ارے بیٹا آٹھ بج چکے ہیں۔ اٗٹھ بھی جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔امی ابھی دوگھنٹے پہلے ہی تو سویا ہوں ۔۔
مگر بیٹا آج آپ کاپرچہ ہے کیمسٹری کا۔۔ ۔ آپ کو اپنے امتحانی مرکز میں وقت سے پہلے پہنچنا بھی ہے ۔ ۔۔۔امی ابھی تھوڑی دیر اور سونے دیں۔۔۔ساری رات امتحان کی تیاری کی ہے۔ ۔۔۔ارے بیٹا اگر آپ پورے سال توجہ سے پڑھتے تو آپ کی تیاری پہلے ہیں مکمل ہوجاتی۔مگر پوراسال آ پ نے تو اپنا زیادہ وقت انٹر نیٹ اور آئ فو ن کو دیا ۔اب ایک رات میں آپ کیا تیاری کروگے۔ ۔۔۔۔اچھا اچھا امی اٹھ جاتا ہوں ۔۔۔۔آپ تو باتیں سنانے لگ جاتی ہیں۔ ۔۔۔۔۔بیٹا تمہارے والد کو کتنا ارمان ہے تم سے ۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ ہر حال میں تم کو انجینئر بنا ؤں گا۔ بیٹا اگر اچھے نمبر آگئے تو انجینئر نگ کالج میں داخلہ ملے گا۔
اچھا امی اٹھتا ہوں ۔ اسلم جلدی جلدی تیار ہوکر جانے لگا تو اس کی ماں نے کہا کہ لو بیٹا یہ پانچ سوروپے رکھ لو ۔۔۔۔۔۔۔مگر میں اتنے سارے روپوں کا کیا کروں گا ؟۔ ۔۔۔۔ رکھ لو بیٹا کام آئیں گے ۔ سنا ہے کمرہ امتحا ن میں اسکول والے بچوں کی کچھ سوالات حل کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔ کامران کی ماں کہہ رہی تھی ۔ اگر چار پانچ سوں روپے وہا ں لگیں تو فکر مت کرنا دے دینا۔ ۔۔۔۔بیٹا تمہارے والد کا بڑ ا ارمان ہے تم کو انجینئر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ بے چارے خود تو انجینئر نہیں بن سکے ۔ دیکھو نا ۔۔۔۔بےچارے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں معمولی سے کلرک کے عہدے پر ساری عمر لگادی اور اب ریٹائر ہونے والے ہیں ۔ مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم فکر نہ کرو بس امتحان دینے جاؤ میرے ڈپارٹمنٹ میں میرے بہت سے جاننے والے افسران ہیں ان سے اچھے تعلقات ہیں اگر نمبر کچھ کم بھی آگئے تو فکر کی کوئی بات نہیں آخرمیں بھی تو ان کے کئی کام کرتاہوں۔
امی خدا حافظ ۔۔۔۔۔۔جا ؤ بیٹے اللہ حافظ۔۔۔ ارے بیٹا خالد تمہارے بڑے بھائی پر چہ دینے گئے ٹی وی تو لگاؤ ذرا میں مارننگ شو تو دیکھ لوں۔ارے یہ کیا دیکھوں یہ کیسی خبر دکھائی جارہی ہے کافی لوگ زخمی ہیں ۔ لوگ جلدی جلدی لاشوں کو اٹھا کر ایمبولنس پررکھ رہے ہیں۔ یہ شیر شاہ کاپل ۔۔۔۔ابھی اس پل کو بنے کوئی بہت زیادہ عرصہ تو نہیں ہوا۔۔۔ لوجی!حکومت نے تفتیشی کمیٹی بھی بنانے کا اعلان کردیا اب تو پتہ چل ہی جائے گا جن لوگوں کی غفلت رہی ہے اس کی تعمیر میں ۔۔۔ ارے یہ کیا یہ کیسی بریکنگ نیوز آرہی ہے ینگ ڈاکٹر ز کی ہڑتال کے باعث مریض کو سخت مشکلات کا سامنا کئی مریضوں کی حالت تشویش ناک بتائی جارہی ہے ۔ ۔۔یا اللہ یہ ہمارے ملک میں کیا ہورہا ہے اس پاک سرزمین میں کیسے کیسے المناک حادثے ہورہے ہیں۔
