بات ٹماٹر کی نہیں ہے

5جون2017 میں سعودی عرب ۔متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرف سے قطر حکومت پرسیاسی و سفارتی پابندیوں نے پورے خلیج کی اقتصادی صورت حال کو بھی متاثر کیا تو سب سے زیادہ معاشی پالیسیوں اور اقتصادی استحکام کا مسئلہ قطر کو درپیش ہوا کیونکہ قطر سعودی عرب کے مقابلہ میں بلحاظ رقبہ ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ایسے حالات میں قیمتوں میں گرانی،چور بازاری،کاروباری افراد کی ذخیرہ اندوزی،مارکیٹ میں اشیا کی کمی بھی قدرتی ہو جاتی ہے،ایسے حالات میں وہی حکومت فلاحی حکومت کہلانے کی حق دار ہوتی ہے جس کی پہلی ترجیح عوامی ریلیف ہواور میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ حکومت ِ قطر نے اپنی عوام سے صرف نو ماہ کا وعدہ کیا کہ معاشی حالات،اشیا کی فراہمی اور قیمتوں میں استحکام کو ممکن بنا دے گی،اور میں نے ایک ریسیرچ پیپر بعنوان قطرپر اقتصادی پابندیوں کے خطے پر اثرات میں یہ بات ثابت بھی کی کہ صرف چھ ماہ کی ریکارڈ مدت میں قطر اپنے پائوں پر کھڑا تھا خاص کر ڈیری پراڈکٹ جو کہ خلیج کا سب سے بڑا ہے اسے بہت قلیل عرصہ میں ہی اپنی درآمدات میں اضافہ کر کے قابو کر لیا گیا۔یہ ہوتی ہے ایک فلاحی ریاست کہ جس میں عوام اور ان کی بہم کردہ سہولیات کو ہر ممکن طریقےسے عملا ثابت کیا جائے کیونکہ عوام کی فلاح میں ہی ریاست کی فلاح مضمر ہوتی ہے اور قطر حکومت اس میں سو فیصد کامیاب دکھائی دی۔

پاکستان میں بھی آجکل اشیائے خوردنی و ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھوتی دکھائی دے رہی ہیں،اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ اشیائے خودونوش کی قیمتوں میں گرانی روزبروز ہوتی جا رہی ہے۔اپنے قارئین کی یادداشت کے لئے عرض کرتا چلوں کہ ایوب خان کے دور ِحکومت میں آٹے کی قیمت فی من صرف بیس روپے ہی ہوئی تھی کہ عوام سے لے کر اہل قلم کی چیخیں نکل گئیںتھی اسی پس منظر میں یاد ہوگا کہ حبیب جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم لکھی تھی کہ

بیس روپے من ہے آٹا

اس پر بھی ہے سناٹا

صدر ایوب زندہ باد

بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں گرانی وارزانی ریاستوں میں معمول ضرور ہوتا ہے لیکن یہ تن مسئلہ اختیار کر جاتا ہے جب کسی ملک میں اشیا ئے خوردونوش میں اضافہ کے پیچھے چند عوامل منفی کردار ادا کر رہے ہوں جیسے کہ کاروباری اداروں یا افراد کا ذخیرہ اندوزی کرنا،طلب ورسد میں عدم توازن،معاشی ماہرین کا اعداد وشمار کے کھیل میں پڑ جانا،حکومت کی عدم توجہی ودلچسپی،یہ تمام ایسے عوامل ہیں کہ جن کو اگر کنٹرول نہ کیا جائے تو قیمتوں کا کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ ن لیگ کے دورِحکومت میں آٹے کی مصنوعی قلت اور چکن کی قیمتوں کومقرر کیا جاتا رہا ہے،مشرف کے دورِ حکومت میں چینی کی مصنوعی قلت بھی ماضی قریب کی بات ہے اور وہ لوگ مشرف کابینہ کے ممبر بھی تھے۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے اب تک کون سی ایسی حکومت آئی ہے جس نے اشیائے صرف کو سستا کر کے اس کو اپنے کنٹرول میں بھی رکھا ہے۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس ملک میں مارکیٹ کمیٹی کے انسپکٹر حضرات آڑھتیوں کی دکانوں میں بیٹھ کر ان کی مرضی سے اشیا کی قیمتیں مقرر کرتے ہوں وہاں حالات کا بدلنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو اگر حکومت کے خلاف عوام صارفین تنظیم بنا کر اشیائے کی قیمتوں کو بڑھنے سے روک لیں۔اس ملک میں بچوں کی حفاظت سے لے کر حقوق نسواں کے علمبردار کی سیل لگی ہوئی ہے کیا ایسے این جی اوز کو قیمتوں کے مقرر کرنے اور اشیائے خوردونوش کے معیار کو جانچنے کے لئے کبھی کسی صارفین تنظیم کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا؟اگر کوئی صارفین کی تنظیم عوام میں یہ آگاہی مہم ہی چلا دے کہ آئو مل کر ایک ہفتہ ٹماٹر کا استعمال ترک کر دیں تو ٹماٹر ایسی سبزی ہے جسے طویل عرصہ کے لئے ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا ،جیسے کسی دور میں آلو سڑکوں پر نظر آتے تھے ایسے ہی ٹماٹر بھی ذلیل ورسوا ہوتے دکھائی دیں گے،لیکن میرے ملک میں عوام تو ذلیل ورسوا ہو سکتی ہے ٹماٹر نہیں ،کیونکہ ہر ٹماٹر کے پیچھے ایک ٹماٹر نما چہرہ ہے جو کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی قیمت میں کمی آئے۔

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت نے زمام اقتدار سنبھالا ہے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا کوئی کنٹرول نظر نہیں آیا ،ٹھیلے والے سے لے کر مال تک کے تمام مالکان اپنی مرضی سے ٹیکس اور قیمتیں مقرر کئے جارہے ہیں،ٹماٹر کی بڑھتی قیمت نے تو حد ہی کر دی۔لیکن میں نے جیسے کہ پہلے عرض کیا کہ قیمتوں میں گرانی کوئی نئی بات نہیں ہے ٹماٹر ہر سال انہیں دنوں مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں جس کی وجوہات کا حکومت سے لے کر اپوزیشن تک کو مکمل ادراک اور علم ہے۔سوال یہ ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟وزرا کی ایک فوج ظفر موج دوکانداروں کی من مانیوں کو روکنے سے کیوں قاصر ہے،معاشی ٹیم جمع منفی اور اعداد وشمار کے چکر سے عوام کو چکر دینے میں مصروف عمل ہے،طلب ورسد کے قوانین کو کیوں مدنظر نہیں رکھا جا رہا،چیک اینڈ بیلنس کون کرے گا؟یہ وہ سوالات کا جن کا جواب عوام حکومت وقت سے ہی طلب کرے گی۔اور حکومت کو اس بات کا ادراک بھی ہونا چاہئے کہ ٹماٹر اگر مہنگا ہو گیا ہے تو دہی کے استعمال کا طریقہ بتانے کی بجائے ٹماٹر کی قیمتوں کو آسمان سے نیچے اتارنے کے لئے عملی اقدامات کر کے عوام کے دکھ کا مداوا کرنے کی بھرپور سعی کرنا چاہئے تاکہ عوام کے دل میں موجودہ حکومت کی جوقدر ہے اس کو بحال رکھا جا سکے۔لہذا بات ٹماٹر کی نہیں بلکہ عوام کے دکھ کے احساس کی ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں