمایا: {انّ اللہ بالنّاس لرؤوف رّحیم} (البقرۃ، ۱۴۳) اللہ تعالی اپنے بندوں پر شدید رحیم ہے اور اس کی رافت اور رحمت ان کے لیے خاص ہے۔ اللہ تعالی کی رحمت تمام بندوں پر ہے، اور رسول ِکریم ﷺ کی رأفت اور رحمت کو مومنوں پر خاص کیا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رؤوف رّحیم۔ (التوبۃ، ۱۲۸)
(دیکھو تمہارے پاس ایک رسول آیا ہے، جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔)
ابی بن کعبؓ کے مطابق سورۃ التوبۃ کی آخری دو آیات نزول قرآن کی سب سے آخری آیات ہیں۔(تفسیر المراغی)
اس میں رسول کریم ﷺ کا اہل ِ مکہ میں سے ہونا، (یا امیّوں میں مبعوث ہونا) جو ان کی دعوت کے ابتدائی مخاطب تھے، ان کے اپنی قوم سے مخلص ہونے کی تاکید کے طور پر ہے، اور اس بنا پر کہ آپؐ ان کے ہاں معروف نسب پر پیدا ہوئے، اور آپ کے نسب کی پاکیزگی یہ ہے کہ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک تمام اولاد نکاح کے معروف طریقے سے پیدا ہوئی۔اپنی قوم کے فرد ہونے کی بنا پر اہلِ مکہ کے سرداران یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان کی کرامت اہل ِ مکہ کی کرامت ہے، اور اللہ کی جانب سے انھیں نبوت ملنے پر وہ حسد کا شکار نہیں تھے، (یہ حسد اجتماعی طور پر یہود کی جانب سے تھا)۔
تمہارا نقصان میں پڑنا اسے شاق گزرتا ہے، اور سب سے بڑا نقصان عقیدے کا نقصان ہے، اس لیے اپنی قوم کا شرک میں مبتلا ہونا ان کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا، اسی لیے وہ گمراہی پر ہدایت اور گناہ پر توبہ کا حریص ہے، اور وہ انھیں باربار حق کی جانب رجوع کی دعوت دیتا رہا، وہ تمہارے جنت میں جانے کا حریص ہے، اور اس کے لیے تکلیف دہ ہے کہ تم جہنم کے راستے کو اختیار کرو، اور وہ مؤمنوں کے لیے بڑا شفیق اور رحیم ہے۔تفسیر بغوی میں ہے: فرماں برداروں کے لیے رؤوف اور گنہگاروں کے لیے رحیم ہیں۔وہ امتِ مسلمہ کے لیے ان کے والدین سے بڑھ کر رحیم و شفیق ہیں۔
رسول اللہ ﷺ انسانوں پر سب انسانوں سے بڑھ کر رؤوف اور رحیم تھے، آپ ؐ اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز تھے، اور آپؐ کا رحم وکرم اللہ تعالی کا آپؐ پر خاص فضل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(اے پیغمبرؐ، یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کر دو، اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک ِ مشورہ رکھو۔۔) (آلِ عمران، ۱۵۹)
یعنی آپ کا لطف و کرم بھی اللہ ہی کی آپ پر رحمت ہے، قتادہؒ کہتے ہیں: ’’اللہ کی رحمت کے ساتھ آپؐ ان کے لیے نرم خو ہیں‘‘۔
رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھیوں سے پیش آمدہ معاملات پر مشورہ لیتے ، اور یہ عمل ان کے اندر نشاط کو اور بڑھا دیتا، اور ان کو خوش کر دیتا، جیسا کہ آپؐ نے بدر کے موقع پر اصحاب سے قافلے کی جانب جانے کا مشورہ لیا، تو انھوں نے کہا: ’’اگر آپ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں بھی کودنا چاہیں تو ہم کود پڑیں گے، ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا، ہمیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ آپ کل ہمارے ساتھ دشمن سے ٹکرا جائیں‘‘۔ (تفسیر ابنِ کثیر، شرح آیۃ)
