کچھ روز پہلے معذور افراد کی مخصوص نشست پر تقرری کے لیے انٹرویو پینل میں بطور “خاتون رکن” شامل تھی۔ ایک نشست تھی اور ١۵ امیدوار۔ ایک توایسے افراد کو دیکھ کر دل بہت دکھی ہوجاتا ہے.اوردوسرےلمحےاحساس تشکر بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم میں سے کتنوں کو اللہ نے ایک مکمل انسان بنایا ہے ۔ ہاتھ، پاؤں، بازو،ٹانگیں،آنکھیں، کان غرض ایسی بے شمار نعمتیں جن کا کبھی احساس ہی نہیں ہوسکا ، نہ ہی کبھی یہ احساس ہوا کہ ان نعمتوں کے لیے اللہ ربی کا شکر ادا کریں اور اللہ ربی کی طرف سے عطا کی گئی نعمتوں کا مثبت استعمال کریں.
امیدواروں کے انٹرویو لینے کے بعد یہ حیران کن بات سامنےآئی کہ پندرہ افراد میں سے دو افراد پیدائشی طور پر معذور تھے اور باقی تمام امیدوار کسی حادثے کے نتیجے میں معذور ہوئے ،یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بے احتیاطی، غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے کتنی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں. یہ لاپرواہی زیادہ تر تو سڑک پر برتی جاتی ہے. بالخصوص تیز رفتار کی وجہ سے اور کبھی ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے. کچھ امیدواران بچپن میں والدین کی غفلت کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوئے.
جس اسامی کے لیے انٹرویو لیا جا رہا تھا اس میں کام کی نوعیت ایسی تھی کہ فیلڈ جاب تھی اور اکثر اوقات ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر بھی کرنا تھا. ایسے میں ایک امیدوار ایسا آیا جس کی ٹانگیں متاثر تھیں اور وہیل چیئر پر تھا. اس سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کام کی نوعیت اور ذمہ داری سے آگاہ ہیں اور اگر ہیں تو یہ بتائیں کہ کام کرنے کے لیے آپ کی کیا منصوبہ بندی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ تھا کہ آپ جس بھی فرد کو رکھیں گے وہ عام نارمل فرد تو نہیں ہو گا تو میں بھی کر لوں گا کام. اس فرد کے اندر مایوسی انتہا درجے کی تھی اور ہر سوال کا جواب کاٹ کھانے کے انداز میں دے رہا تھا. محرومی کے احساس نے مایوسی اور چڑچڑا پن پیدا کردیا تھا. اس رویے سے یہ اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ احساس محرومی ، دلوں میں غصہ، نفرت، بدگمانی اور مزاج میں چڑچڑاپن پیدا کر دیتا ہے.
1998 کی مردم شماری کے مطابق معذور افراد کی تعداد کل آبادی کا % 2.38ہے جب کے 2017 کی مردم شماری کے مطابق معذور افراد کل آبادی کا %0.48 ہیں لیکن 2017 کی مردم شماری پر تحفظات رہے ہیں. پاکستان میں معذور افراد کی بحالی اور تعلیم کے لیے مختلف ادوار میں قانون سازی ہوتی رہی ہے. 1981، 2002 اور 2006 میں معذور افراد سےمتعلق آئین میں تبدیلیاں کی گئیں اور معذور افراد کی تعلیم و بحالی کے لیےمحکمہ”سوشل ویلفیئرو خصوصی تعلیم” کو ذمہ دار بنایا گیا. ایسے افراد کو خصوصی حقوق مثلا خصوصی شناختی کارڈکا اجراء، تعلیمی فیس میں کمی، ذرائع آمدورفت میں خصوصی رعایت، ہر صوبائی شعبہ میں آنے والی آسامیوں میں ٪2 کوٹہ مختص کیا گیا.
تعلیم کے حصول کے لیے تو کافی حد تک آسانی ہے اور یہاں تک محکمہ سوشل ویلفیئر کے اقدامات تسلی بخش ہیں. مذکورہ انٹرویو میں کلاس فور کی آسامی کے لیے آئے ہوئے امیدواران میں سے صرف دو امیدواروں کی تعلیم پرائمری تھی. اس کے علاوہ تمام امیدواران گریجویٹس تھے. تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایسے افراد کے لیے کام تلاش کرنا یاخود آزادانہ کام کرنا ایک مشکل امر ہے ، انھیں کسی نہ کسی فرد کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے جو بعض اوقات تو مل جاتا ہے اور اکثر اوقات ایسے افراد کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور نتیجہ ایسے افراد میں بیزاری، چڑچڑاپن اور مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے.
قدرت نے معذور افراد (یا “خصوصی افراد” کہنا زیادہ مناسب ہے)، میں کوئی ایک کمی رکھی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی کسی اور صلاحیت سے بھی نوازا ہوتا ہے. تعلیم تو جیسے تیسے ایک فرد حاصل کر لیتا ہے چاہے خصوصی ادارے تک پہنچنا مشکل ہو عام ادارے سے ہی تعلیم حاصل کر لے لیکن اس کے بعد کسی کام کا حصول بہت اہم کام ہے. ایسے افراد میں موجود خصوصی صلاحیت کی پہچان اور اس صلاحیت کو چمکانے اور بہتر انداز میں کام میں لانے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے.
کسی اسامی کے لیے ایک جسمانی معذوری کے ساتھ کام کرنا مشکل ہوتا ہے. مثال کے طور پر ایک فرد چل نہیں سکتا تو وہ ایک فیلڈ جاب کیسے کر سکتا ہے. جیسے ہی کوئی فرد معذوری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرے، اسی وقت اس کی جسمانی و ذہنی حالت کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے کام کا بندوبست ہونا چاہیئے. اگر ایک فرد چلنے سے قاصر ہے تو اس سے کمپیوٹر پر ٹائپنگ، کمپوزنگ، پرنٹنگ،ویب ڈیزائننگ، ویب ڈویلپنگ، ڈیٹا انٹری آپریشن کا کام کرایا جا سکتا ہے.ایک فرد جس کی بینائی کا مسئلہ ہے اس کی مناسب تربیت کے بعد ٹیلی فون آپریٹر، کال سینٹر ورکر، کسٹمر سروس سینٹر، کنٹرول روم اور کونسلر (counselor) کا کام کرایا جاسکتا ہے. اس طرح سے ایسے افراد کی کسی کمزوری اور خصوصی صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے کام پر لگایا جاسکتا ہے جو وہ فرد آسانی کے ساتھ کر سکے اور متعلقہ شعبہ(جس میں ایسے کسی فرد کو لگایا گیاہے)کا کام بھی متاثر نہ ہو.
محکمہ سوشل ویلفیئر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے خصوصی افراد کے لیے موثر منصوبہ بندی کرے اور ہر فرد کی خصوصی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اس فرد کے کام کرنے کا بندوبست کرے. کیوں کہ خصوصی افرادکو بھی عام انسانوں کی طرح حقوق حاصل ہیں اور انھیں بھی بھر پور زندگی جینے اور اچھی زندگی گزارنے کا حق ہے. اگر انھیں اپنی خصوصی صلاحیت کے حساب سے کام دیا جائے تووہ بھی ایک کارآمد شہری بن سکتے ہیں. اس طرح وہ خود بھی کسی پر بوجھ نہیں ہوں گے اور معاشرے کے لیے بھی مفید شہری ثابت ہوں گے.