توقیررمضان
ہائے کوئی تو میرے بچے کا بھی دام لگائو،میں مر گیا کوئی تو میرا بچہ خرید لو،اس سمیت کئی مختلف اور دلخراش آوازیں کسی اغواء کاروں کی بولی میں نہیں سنی گئیں بلکہ گزشتہ روز قبل پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ہر شہر سے سنی گئیں جب پاکستان کسان اتحاد کے ہزاروں کارکنان نے اپنے اپنے علاقے کی سڑکوں کو بند کرکے بلوں میں نئے ٹیکسز کے نفاذ پر اپنا روایتی احتجاج ریکارڈ کروایا اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پنجاب بھر کے کسانوں نے مختلف شہروں کے واپڈا کمپلیکس کا گھیرائو کرکے اپنے بلوں کو نظر آتش کردیا،مجھ سمیت ہر راہ گیر نے اس احتجاج کو محض ایک روایتی احتجاج سمجھا کوئی چل پڑا تو کسی نے ان کاتماشا دیکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ پنجاب کے ہرضلع میں کسان اتحاد کی تنظیوں نے اپنے احتجاج ریکارڈ کروانے کے بعد سڑک کو کھولا تو کچھ یوں محسوس ہوا کہ اب یہ ہزاروں کسان واپس چل پڑیں گے مگر ایسا تو دور دور تک نہ دیکھنے کو ملا،کسانوں نے ایک ہی وقت میں پنجاب بھرکے اضلاع میں اپنے تنظیموں سے رابطہ کے بعد ہر شہر میںبولیاں لگانا شروع کردیں۔ مجھ سمیت کئی راہگیروں نے تویوں سمجھا کہ کسان اپنی ان فصلوں کی بولیاں لگائیں گے جن میں انہیں رواں سال شدید خسارے کا سامنا رہا اور یہ کسان ان فصلوں پر آنیوالے اخراجات کو پورے کرنے کے لیے اپنی تمام تر طبع دو کریں گے مگر جو کسانوں نے کیا وہ سب دیکھنے والوں کی سوچ سے الگ تھا۔احتجاج کے بعد کسان مختلف سواریوں پر اپنے بچوں کو لاد کراسی احتجاج میں لے آئے اور ان کے سینے پر’’بچہ برائے فروخت‘‘کی تختیاں آویزاں کردیں اور کسانوں نے علامتی طور پر اپنے بچوں کی بولیاں لگانا شروع کردیں۔یہ واقعہ مجھ سمیت ٹریفک روانگی کے انتظار میں کھڑے ہر اک شہری کے لئے دلخراش تھا اور ہر کوئی یہی سوچ رہا تھا کہ یار اچھا اور برا وقت تو آتا رہتا ہے مگر آج تک بھلا کبھی کسی نے اپنی اولاد کو بھی فروخت کیا، ہر بندہ یہی سوچ رہا تھا کہ چاہے علامتی طور پر ہی بولی ہے مگر ایسا کیوں۔ کسانوں کے اس احتجاج سے ہر راہگیر کے ارمانوں کو ٹھیس پہنچی مگر کسانوں کی اس علامتی بولی کی وجہ ان سے جاکر پوچھنے کو کوئی تیار نہیں تھا۔
سڑک پر میرے ساتھ کھڑے ایک صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یار آپ تو ان سے پوچھو آخر کیا وجہ ہے کہ کیا ان کے پاس بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں یا کوئی اور وجہ ہے ان کی اس علامتی بولی کے پیچھے ،میں نے ان صاحب کی طرف مڑ کر دیکھا تو ان کی بات دل کو چھورہی تھی تو میں سڑک پر لگی اس بولی میں گیا تو وہاں پر کچھ کسان بیٹھے تھے جن سے بات کی تو کسی کے پاس کوئی خاص وجہ نہ تھی یا شاید ان کے پاس اپنے مسئلے کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں تھے،اسی دوران ایک کسان سے بحث کے دوران سوالات کا جواب نہ دیئے جانے پر اس کسان نے اپنا اشارہ سامنے کھڑے ایک شخص کی طرف کیا اور بولے یہ وہ صاحب ہیں جن پر ہمیں مکمل بھروسہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہی ہمارے حق کی جنگ لڑیں گے اور آج کی علامتی بولی بھی ہم ان کی قیادت میں ریکارڈ کروارہے ہیں ،معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان صاحب کا نام چوہدری رضوان اقبال ہے اور وہ اسی تنظیم پاکستان کسان اتحاد کے صوبائی صدر ہیں۔ اپنے سوالات کا جواب جاننے اور وہ صاحب جو سڑک پر کھڑے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے ان کو جواب دینے کے لیے میں چوہدری رضوان اقبال کی طرف بڑھا ،سلام دعا کے بعد چوہدری صاحب سے معمول کی باتوں کے بعد جب میں نے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کسانوں نے ہر ضلع کی سڑک کو بند کردیا ہے اور پھر بجلی کے بلوں کو ادا کرنے کی بجائے انہیں جلارہے ہیں، تو وہ بولے سڑک پر کھڑا ہر بندہ ہی ہمیں غلط سمجھ رہا ہے مگر اگر کوئی یہاں پر آ کر ہمارا حال دریافت کرے تو مجھے یقین ہے کہ وہ واپس جانے کی بجائے ہمارے اس احتجاج اور علامتی بولی کا حصہ بنے گا۔