اسی طرح آپ نے لشکر کی جگہ کے انتخاب کا مشورہ بھی قبول کیا۔
امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا خلق ہے، جس کے ساتھ اللہ تعالی نے آپؐ کو مبعوث فرمایا۔
امام احمدؒ نے ذکر کیا ہے کہ ابوامامہ الباہلی نے میرا ہاتھ پکڑ کر بیان کیا، کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ’’اے ابو امامہ، مؤمنوں میں ایسے بھی ہیں جو میرے دل کو نرم کر دیتے ہیں‘‘۔ (تفسیر ابنِ کثیر، سورۃ التوبۃ، ۱۲۸)
رسول کریم ﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ حسن ِ معاملہ کی بہترین مثال ہیں، جہاں آپ کا معاملہ خیر اور رحمت کی صفات پر مبنی ہے، اگر کوئی ساتھی تکلیف میں مبتلا ہے تو آپﷺ اس کی تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں، اور ان پر شفقت برت تے ہیں، اگر وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت فرماتے ہیں، ان کے جنازے میں موجود ہوتے ہیں، وہ اپنے کندھے ان کے لیے جھکا کر رکھتے ہیں، ان کے اور ان کی اولاد کے لیے خیر کی دعائیں مانگتے ہیں، اور ان سے بہترین حسنِ سلوک رکھتے ہیں۔
آپ ؐ کی صفتِ رحم وکرم کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ ’’لو کنت فظّاً غلیظ القلب لانفظّوا من حولک‘‘، (اگر آپ تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ (لوگ) آپ کے ارد گرد سے چھٹ جاتے)، آپ کی زبان سے سخت الفاظ نکلتے، آپ درشتی کا معاملہ کرتے، اور اپنے دل کو قساوت سے بھر لیتے تو یہ سب آپ کو چھوڑ کر چلے جاتے، لیکن اللہ تعالی نے انھیں آپؐ کے گرد جمع کیا ہے، اور آپؐ کو وہ نرمی عطا کی ہے، جس کی وجہ سے ان کے دل آپ سے الفت محسوس کرتے ہبں، جیسا کہ عبد اللہ بن عمرو نے کہا: کہ انھوں نے پہلی کتابوں میں آپ ﷺ کی جن صفات کا ذکر پایا ہے، کہ: وہ درشتی، سختی اور بازاروں میں شورو غل کی صفات نہیں، اور نہ برائی کا برا بدلہ دینے کی ہیں، بلکہ آپ تو سراپا عفو و درگزر تھے، اور معاف کر دیا کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ انسانوں میں انسانوں پر سب سے بڑھ کر رحیم اور شفیق ہستی تھے، بلکہ آپؐ تو حیوانات اور جمادات کے لیے بھی رحیم تھے۔آپؐ مؤمنوں ہی کے لیے نہیں بلکہ کفار کے لیے بھی نرم دل تھے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک روز رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کیا آپؐ پر احد کے دن سے زیادہ مشکل دن بھی گزرا ہے؟ تو آپؐ نے ’’یوم العقبہ‘‘ کو سخت ترین دن کہا، ’’جب میں نے ابنِ عبد یالیل بن عبد کلال کے سامنے اس دعوت کو پیش کیا، اور اس نے اسے قبول نہ کیا، میں واپس لوٹا، اور میں غمزدہ تھا، اسی طرح سرجھکائے قرن الثعالب تک پہنچ گیا، سر اٹھایا تو دیکھا کہ ایک بادل سایہ کیے ہوئے ہے، اور دیکھا تو اس میں جبریلؑ نظر آئے، انھوں نے مجھے پکارا: اللہ نے آپؐ کی اپنی قوم سے باتیں سن لی ہیں، اور ان کا جواب بھی سن لیا ہے، اللہ نے آپؐ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے، آپ اسے ان کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں، میں نے فرشتے کو پکارا، فرشتہ آیا اور اس نے سلام کیا، پھر بولا: اے محمدؐ ، اگر آپ چاہیں تو میں ان دوپہاڑوں کو ان پر گرا دوں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ نکال دے جو صرف اس کی بندگی کریں گے، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے‘‘۔ (رواہ البخاری، ۳۲۳۱)