حادثے مفروضے نہیں ہوتے بلکہ ان کی وجہ ہوتی ہے ۔ جو بھی حادثے پاکستان میں آج رونما ہورہے ہیں ۔ ان کی وجہ ہے اوپر کے واقعات ان کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔لکڑی کو جس طرح دیمک چاٹ کر تباہ کرڈالتی ہے اور چند مہینوں میں پوری چھت سمیت اپنے مکینوں پر آگرتی ہے بالکل اسی طرح ہمارا وطن عزیر پاکستان جو کہ ہمارے سروں پر اللہ کی بہت بڑی نعمت کی شکل میں موجود ہے ۔ جس کے دم سے دنیا میں ہماری پہچان ہے ۔ یہ بھی دیمک زدہ ہوگئی ہے ۔ بر وقت اس کا سدباب کرنا ہوگا ۔یہ ایک چبھتی ہوئی حقیقت ہے اس سے آنکھوں کو بند نہیں کیا جاسکتاہے۔ تعلیمی ادارے میں بدعنوانی یعنی کرپشن کس قدر خطرناک ہے اس کا اندازہ کچھ اس طرح سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک اسپتال میں نوجوان ڈاکٹر آتاہےاس کے سامنے ایک مریض درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہے لیکن وہ ڈاکٹر فوری طور پر علاج کرنے کے بجائے مریض کے گھر والوں سے اسپتال کا پیشگی بل جمع کرانے کی ہدایت کرتا ہے.پھروہ کس طرح ملک و قوم کی خدمت کریں گے جبکہ وہ تو لاکھوں روپےکی فائنانس کرکے اپنے عہدوں پر آرہے ہیں کیا ہمارے تعلیمی ادارے ان کو یہ تعلیم وتربیت دے رہے ہیں کہ ان کو وطن عزیر کی خدمت نہیں بلکہ اپنے مفادکے لیے کچھ کرنا ہے. کیا ان کے پیش نظر یہ یہ ہے ،کہ جو شاعر مشرق علامہ اقبال نے ہونہاروں کو نصب العین دیا ؟
ہومرا کا م غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
آج ہر طرف احتساب احتساب کے نعرے بلند ہورہے ہیں کیا یہ حقیقی احتساب ہے ۔ یہ ہر گز احتساب نہیں ہے بلکہ یہ تو روح احتساب سے بھی میلوں دور کی بات ہے ۔ یہ بات ہرگز غلط نہیں ہے آیئےذرا ماضی کے جھروکوں سے دیکھیں یہ خواب نہیں حقیت ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعا لیٰ خطبہ دینے کے کھڑے ہوتے ہیں اور ایک شخص اٹھ کر کہتا ہے” کہ ہم آپ کی بات ہرگز نہیں سنیں گے خلیفۃالمسلمین ! جب تک کہ آپ یہ نہ بتادیں کہ یہ جو کرتا آپ نے پہنا ہوا ہے یہ کس طر ح آپ نے سلوایا جبکہ کپڑا جو کہ مال غنیمت سے ملا ہے وہ تو آپ کے قد کے حساب سے چھوٹا ہے ” حضرت عمر نے جواب دیا ” ہاں کپڑ ا چھوٹا تھا مگر میرے بیٹے عبداللہ نے اپنے حصے کا کپڑا مجھے دیا کیوں کہ اتنے کپڑے میں میرا کرتا تیار نہیں ہوسکتاتھا”۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی کو بلایا گیا انہوں نے گواہی دی ۔ اس کے بعد آپ نے تقریر فرمائی۔ وہ مدینے کی فلاحی اسلامی ریاست کا سربراہ تھے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ گزشتہ ستر سالوں میں کبھی بھی مدینے جیسی فلاحی ریاست کے قیام کی بات نہیں کی گئی اور اب جومدینے کے قیام کی بات کی تو قول وفعل کی حد تک ہی ہے، عملی مظاہرہ کہیں بھی نظر نہیں آیا.
آج بھی مدینے کی ریاست کی بات کی جارہی ہے اللہ کرے یہ ریاست بھی مدینے کی ریاست بن جائے مگر صرف خواہش سے تو بھاپ کا انجن تیار نہیں ہوا تھا۔یہ تو ایک جہد مسلسل ہے ۔ اصل میں تو پاکستان کے وجود میں لانے کا مقصد ہی مدینے کی ریاست کی داغ بیل ڈالنی تھی اور یہی وعدہ ہمارے اسلاف نے اپنے رب سے کیا تھا۔پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کا منشور اور ان نصب العین تمام عوام کے سامنے آنا چاہیے کس جماعت کا یہ منشور ہےکہ مدینے جیسی ریاست کی تیاری ان سیاسی جدجہد کا مقصود ہے ۔ کیونکہ جو لوگ دانتوں کے لیے منجن بھی بچتے ہیں ان کے دانت موتیوںکی طرح صاف اور چمکدار ہوتے ہیں۔ بائیس کروڑ عوام بائیس کروڑ اینٹیں ہیں ،اس پوری عمارت کی جس کا نا م پاکستان ہے ۔ہر ایک کی اپنی اہمیت ہے اپنی جگہ پر ،جس طرح سیلابی ریلا بند کی ہر اینٹ کی مضبوطی کا امتحان لیتاہے اسی طرح ہم بھی اپنے امتحان سے دوچار ہیں ۔