اسرائیل کا جنگی جنون ،مظلوم فلسطینیوں کی صدا کون سنے گا؟

دنیا کے بہت سارے اسلامی ممالک اگر چہ بظاہر اسلامی ملک ہیں لیکن در حقیقت وہ قضیہ فلسطین کی پشت پر خنجر گھونپنے والوں میں سے ہیں اور ان کی پالیسیاں فلسطینی کاز کے بالکل برخلاف ہیں وہ بجائے اس کے کہ فلسطینی عوام کی حمایت کریں امریکہ اور صہیونی ریاست کے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔اسرائیل کا ظلم خطے میں بڑھتا چلاجارہا ہے ۔مگر افسوس خلیجی ریاستیں اسرائیل سے متعلق نرم گوشہ رکھے ہوئے ہیں ۔اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں ۔

اول، خلیجی ریاستیں فلسطین کے مسئلہ کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھتی ۔

دوم، یہ ریاستیں فلسطین کو اسرائیل کا داخلی مسئلہ سمجھتی ہیں ۔

سوم، ان ریاستوں کے پاس اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

چہارم، ان ریاستوں کو اپنا ڈر ہے کہیں ان کا اپنا نظام فلاپ نہ ہوجائے ۔

حقیقت یہ ہے کہ نہ ان کے پاس صلاحیت ہے نہ لیڈرشپ ۔یہ ریاستیں اپنی اپنی بادشاہتوں کے تحفظ کے لیے استعماری قوتوں سے ملی بھگت کرتے ہوئے اپنا اپنا نظام بچارہی ہیں ۔

گزشتہ دنوں سے اسرائیلی جارحیت مسلم امہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو آگاہ کررہی ہیں۔ میڈیاکی اطلاعات کے مطابق اب تک 32 سے زیادہ فلسطینی شہید درجنوںکے قریب زخمی ہوچکے ہیں ۔ اسرائیلی حکام دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے فلسطین کے متحرک کمانڈر بھا ئی ابوالعطا کوشہید کردیا ہے ۔اسرائیل فلسطین پر اپنے ناجائز قبضے کے لیے حیلے تراشتہ رہتا ہے۔ فلسطینیوں کے قتل عام کے پیچھے اسرائیلی ایجنڈا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ اسرائیلی شدت پسند بیت المقدس میں موجود مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنا چاہتے ہیں اوربھارت کی طرح بتدریج فلسطین زمین پر قبضہ جماکر فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالنا چاہتے ہیں یہ تمام تر جارحانہ اقدامات گریٹر اسرائیل کے خواب پورا کرنے کی ناکام کوششیں ہیں ۔

اسرائیل حکام جانتے ہیں کہ فلسطین خلیجی ریاستوں کے لیے قلب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ فلسطین اپنی خاص جغرافیائی محل وقوع ، زرخیز زمین اور یہودیوںو مسلمانوں کی مذہبی یادگاروں کی بنیاد پرتاریخ میں ہمیشہ نشیب و فراز کا حامل رہا ہے جدامجدحضرت ابراہیم علیہ السلام کی عراق سے سرزمین فلسطین پر ہجرت اور اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کی یہاں پر عظیم تاریخی حکومت سے لے کر بخت النصر کی حکومت کے زوال کے پس منظر میں جا بجا اس علاقہ میں مختلف قبائل کے درمیان باہمی اختلاف وانتشار نظر آتا ہے پہلی جنگ عظیم کے موقع پر ڈاکٹر وائز مین نے انگریز حکومت سے وہ مشہور پروانہ حاصل کرلیا جو اعلان بالفور کے نام سے معروف تھا یاد رہے کہ اعلان بالفور کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فیصد بھی نہ تھی اس موقع پر لارڈ بالفور اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صیہونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیںاس کے بعد یہودیوں کی تعداد جو 1917تک 25000تھی 1939تک ساڑھے چارلاکھ تک جا پہنچی ایک مکمل منصوبے کے تحت صہیونیوں نے دنیا بھر کے یہودیوں کو ارض فلسطین میں بسانا شروع کیا ۔ اس عمل کا مقصد یہودیوں کی خواہش قومی وطن کی جگہ قومی ریاست کا درجہ حاصل کرنا تھا ۔