ابنِ حجر کہتے ہیں کہ یہ آپؐ کا اپنی قوم سے شفقت کا بیان ہے اور اس انتہائی صبراور حلم کا جس کا بیان قرآن میں ہوا ہے کہ’’ آپؐ ان کے لیے نرم خو ہیں‘‘ (آلِ عمران، ۱۵۹)
صحابہ کرام ؓ پر خصوصی محبت اور شفقت
رسول اللہ ﷺ اپنے تمام ساتھیوں سے اللہ کی خاطر محبت رکھتے تھے،اور ان میں سے ہر ایک سے محبت کا اپنا ہی رنگ اور انداز تھا، آپؐ ان کو مختلف القاب سے بلاتے، جو محبت ہی کا ایک رنگ تھا، کوئی ابو ہریرۃؓ ہے تو کوئی ابو ترابؓ، کوئی سیف اللہؓ ہے تو کوئی ذو النورینؓ، آپؐ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ کو ’’وزیراہ‘‘ (اپنے دو وزیر) قرار دیا، حضرت زبیر بن عوامؓ کو اپنا ’’حواری‘‘کہہ کر عزت افزائی کی، حضرت حذیفہ بن یمانؓ ’’کاتم سرّہ‘‘ ان کے راز دان بنے، اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ’’امین الامّہ‘‘ (امت کے امین) کہلائے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کو اپنی خوشی غمی میں شریک کرتے اور اپنے کھانے پینے میں بھی! آپؐ ان کے مصائب میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے اور ان کی تکلیفوں کو ان سے دور کرتے، اور ان کی خوشیوں اور غموں میں پورا ساتھ دیتے۔(تعامل الرسولؐ مع اصحابہ، راغب السرجانی)
کتب ِ سیرت النبیﷺ ایسے واقعات کی شاہد ہیں، حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، ایک صحابی کو مالِ تجارت میں نقصان ہو گیا، اور ان پر قرض چڑھ گیا، انھوں نے رسول ِ کریم سے اس کا ذکر فرمایا، تو آپ نے صاحب ِ کشائش صحابہ سے کہا: ’’ان کو صدقہ دو، لوگوں نے انھیں صدقہ دیا، لیکن رقم اتنی نہ جمع ہو سکی جتنا ان پر قرض تھا، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے قرض خواہوں سے کہا: جو تمہیں مل گیا ہے اسے لے لو، تمہیں بس اتنا ہی ملے گا‘‘۔ (رواہ مسلم، ۱۵۵۵۶)
رسول اللہ ﷺ کے اصحاب بھی آپ سے ایسی محبت کرتے تھے جیسی محبت کسی اور سے نہیں ہو سکتی، اس محبت میں اتنے شدید تھے کہ کٹر دشمن بھی اس کا اعتراف کرتا، جیسا کہ اسلام لانے سے پہلے سفیان بن حرب نے اس کا برملا اظہار کیا:
’’میں نے لوگوں میں کسی کو کسی شخص سے اس طرح محبت کرتے نہیں دیکھا جیسے اصحاب محمد، محمد( ﷺ) سے کرتے ہیں‘‘۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی رسول اللہ ﷺ سے بات کرنے آیا، صحابہ کرامؓ کی پروانوں کی مانند قربان ہونے کی کیفیت کو قریش کے سامنے یوں بیان کیا:
’’میں قیصر وکسری اور نجاشی کے درباروں میں بھی گیا ہوں، مگر خدا کی قسم! میں نے اصحابِ محمدؐ کو جس طرح محمد(ﷺ) کا فدائی دیکھا ہے، ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں بھی نہیں دیکھا۔ ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ محمدؐ وضو کرتے ہیں تو ان کے اصحاب پانی کا ایک قطرہ تک زمین پر گرنے نہیں دیتے اور سب اپنے جسم اور کپڑوں پر مل لیتے ہیں، اب تم سوچ لو کہ تمہارا مقابلہ کس سے ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد ۵، ص۳۷)
رحمت للعالمین
اللہ تعالی نے خیر الانام حضرت محمد ﷺ کے اخلاق کو نرمی اور رأفت سے مزین کیا، ارشاد باری تعالی ہے:
