” او! کالی کلوٹی ماں کی اولاد” یہ الفاظ کسی اور کے نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے محترم صحابی حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کے تھے، جو انہوں نے موذن رسول حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو بولے تھے۔ بہرحال وہ انسان تھے ایک زمانہ جو نری جاہلیت کا تھا ان پر گزر چکا تھا، اس لیے کسی بات پر طیش میں آکر انھوں نے یہ الفاظ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بول دئیے۔
حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ آنکھوں میں آنسو لئے آقا صلی اللہ وسلم کے پاس گئے اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کی شکایت ان تک پہنچا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر کو بلایا اور سخت ناراضی کی کیفیت میں گویا ہوئے “ابوذر! جاکر بلال سے معافی مانگو، تم نے اتنے سخت الفاظ بول کر اس کا دل دکھایا ہے۔”
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ دوڑے دوڑے بلال حبشی تک پہنچے ان کے قدموں میں اپنا چہرہ اس طرح رکھ دیا کہ ایک گال زمین پر تھا اور دوسرے کا رخ اوپر کی طرف اور کہا؛ “بلال! میں اس وقت تک اپنا گال زمین پر سے نہیں ہٹاؤں گا جب تک آپ میرے اوپر والے گال پر اپنا جوتا رکھ کر اسے مسل نہیں دیتے اور مجھے معاف نہیں کر دیتے”۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے روتے ہوئے جواب دیا “اے ابوذر! بھلا میں اس چہرے پر اپنا جوتا کیسے لگا سکتا ہوں جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو”۔ میں نے آپ کو ویسے ہی معاف کر دیا۔ پھر چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ کائنات کی یہ دونوں پاکیزہ اور عظیم ترین ہستیاں ایک دوسرے سے گلے مل کر خوب زاروقطار روئیں اور دل سے ایک دوسرے کو معاف کردیا۔
آپ دوسرا منظر دیکھ لیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ چراغ جلا کر تعلیم و تعلم اور لکھنے لکھانے کے اہم ترین کام میں مصروف ہیں، کہ غلام آپ کے اطراف سے سامان وغیرہ سمیٹ کر جانے لگتا ہے اور جیسے ہی مڑتا ہے اس کی چادر کی وجہ سے چراغ بجھ جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا کوڑا اٹھاتے ہیں اور اسے مارنا شروع کر دیتے ہیں، غلام تڑپ کر قرآن کی آیت تلاوت کرتا ہے “وہ جو اپنے غصے کو پی جانے والے ہیں”، حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ فورا اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں غلام پھر تلاوت کرتا ہے “اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں”، عبداللہ بن عمر کہتے ہیں گواہ رہنا میں نے تجھے معاف کر دیا وہ آیت کا آخری حصہ پڑھتا ہے “اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے”۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ اپنا کوڑا ایک طرف رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں “خدا گواہ رہنا! میں نے تیرے لئے اسے آزاد کر دیا”۔
میں نے 5 یا 6 سال کی عمر سے مسجد جانا شروع کیا، لیکن بدقسمتی سے میری مسجد سے جڑی اکثر یادیں تلخ ہیں۔ میں نہایت کم عمری میں ہی مسجد میں پہلی صف میں جاکر بیٹھ جاتا لیکن جماعت کھڑی ہونے پر مجھے آخری صف میں بھی “دھتکارے” ہوئے انسان کی طرح جگہ ملتی۔ ہماری مسجد کے سب سے زیادہ ” علم”رکھنے والے “عالم” صاحب کو کیونکہ یہ معلوم تھا کہ نماز میں ہاتھ کہاں بندھوائے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی نظر ہر نماز میں میرے ہاتھوں پر ہی رہتی اور وہ عین نماز کے دوران میرے ہاتھوں کو کھینچ کھینچ کرناف تک لانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ انہیں اس بات کا بھی اچھی طرح ” علم” تھا کہ خدا صرف ان لوگوں کی دعائیں سنتا ہے جو اپنے بازو اس حد تک اوپر اٹھاتے ہیں کہ ان کے بازوؤں میں درد ہونے لگے۔ مجھے ان کی سختی کی بدولت ہی ایسا لگا کہ اللہ “درد دل” کے بجائے “درد بازو” پر زیادہ نظر رکھتا ہے(نعوذ باللہ)، کیونکہ وہ بیچ دعا میں میرے ہاتھوں کو جو عاجزی کی وجہ سے بالکل جھکے رہتے تھے اور چھوٹے ہونے کی وجہ سے خاصے بلند بھی نہیں ہوسکتے تھے انہیں بار بار اوپر اٹھا دیا کرتے۔
