وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ “سپریم کورٹ طاقتور اور کمزور کیلئے الگ الگ قانون کا تاثر ختم کرے۔ موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور آئندہ چیف جسٹس گلزار احمد سے گزارش کرتا ہوں کہ انصاف کے لیے کردار ادا کریں”۔ وزیر اعظم کی بات تو سولہ آنے سچ ہے لیکن بات ہے بہت رسوائی کی۔ رسوائی کی یوں کہ جب ملک میں ہر قسم کے ادارے موجود ہوں، عدل فراہم کرنے والے بھی، قانون اور آئین سازی کرنے والے بھی، لوگوں کو احتساب کے شکنجے میں کسنے والے بھی، سرحدوں کی رکھوالی کرنے والے بھی اور ہر قسم کی آئینی اور قانونی شقوں پر عمل درآمد کرانے والے بھی تو کسی بھی ملک کے سربراہ کو اپنے آپ کو عوام کے سامنے اس طرح پیش کرنا جیسے وہ کوئی “ہرکولیس” ہیں یا “سپرمین” جو اپنے قوت بازو سے کام لیتے ہوئے جس کے چاہے جبڑے توڑ ڈالے اور جس کو چاہے سر عام پھانسی کے پھندے میں لٹکا دے۔
موجودہ دور میں کسی بھی ملک کا سربراہ حاکم کل نہیں ہوا کرتا بلکہ جو آئین اور قانون رائج ہوتا ہے اس کی حدود میں رہتے ہوئے وہ ملک میں نہ صرف آئین و قانون کی بالا دستی کو قائم کرتا ہے بلکہ اپنی مقررہ حدود میں کام کرتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ایسی منصوبہ بندی کرتا ہے کہ عوام اور ریاست خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکیں۔ یہ پرانے وقتوں کی بات تھی جب بادشاہت کا دور ہوا کرتا تھا اور فرد واحد ہی سب کچھ ہوا کرتا تھا اور یہی اختیارات کی لا محدودیت اس کو ناخدا سے “خدا” بنادیا کرتی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ عام لوگ سانس بھی اپنی مرضی سے نہیں لے سکتے تھے۔
کبھی کبھی ہمارے ملک میں “صدارتی” نظامِ حکومت کی باتیں بھی بازگشت کرنے لگتی ہیں۔ عام خیال یہ کیا جاتا ہے کہ صدارتی نظام میں صدر مثل شہنشاہ” ہی ہوا کرتا ہے لیکن یہ تاثر درست نہیں۔ بے شک اس نظام میں صدر کے اختیارات وزیر اعظم کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اس ملک کے آئین و قانون نے اس کو جتنی گنجائش دی ہوئی ہوتی ہے، صدر ان حدود سے کسی بھی طور باہر نہیں نکل سکتا۔ یہ سارے زاویے ہائے نظر اس بات کی دلیل ہیں کہ ہر ملک کا اصل حکمران نظر آنے والا حکمران نہیں ہوتا بلکہ وہ آئین و قانون ہوتا ہے جس پر سب اتفاق کر چکے ہوتے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ آئین و قانون انسانوں کی اپنی اختراع ہو یا اللہ کے پیغمبروں کے لائے ہوئے احکامات کا مجموعہ۔
یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس ایک متفقہ آئین ہے لیکن بد قسمتی سے ایک متفقہ آئین ہونے کے باوجود بھی آئین کی حکمرانی کا جو تصور ہر مہذب ملک کی پہچان ہوتی ہے وہ تصور پاکستان میں 1973 سے لیکر آج تک نظر نہیں آیا بلکہ عوام کو جو بات سمجھ میں آئی وہ یہی ہے کہ آئین یا قانون وہی ہوتا ہے جو اس ملک کے تختِ اقتدار پر بیٹھے ہوئے حاکم کی مرضی و منشا ہوتی ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو ہر حکمران کے لب و لہجے سے آشکار ہوتی چلی آئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند برسوں سے ہماری کورٹ بے پناہ دباؤ کے باوجود بھی بہت سارے فیصلے آئین و قانون کے مطابق کرتی چلی آ رہی ہے۔ شاید اس تبدیلی کی وجہ عوام کا دیا ہوا وہ اعتماد ہے جس کی وجہ سے عدلیہ کی عزت و آبرو ایسے موقع پر بحال ہوئی جب ملک پر ایک مختارِ کل کی حکمرانی تھی اور اس نے پاکستان کی عدلیہ کے 60 ججوں کو بیک جنبش ابرو ان کے عہدوں سے بر طرف کردیا تھا جس کی وجہ سے عوام عدلیہ بحالی کیلئے سڑکوں پر نکل آئے تھے اور عوامی جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے ایک مطلق العنان حکمران کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اس وقت سے یہ بات نوٹس میں آرہی ہے کہ ہماری عدالتیں بے پناہ دباؤ کے باوجود بھی نہ صرف منصفانہ فیصلے کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں بلکہ وہ بہت سارے وہ دباؤ جو وہ محسوس کرتی ہیں ان کیلئے بھی عوامی اور خواصی سطح پر آوازہ احتجاج بلند کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کے رہائی اور ملک سے باہر جانے کی راہ میں نہ تو کوئی قانونی رکاوٹ تھی اور نہ آئین کی کوئی دیوار ان کی راہ میں حائل تھی۔ اگر کوئی بات مزاحم تھی تو وہ عوام کے سامنے کئے گئے عمران خان کے دعوے تھے۔ جس کی وجہ سے ہر عام و خاص کے دل میں یہ بات ثبت ہو کر رہ گئی تھی کہ خواہ نواز شریف مر ہی کیوں نہ جائیں، ان کو جیل کی کال کوٹھڑی سے باہر نہیں آنا چاہیے۔
بات یہ ہے کہ جب رہبران قوم اپنے آپ کو عوام میں اس طرح پیش کریں گے جیسے وہ پرانے زمانے کے شہنشاہوں کے سے اختیارات کے مالک ہیں اور وہ جو چاہیں سو کر سکتے ہیں، جن کو موت کی سزا سنائی جاچکی ہو ان کو پھانسی کے پھندے سے بھی واپس لا سکتے ہیں اور جن پر کوئی فرد جرم بھی عائد نہ کی گئی ہو، اس کو پھانسی کے پھندے میں لٹکا سکتے ہیں تو پھر وہ تما معصوم عوام جو یہی مناظر دیکھنے کے خواب دیکھ رہے ہوں، ان پر آئین و قانون کے مطابق دی گئی رعایتیں آسمانی بجلی کی طرح ہی گرا کرتی ہیں اور پھر ہوتا یوں ہے کہ ان کا اعتماد اپنے رہبرو رہنماؤں پر سے اتر نے لگتا ہے اور مایوسی کی ایک لہر ان کی روح کے اندر تک سرائیت کرجاتی ہے۔
نواز شریف کے ساتھ جو بھی اس وقت ہو رہا ہے وہ بظاہر آئین و قانون کے مطابق ہی ہو رہا ہے لیکن جب بات خواہش سے آگے نکل کر انا کے درجے میں جا پہنچتی ہے تو پھر ذہنی دباؤ دو دو دن آرام کرنے پر مجبور کردیا کرتا ہے لیکن عقل مند افراد آرام کے بعد ہی سہی، جب اپنے منھ سے کوئی بات نکالتے ہیں تو وہ سنجیدگی کے سمندر کی گہرائیاں لئے ہوئے ہوتی ہیں۔ اب یہ قوم کی بد قسمتی ہے کہ آئینی و قانونی فیصلوں کے باوجود بھی اسی ایک بات پر قائم رہنا کہ “میں” کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا، نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے جس سے بہر کیف احتراز ضروری ہے اس لئے کہ جس طرح ایک ملک کا حکمران بن جانا بہت بڑی بات ہے اسی طرح حکمران کے سینے کو بھی بہت کشادہ و وسیع ہونا چاہیے۔ عدالتی فیصلے کو کھلے دل سے قبول کرنے کی بجائے اس طرح کے الفاظ کہ “کابینہ کے زیادہ تر افراد نے نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینے کی مخالفت کی لیکن شکر کریں کہ مجھے رحم آ گیا اور بدلے میں صرف ان سے 7 ارب روپے کی گارنٹی مانگی مگر ڈرامے شروع ہو گئے، حالانکہ یہ 7ارب روپے کی تو ٹپ دے سکتے ہیں”، اس بات کو ظاہر کرتے ہیں جیسے عدالت کے فیصلے کے باوجود بھی اگر ان کو ترس نہیں آتا تو نواز شریف مرتو سکتے تھے، ملک سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔
لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ موجودہ وزیر اعظم اپنے آپ کو بلکہ تمام اداروں کو آئین اور قانون کے حوالے کریں اور کبھی “میں” اور کبھی “عدلیہ” کی کشمکش سے آزاد کریں اور ان مسائل کی جانب توجہ کریں جن کی وجہ سے عوام بہت زیادہ پریشان ہیں ورنہ ان کی آپس کی یہ ضد بحث عوام کے سیلاب میں تنکے کی طرح بہہ بھی سکتی ہے۔
پاکستان منصفانہ فیصلوں کی عالمی درجہ بندی میں کل 128 میں سے 124ویں نمبر پر ہے۔اسکے بعد کس عدلیہ ،کس ،انصاف کی بات کی جائے