(اے نبیؐ، ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔) ( سورۃ الانبیاء، ۱۰۷)
اس رحمت کا سب سے بڑا پہلو تو یہ ہے کہ آپؐ کو ہدایت دے کر لوگوں کو گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے بچایا، آپؐ نے فرمایا: ’’میں تو صرف راستہ دکھانے والا رحیم ہوں‘‘۔(اخرجہ الدارمی، باسناد صحیح)
آپؐ بندوں کے لیے بے پناہ شفیق اور رحیم تھے، نرمی سے انھیں اللہ کی اطاعت کے راستے پر گامزن کرتے، اور ان کومشقت میں ڈالنے سے گریز فرماتے، کتنی ہی احادیث اس جملے سے شروع ہوتی ہیں: (لو لا ان اشقّ امتی ۔۔۔)
’’اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہوتا ۔۔۔ ‘‘
۔۔ میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا ۔۔
۔۔ میں عشاء کی نماز تاخیر سے ادا کرتا ۔۔ وغیرہ۔
اسی سبب کی بنا پر آپ نے مستقل نماز تراویح نہ پڑھائی، اور نماز کے دوران اگر کوئی بچہ رونے لگتا تو نماز کو طویل نہ فرماتے۔
مالک بن حویرثؓ کہتے ہیں کہ ہم نوجوانوں کا ایک گروہ دین سیکھنے کے لیے آپؐ کے پاس آیا، ہم نے بیس راتیں آپؐ کے ساتھ گزاریں، آپؐ کو خیال ہوا کہ ہمیں گھر والے یاد آ رہے ہوں گے، آپؐ نے ہم سے پوچھا کہ ہم پیچھے کس کو چھوڑ آئے ہیں، ہم نے انھیں بتا دیا، آپؐ بہت مہربان اور رحیم تھے، آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے اہل خانہ کے پاس واپس جاؤ، انھیں سکھاؤ اور انھیں نیکی کا حکم دو، اور ایسے ہی نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتا دیکھو، جب نماز کا وقت ہو جائے، تو تم میں سے ایک اذان دے، اور تم میں سے بڑا نماز پڑھائے‘‘۔ (متفق علیہ)
آپؐ بچوں سے محبت سے بات کرتے اور بڑوں سے نرمی اختیار کرتے، ان کے لیے آسانی پیدا کرتے اور جن کاموں سے ان کے مشقت میں پڑنے کا احتمال ہوتا انھیں ان کا حکم نہ دیتے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے کسی پسندیدہ عمل کو اس لیے چھوڑ بھی دیتے کہ اگر وہ اسے کریں گے تو امت پر لازم ہو جائے گا کہ ایسا ہی کرے‘‘۔ (رواہ البخاری،۱۰۷۶) آپؐ کا مستقل عمل یہی تھا کہ اپنی امت کو ہلکا رکھیں اور انھیں مشقت میں مبتلا نہ کریں۔اور انھیں ایسے کاموں کی ترغیب دیں جنہیں بجا لانا ہر ایک کے اختیار میں ہو، جیسے آپؐ نے ’’صدقہ‘‘ دینے پر ابھارا تو اس عمل کو ایسے وسعت دی کہ کوئی بھی اس سے محروم نہ رہے، جیسے: ’’اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، اور برائی سے منع کرنا بھی صدقہ ہے، کسی بھٹکے ہوئے اجنبی کو راستہ بتا دینا بھی صدقہ ہے، اور راستے سے پتھر، کانٹا یا ہڈی کنارے کر دینا بھی صدقہ ہے، اور اپنے ڈول کا پانی اپنے بھائی کے ڈول میں ڈال دینا بھی صدقہ ہے‘‘۔ (بخاری اور ترمذی کی روایات)
اور پھر اس دائرے کو مزید وسعت دی، آپ ؐ کا فرمان ہے: ’’کسی مسلمان نے کوئی پودا لگایا تو جس نے بھی اس سے کھایا وہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور اگر کسی نے اس میں سے چوری کی تو اس (لگانے والے) کے لیے صدقہ ہے، اور جو کسی جانور نے کھا لیا وہ بھی صدقہ ہے، اور جو کسی پرندے نے کھا لیا وہ بھی صدقہ ہے‘‘۔ (رواہ البخاری، ۲۱۹۵)
