پاکستان میں غربت کاگراف اوپرلیکن دہشت گردی کا قلع قمع ہونے کے بعدمعاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ دنوں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی ییک ہماری معاشی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے ،یہ گیم چینجر منصوبہ ہے جسے حکومت ہرصورت مکمل کرے گی ،دوسری طرف انہوں نے امریکہ سمیت دیگر ممالک کو اس اقتصادی زون میں داخل ہونے کی پیشکش بھی کردی۔ پاکستان کے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ سی پیک سیاسی و جغرافیائی وجوہات کی بنا پر وسطی ایشیا کے ساتھ معاشی روابط کا ذریعہ ہے،کیوں کہ بیسویں صدی کے اوائل تک وسطی ایشیا کے ممالک تک معاشی روابط کی شکل مدھم تھی۔اب سی پیک کی وجہ سے وسیع تر معاشی امکانات کی امید کی جارہی ہے ۔ ایشیا کے جنوب میں پاکستان کی گوادر بندر گاہ اور ایران کی بندر گاہیںہیں ،یہ جڑواں صلاحیتیں رکھنے والی بندرگاہیں بن سکتی ہیں،پاکستان کیوں کہ جنوبی ایشیاکے سیاسی ومعاشی میدان کا کھلاڑی رہا ہے لہذا سی پیک کی تکمیل سے یہ وسطی ایشیا و مغربی ممالک کے لیے بھی ایک قوت بن کر ابھرے گا۔
سی پیک منصوبہ خود پاکستان کے لیے بھی سیاسی و جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے ۔اسی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان ثقافتی وسیاسی اعتبار سے جنوبی و مغربی کناروں پر واقع ہے،سندھ پنجاب قطعی طور پر جنوبی ایشیا کا حصہ ہیں،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ مغربی ایشیامیں واقع ہیں۔ گلگت بلتستان اور وادی خیبر کے چین سے سنکیانگ اور وسط ایشیا سے صدیوں پرانے ثقافتی ومعاشی تعلقات ہیں، اگر سی پیک کے گراف کوپھیلتا دیکھیں تو یہ تمام روٹ میپ ترقی کی نوید سنا رہے ہیں۔ سی پیک اتنا بڑا منصوبہ ہے کہ اس کی بروقت اور پر اعتماد تکمیل کی صورت میں یہ ملک کا معاشی حب بنے گااور ترقی کی نئی راہیں کھول دے گا۔ 1970 ء میں انڈس واٹر ورکس منصوبہ تھا جس سے معاشی ومعاشرتی راہیں ہموار ہوئیں اور ملک پر پھیلے غیر ترقی یافتہ ہونے کے بادل چھٹے اور اس منصوبے کے تحت منگلا وتربیلا ڈیم تعمیر کیے گئے تھے۔ ہزاروں کلومیٹر طویل نہریں کھودی گئیں۔اس کے بعد معیشت نے ایسی ترقی کے دن دیکھے کہ جہاں گھاس کا تنکا نہیں اگتاتھا سال میں دو فصلیں ہونے لگیں اور جہاں ویرانے تھے وہاں ہنستے بستے شہر آباد ہوگئے ۔
انڈس واٹر ورکس منصوبے سے سندھ پنجاب کے دیہی علاقوں کے ساتھ شہری علاقوں کا رقبہ بھی وسعت اختیار کرتا گیا ، سی پیک سے مغربی صوبے بلوچستان و خیبر پختونخواہ جو پہلے قومی معیشت کے رحم وکرم پر تھے، اس منصوبے نے ان میں نئی روح پھونک دی ہے ۔ سی پیک پاکستا ن و بھارت کشیدگی کم کرے گا اس سے قطع نظر بھارت ایک مضبوط تعلقات کے ساتھ چین سے 100 ارب ڈالر کی تجارت کرتا چلا آرہا ہے،جب کہ پاکستان کا تجارتی حجم 12 سے 14 ارب ڈالر سالانہ ہے ۔ازحد ممکن ہے کہ پس پردہ ون بیلٹ ون روڈ کابھارت کو مستقبل میں حصہ بنایا جائے،پاکستان کو اس بات پر راضی کر لیا جائے کہ سی پیک روڈ سے بھارتی ٹرک چینی سامان لادے گزریںاور امرتسرجا پہنچیں، شاید کہ بھارت بھی محدود ہی سہی ،اس منصوبے کا حصہ بن جائے ۔یہ سوال اہم ہے کہ ایسی صورت حال میں پاکستان اپنی حکمت عملی اوراپنے اثر و تاثر سے محروم ہوجائے گا؟
پاکستان کے لیے یہ منصوبہ کس حد تک مفید ثابت ہوتا ہے اس بات کا جواب اس منصوبے کے مختلف مراحل کی تیاری سے لگایا جاسکتا ہے ۔ہر چیز کے فوائد و نقصانات ہوتے ہیں ۔سی پیک کو بھی اس کلیے سے استثنیٰ حاصل نہیں۔سی پیک سے بہت سے دعوے سامنے آئے ہیں اور تبصروںتجزیوں کی بھر مار ہے۔ اس عظیم منصوبے سے متعلق فوائد کی خوشی میں ممکنہ خطرات سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔چند سوال جو جواب طلب ہیں وہ یہ ہیں کہ کیا پاکستان نے سی پیک کی جامع فزیبلیٹی بنائی ہے ؟ کیا سی پیک کی تکمیل کی صورت میں ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے کوئی تخمینہ لگایا ہے؟ گوادر کی بندر گاہ سے ہونے والی مجموعی آمدن میں بلوچستان کا کتناحصہ ہوگا ؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس آمدن سے ان صوبوں کی جھولی میں کیاآئے گا جہاں روڈ گزریں گے؟ چین کی آمد ورفت کا پاکستان کے مینو فیکچرنگ (اشیا سازی ) سیکٹر پر منفی یا مثبت اثر پڑے گا ؟ سی پیک سے متعلق درآمدات ،ٹیکس چھوٹ پر قومی مینو فیکچرنگ پر کیا اثر ات مرتب ہوں گے ؟ سی پیک سے مالیاتی وسائل کی مد سے متعلق توازن ادائیگی پر قلیل المیعاد و طویل المیعاد اثرات ہوں گے ان کی صورت کیا ہے؟ بحری وبری تجارتی قافلوں کے لیے جامع تحفظ فراہم کرنے پر پاکستان کے فوجی بجٹ پر کوئی اثر پڑے گا؟ گوادر میں پینے کے صاف پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے اس حوالے سے فراہمی آب کے انتظامات کیا ہوں گے ؟یہ وہ سوال ہیں جو اپنے اندر جامعیت رکھتے ہیں اور شفاف تشریح چاہتے ہیں ،سی پیک اگر مقبولیت کے ساتھ معاشی حب بنا تو قوی امید ہے کہ ہماری آنے والی کئی نسلیں اس کے ثمرات سمیٹیں گی۔