25 جولائی 2018 بدھ کا دن پاکستان کی تاریخ میں بہت بڑا دن تھا ، ہر عام آدمی کی طرح میں بھی بہت خوش ہوا تھا کہ عمران خان جیسا کمال شحص پاکستان کی تقدیر کو بدلنے کے لیے منتخب ہو گیا ہے۔اور میری عمر کے لوگ بھی پاکستان کو بدلتا ہو ا دیکھ پائیں گے ۔حالاں کہ عمران خان کے تبدیلی رضاکاروں میں لوٹوں کی بھرمار تھی لیکن ہم تو عمران خان کی کمال شحصیت کے اسیر تھے اور کسی اور کی طرف دھیان لے کر جانے کے لیے تیار ہی نہ تھے بلکہ عمران خان کی اس بات پر پختہ یقین کیے ہوئے تھے کہ اوپر بندہ ٹھیک ہو تو نیچے معاملات میں شفافیت رہتی ہے اور کسی کی جُرات نہیں ہوتی کہ کرپشن کر سکے ، لیکن پچھلے سولہ مہینوں میں تبدیلی کے جو پرخچے عمران خان اینڈ کمپنی نے اُڑائے ہیں اُس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔
خان صاحب نے ایک پاکستان بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک دو پاکستان ہی چل رھے ہیں ۔ایک امراء کا پاکستان ہے او ر ایک عام عوام کا پاکستان ہے۔ خان صاحب پتہ نہیں کون سے ایک پاکستان کی بات کرتے ہیں جہاں عدالتوں کے انصاف سے لے کر اسپتالوں کے علاج تک میں فرق ہے . غریبوں اور امیروں کے لیے ہر قانون مختلف ہے۔ جب نیب جیسے ادارے سیاسی انتقام کے لیے استعمال ہو رہے ہوں تو کون سا نیا پاکستان، جب 1000 ارب کا مجرم پچاس روپے کا اسٹام پیپر دے کر ملک سے باہر چلا جائے تو کون سا نیا پاکستان ، جب ملک کا وزیراعظم پوری دنیا میں این ار او نہیں دوں گا کا شور مچائے اور اُس کی حکومت کے پہلے سال میں ہی صورتحال اُس سے مختلف نظر آئے تو کون سا نیا پاکستان۔۔۔۔۔
اصل میں ایک پاکستان اور پاکستان کی معیشت خان صاحب کی ترجیحات میں تھیں ہی نہیں ، خان صاحب پہلے دن سے احتساب کے پیچھے بھاگتے نظر آتے تھے لیکن ایک سال پورا ہونے کے بعد نہ احتساب ہو سکا اور نا ہی معیشت ٹھیک ہو سکی۔ ایک کریڈٹ عمران خان صاحب کو ضرور جاتا ہے اور وہ اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا کہ پاکستان کی تاریخ میں عمران خان وہ واحد لیڈر ہیں جنھوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران ووٹ لینے کے لیے قوم سے جتنے بھی وعدے کیے اُن میں سے ایک بھی وفا نہیں ہو سکا اور اس بات کے لیے قوم اُن کو کبھی معاف نہیں کرے گی کیوں کہ جتنا اعتماد عوام نے خان صاحب پر کیا ہے ماضی میں شاید ہی کسی اور سیاسی لیڈر کو نصیب ہوا ہو لیکن جب سے تحریک انصاف حکومت میں آئی ہے خان صاحب نے تمام کا م ا پنی ماضی کی تقریروں اور وعدوں کے برعکس کر کے ثابت کر دیا کہ اُن میں اور ماضی کے سیاست دانوں میں کوئی فرق نہیں اور سیاسی تقریروں اور وعدوں کا حقیقی سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ صرف ووٹ لینے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے بولے اور استعمال کیے جاتے ہیں۔
اس وقت خان صاحب سے لوگ بہت زیادہ مایوس ہیں اور ایسے میں نواز شریف کا پیسے دیے بغیر ملک سے باہر جانا تحریک انصاف کی حکومت کی آخری غلطی ثابت ہو سکتی ہے او ر عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ خان صاحب کی تقریروں کو سنجیدگی سے نہیں لینا ، کیوں کہ وہ ساری باتیں صرف ووٹ لینے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ہوتی ہیں سچائی کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