چوہدری رضوان اقبال کے الفاظ سن کر میں پریشان ہوا اور ان سے پوچھا کہ کیا کسان اتنا دکھی ہے ،تو وہ بولے کسان کے دکھ سنتا ہی کون ہے نئی حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل وعدہ کیا کہ زراعت کو مستحکم کریں گے مگر اب کسی کو اپناوعدہ یاد نہیں ،میرے سوال پر وہ بولے کہ صوبہ پنجاب کے ہر ضلع میں احتجاج کرنے کی وجہ یہ ہے حکومت ہمیں مکمل طور پر تباہ کررہی ہے، حکومت کی نئی ظالمانہ پالیسیوںکے باعث کئی کسان دلبرداشتہ ہوکر اسی شعبہ کو خیر آباد کہہ رہے تھے تو میں نے ان کو حوصلہ دیا اور یہ یقین دلوایا کہ آپ کا ہر مسئلہ حل کرائوں گا،حکومت کی نئی پالیسی کچھ یوں ہے پاکستان کا کسان جو کہ بیش بہا پریشانیوں میں گھیرا ہواہے وہ زرعی ٹیوب پر 5 روپے 35 پیسے فی یونٹ کے حساب سے ادا کرتا تھا مگر اس حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کے باعث اب نئے ٹیکسز نافذ کردیئے گئے جس کے باعث کسانوں کو13 سے 14 روپے فی یونٹ ادا کرنے پڑرہے ہیں،کسانوں کے مسائل بہت بڑھا دیئے گئے ہیں،ان صاحب کی باتوں میں دم تو تھامیں اپنے سوالات کے جواب جاننے کے لیے مزید وہاں پر رک گیا تو چوہدری رضوان اقبال نے بتایا کہ کسان اپنے خون پسینے سے کپاس اگاتا ہے اس پر خرچے کرتا ہے مگر جب فصل تیارہوتی ہے تو اس ریٹ انتہائی کم کردیا جاتا ہے جب کسانوں کے اخراجات ہی نہ پورے تو کئی کسان دلبرداشتہ ہوکر زراعت کو خیر آبادکہتے ہیں جس سے ملکی معیثت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا شعبہ متاثر ہورہا ہے، حکومت آئے روز فصلوںکے ریٹ کم کردیتی ہے جب کہ فصل کی تیاری میں استعمال ہونیوالے اشیاء یعنی ڈیزل،بجلی،کھادکے ریٹ بڑھادیتی ہے،ناقص پالیسیوں کے باعث رواں سال ہماری میجر فصل کپاس کی پیداوار میں 50 فیصد،چاول کی پیداوار میں 40 فیصد اور مکئی کی پیداوار میں 35 فیصد کمی آئی ہے، فصلوں کے ریٹ کئی کئی سال پرانے ہیں جبکہ ٹیکس نئے بنادیئے جاتے ہیں ،جس سے ہر سال ہی وہ کسان جس سے پوری قوم کی امیدیں وابستہ ہوتی ہے شدید مالی خسارے میں رہتا ہے ۔ان صاحب نے مزید کہا کہ پاکستان کے کسان پر نوبت اپنے بچوں کو فروخت کرنے کی آچکی ہے مگر ایوانوں میں بیٹھے بے حس حکمرانوں کو کسان کی یہ صورتحال ایک تمسخرلگتی ہے،میں نے پوچھا کہ چوہدری صاحب اولاد کو بندہ کبھی بھی نہیں چھوڑتا آپ بیچنے کی بات کررہے ہیں تو وہ بولے کہ واقعی اولاد کو کوئی کبھی اپنے سے دور نہیں رکھتا ہے مگر ہم اپنے بچوں کو یہاں پر علامتی طور پر بیچنے کے لیے لائے ہیں تاکہ کسانوں کے بچوں کی فروخت کے لیے پنجاب کے ہر ضلع میں لگی یہ علامتی بولی حکمرانوں کو شرم دلا سکے اور کسان کے اس قدم سے حکومت کو کسانوں کی صورتحال کا اندازہ ہوسکے،پنجاب بھر کے کسانوں کی امیدیںہم سے وابستہ ہیں اگرہمارا یہ قدم حکمرانوں کو نہ جگا سکا تو پھرہمارا اگلا لائحہ عمل 27 نومبر کو پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنے کا ہے جس کے بعد 28 نومبر کو ہزاروں کی تعداد میں کسان پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد کا گھیرائو کرکے اپنے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔چوہدری رضوان اقبال جو کہ زراعت کی موجودہ صورتحال پر اپنی دکھ سے بھری کہانی سنارہے تھے ان کی ہر ایک بات کو سن کر میں بھی سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کسان بچے نہ بیچیں تو پھر کیا کریں۔