میں بچپن کے اس دور میں نہ جانے کہاں کہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار گھومتا رہا۔ بریلویوں کی مساجد سے لے کر دیوبندیوں کی مساجد تک، اہلحدیث کی مساجد سے لے کر امام بارگاہوں تک جس عالم دین کی بات دل کو لگی، جس نے دینی “معلومات” بہم پہنچائی میں نے اسے اپنا “مرشد و مربی” سمجھا۔ 13 یا 14 سال کی عمر میں ایک بس سے دوسری بس بدلتے ہوئے جمعہ کے دن جس “علامہ صاحب” کی تقریر اور گفتگو کے بارے میں پتہ چلا 11، ساڑھے 11 بجے ہی ان کی “محبت” سے لبریز دل کے ساتھ “ان” کی مسجد میں جا پہنچا۔
بچپنا تھا، دل صاف تھا، روح پاک تھی، علم سے جاہل تھا۔ اس لیے ہر فرقہ، ہر مسلک اور ہر مسجد کے ہر عالم میں صرف اچھی باتیں ہی نظر آتیں۔ جیسے جیسے ” علم” آتا گیا ” عقل” بڑھتی گئی۔بہت سارے فقہی مسائل اور کئی ایک احادیث کی کتابوں کو پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہاں تو میرے علاوہ سارے ہی “جاہل” ہیں، ان لوگوں کو دین کا “اتنا سا” بھی نہیں معلوم؟ اتنی “معمولی” باتیں جو مجھے سمجھ آرہی ہیں ان “بیوقوفوں” کو کیوں سمجھ نہیں آتی ہیں؟
پھر میں بھی کتابیں کھول کھول کر لوگوں سے بحث کرنے لگا۔ دلیل پر دلیل اور حدیث پر حدیث “مارنا” میرا مشغلہ بن گیا۔ خدا کے فضل و کرم سے نہ صرف یہ کہ میں “حافظ قران” بن گیا تھا بلکہ اسی دوران مجھے قرآن کی عربی بھی سمجھ میں آنے لگی تھی اور یہ وہ کامیاب ترین “ہتھیار” تھا جو کسی بھی انسان کو “زچ” کرنے کے لیے کافی تھا، لیکن پھر شاید اللہ نے اپنا “حقیقی کرم” مجھ پر کردیا۔
خد ا سے ہمیشہ علم کے ساتھ عمل، عمل کے ساتھ اخلاص اور اخلاص کے ساتھ دل کی نرمی ضرور مانگیں کیونکہ اللہ جسے “حقیقی علم” دے دیتا ہے اس کے دل میں اپنی مخلوق کی محبت ڈال دیتا ہے، اگر آپ کو عبادت کے ساتھ “خدا کے کنبے” کی محبت اور تڑپ بھی عطا ہوگئی تو یہ اللہ کے کرم کی انتہا ہوتی ہے۔ خیر جب میں نے غور کرنا شروع کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ ان تمام مساجد میں، دین کے علم کا دعوی کرنے والوں نے مجھے اپنے مطلب کی “معلومات” ضرور دیں، زیر کردینے والے فتوں سے لیس کیا اور سامنے والے کی “عزت نفس” کا جنازہ نکالنے کے سارے اوزار دئیے مگر مجھے “عزت” نہیں دی۔
یقینا پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی ہیں، لیکن تلخ ترین تجربہ یہ ہے کہ میں نے علماء کی اکثریت کو جوڑنے کے بجائے “توڑنے” والا دیکھا ہے۔ سقراط کہتا ہے علم کی معراج یہ ہے کہ تمہارے اندر عاجزی کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگے اور بقول شاعر؛
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
دین کی معراج یہ ہے کہ آپ کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ انسانیت کی معراج یہ ہے کہ عین میدان جنگ میں بھی اگر کوئی شخص ڈر کر کلمہ پڑھ لے تو اسی وقت اپنا ہتھیار روک کر اسے سینے سے لگا لیا جائے۔
اسلامی شدت پسندی یہ ہے کہ قرآن آپﷺ کے لئے “عزیز” اور “حریص” کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اخلاق کے اعلی ترین مرتبے کی گواہی دیتا ہے، آپﷺ کو “رحمت اللعالمین” کے لقب سے پکارتا ہے۔ ہر فرقے اور ہر مسلک نے، علماء اور خطباء کی اکثریت نے، دین کا ” علم” اور اس میں تخصیص کے درجات میں بڑھ جانے والوں نے “معلومات” بیشک پوری حاصل کرلی ہیں لیکن کاش کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم والی “تڑپ اور درد دل” بھی حاصل کر لیتے۔ وہ بھی عزیز اور حریص بن جاتے ۔۔۔ “حکمت” اور ” موعظہ حسنہ” سیکھنے کی کوشش کرتے ۔
کاش کہ میری امت کے علماء بھی امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمھا اللہ کی طرح ساری ساری رات کسی ایک موضوع پر گفتگو کرتے نہ دوسرے کی آواز پہلے سے بلند ہوتی اورنہ چہرے کے تاثرات دوسرے کے سامنے بگڑتے۔ میں نے ” اہل علم ” حضرات کو اپنے محدود اور مخصوص علم کی بنیاد پر”عشق رسول” میں لائی گئی نذر و نیاز کو “دھتکار” کر واپس بھیجتے دیکھا ہے۔ نہیں دیکھی تو اپنے ان بھائیوں کے لئیے “عزت” ان کے دل میں نہیں دیکھی، ان کی ہدایت کے لیے آہ وزاری کرتے نہیں دیکھا، دن میں ان کی تربیت اور تزکئیے کے لئیے خود سے قریب کرتے نہیں دیکھا۔ بس سخت الفاظ، حرام، بدعت، شرک، کفر اور جہنم کے الفاظ کہتے سنا۔ آپ یقین کریں اس امت کا ہم جیسا “جاہل امتی” قابل رحم ہے کیونکہ میری امت کا ” عالم امتی” واقعی ترس کے قابل ہے نہ اب اس میں ابو ذر والی تڑپ رہی ہے اور نہ ہی عبداللہ ابن عمر کی طرح نفس پر قابو۔
کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بدگماں حرم سے
کہ میر کارواں میں نہیں خوئے دلنوازی