1947میں برطانیہ نے مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ میں پیش کردیا اور1947میں ہی فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کردیا گیا اہل کفر کی اجتماعی سازش نے ارض فلسطین میں اہل یہود کی راہ ہمیشہ کی لیے ہموار کردی مسلم ممالک کی کمزور پالیساں ناکامی ان کا منہ چڑاتی رہی جو ابھی تک چڑا رہی ہے ،چشم فلک روز دیکھتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم کیا جاتاہے اورعالم اسلام مدہوشی کی تصویر بنے تماشا دیکھتا رہتاہے عالم اسلام کے حکمرانوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئیں کان سماعتوں سے نکارہ اورزبانوں پر خاموشی کے تالے لگائے ہوئے ہیں عالم اسلام کے غریب الوطن صدا کریں تو کس کے سامنے ؟ زمین کو وہ کونسا ٹکڑا ہے جہاں انہیں سکون میسر ہے انبیاء کی مقدس سرزمین کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی اور عرب امراء معاشی پلان ترتیب دے رہے ہیں ۔

15 مئی 1948ء کو دنیا پر ناجائز وجود پانے والی اسرائیلی ریاست جسے امام خمینی نے مسلمانوں کے قلب میں خنجر سے تعبیر کیا تھا، اس غاصبانہ قبضہ کو ستر سال بیت چکے۔ یہ تمام عرصہ عالم اسلام کی اجتماعی بے حسی اور مظلوم فلسطینیوں سے مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رویوں کی طویل اور دردناک داستانوں سے بھرا ہوا ہے تو دوسری طرف یہ 70برس ظلم و بربریت وحشت و درندگی کی قدیم و جدید تاریخ سے بھرپور اور سفاکیت کے مظاہروں کی پردرد و خوفناک کہانی کے عکاس ہیں۔ ان 70برسوں میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہر دن قیامت بن کر آیا ہے۔ ہر صبح ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوئی ہر لمحہ بے گناہوں کے خون سے گھر بار، سڑکیں، بازار، مساجد و عبادت گاہیں،ا سکول و مدارس کو رنگین کرنے کا پیامبر بن کر آیا ہے ۔

ان دنوں اہل فلسطین بے یارومدد گار اسرائیلی مظالم کا سامنا کررہے ہیں اور اسرائیلی سفاک فوجی ان پر گولیاں برسا رہے ہیں میڈیا رپورٹ کے مطابق32فلسطینی اب تک یہودیوں کے ہاتھوں زندگی کے بازی ہار چکے ہیں اور درجنوںزخمی ہوچکے ہیں ۔

اقوام عالم کو اس اسرائیلی بربریت کو سخت نوٹس لینا چاہیے تاکہ انسانی زندگی کو لاحق خطرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔ مگر افسوس ماحولیات کے تحفظ کی بات کرنے والے نام نہاد بین الاقوامی حقوق ایجنسیاںمظلوم فلسطینیوں کی ہم آواز بننے کے بجائےخاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی وزات خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے فلسطین میں اسرائیلی فوج کی بم باری کی مذمت کی ہے، عالمی برادری فلسطین میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا بھی نوٹس لے۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان مسئلہ فلسطین کا مستقل بنیادوں پر حل چاہتا ہے، اسرائیلی افواج معصوم فلسطینیوں پر بم باری کر رہی ہیں، جس سے کئی معصوم فلسطینی شہید ہوئے۔واضح رہے کہ فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی افواج کے حملوں میں شدت آگئی ہے، رہائشی علاقوں پر بم باری میں 32 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، غزہ میں بے رحم صہیونی فورسز آبادیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، فورسز کی جانب سے فضائی حملے بھی جاری ہیں۔ عالم اسلام کو متحد ہوکر فلسطین اورکشمیر تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرنی چاہیے یہ مسلم حکمرانوں پر فرض بھی ہے اورقرض بھی ،اوراب وقت آگیا ہے اس فرض اورقرض کو چکا دیا جائے اوردنیا کو یہ باور کرادیا جائے کہ اب غاصبانہ اقدامات کی تاریخ کا باب ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا یہ تب ہوگا جب عالم اسلام متحد ہوکر جسد واحد کی طرح ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ اوراحساس کریں گے ۔

جواب چھوڑ دیں