آپؐ کی رحمت کفار تک پھیلی ہوئی تھی، آپؐ ان سے بھی نرمی کا معاملہ کرتے، اور ان کے برے اخلاق کے مقابلے میں بھی رحمت اور شفقت کا برتاؤ کرتے، احد کے دن آپؐ کے چہرہ مبارک پر زخم آئے تو صحابہ نے کہا کہ ان کو بد دعا دیں، آپؐ نے فرمایا: ’’میں لعنت بھیجنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔ (صحیح مسلم، ۲۵۹۹)
رسول اللہ ﷺ کی رأفت اور رحمت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپؐ امت کے مہلکات میں پڑنے اور اجر و ثواب گنوا بیٹھنے پر پریشان ہوتے اور نہیں ان سے آگاہ فرماتے، اس میں ایسے’’ گناہ‘‘ بھی تھے جن کو صغیرہ سمجھ لیا جاتا ہے، یا ان سے بچنے کی اتنی تگ و دو نہیں کی جاتی، پس آپ انھیں کبھی صغیرہ گناہوں کو ہلکی آگ سے تشبیہہ دے کر سمجھاتے، جو چھوٹی چیزوں کو جلاتے جلاتے پھیل کر بڑی ہو جاتی ہے، اور اپنے ساتھی کو ہلاک کر ڈالتی ہے، (رواہ احمد، نسائی، ابن ماجہ، حدیث حسن) اور سود سے خبردار کرتے تو اس کی ادنی صورت سے بھی خبردار فرماتے: ’’ایک دینار کو دو دینار، ایک درہم کو دو درہم اور ایک صاع کو دو صاع کے بدلے نہ بیچو، مجھے تمہارے تیر پھینکنے کا خوف ہے، تیر پھینکنا (رماء) سود ہے‘‘۔(احمد،۵۸۸۵)
آپؐ امت کو ریا کی تباہ کاری سے آگاہ فرماتے: ’’مجھے تمہارے شرک ِ اصغر میں پڑ جانے کا خوف ہے‘‘۔ وہ امت کے دنیا داری کے فتنوں پر پڑ جانے کی ہلاکتوں سے انھیں آگاہ فرماتے، اور بڑی ہی محبت اور رحمت سے انھیں تنبیہہ کرتے: ’’میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔(البخاری، ۱۲۱)
آپ ﷺ کے مہربان اور محبت سے پر دل سے نکلنے والے نصائح امت کے لیے ان کے والدین اور بڑوں کی نصیحتوں سے بڑھ کر قیمتی ہیں، بلکہ اتنی اچھی نصیحت تو انسان خود کو بھی نہیں کر سکتا جیسی ان مہربان اور رحیم رسول ﷺ نے فرمائیں۔
آپؐ نے انھیں محض اپنے زمانے کی مشکلوں اور پریشانیوں ہی کا حل نہیں دیا بلکہ مستقبل میں پیش آنے والے ’’فتنوں‘‘ سے بھی آگاہ کیا، جہاں اپنے خاتم النبیین ہونے کی خبر دی وہاں امت میں نئی نبوت کا دعوی کرنے والے تیس کذابوں کی بھی خبر تھی، (بخاری، ۳۴۱۳) آپؐ نے مسلمانوں کی یہودیوں سے فیصلہ کن جنگ کا تذکرہ بھی کر دیا، فرمایا:’’قیامت قائم نہیں ہو گی، حتی کہ تم یہود کو قتل کرو گے،یہاں تک کہ اگر یہودی کسی پتھر کے پیچھے چھپا ہو گا تو وہ بول اٹھے گا، اے مسلم، یہ یہودی میرے پیچھے ہے اسے مار ڈالو‘‘۔ (رواہ البخاری، ۲۷۶۸)
آپؐ نے مستقبل کے فتنوں سے بھی آگاہ کیا اور ان اعمال سے بھی جو فتنے کا سبب بنیں گے، اور امت کو ہر معاملے میں درست بات کی جانب رہنمائی بھی فرما دی۔
مؤمن کی سب سے بڑی آرزو کہ اسے جنت میں نبی اکرم ﷺ کا ساتھ مل جائے، تو اس کے لیے تیاری کا طریقہ بھی بتا دیا، ربیعہ بن کعبؓ جو رسول اللہ ﷺ کے لیے وضو کا پانی مہیا کرتے، اور کئی کام انجام دے دیتے، ان سے فرمایا: ’’کچھ مانگ لو، وہ بولے: جنت میں آپؐ کا ساتھ چاہتا ہوں، کہا: کچھ اور؟ بولے: بس یہی چاہئے۔ فرمایا: سجدوں کی کثرت کے ساتھ اپنے لیے، میری مدد کرو‘‘۔ (رواہ مسلم)
اے اللہ، ہم مہربان اور رحیم نبیؐ کے امتی ہیں، تو ہمارے دل میں بھی امتِ مسلمہ کے لیے نرمی اور مہربانی پیدا کر دے، اور ہمارا برا اخلاق لوگوں کو دین سے متنفر نہ کرے، اور رسول کریمﷺ کے اعلی اخلاق کو ہمارے لیے بہترین نمونہ بنا دے، جن کے گرد سب پروانوں کی مانند جمع ہوتے تھے۔ آمین
٭٭٭