جاسوس کا کا م ہوتا ہے ریکی کرنا ۔ریکی بھیس بدل کر کی جاتی ہے جوکہ ٹرک ڈرائیور ، رکشہ ڈرائیور ، ٹیچر ، مالی ، باورچی ، فقیر ، ملنگ ، پاگل ، چھابڑی فروش یا پھر کسی پارٹی یا جماعت کا ممبررکن بن کر فرائض انجام دیتا ہے، یاپھر آپ کے محلے بازار کے کونے پر آپ کے سامنے گیم کھیلنے کی شکل میں کی جاتی ہے ۔ یا پھر آپ اصل گیم سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں کہ وہ فارغ آدمی آپ کے ساتھ کون سی گیم کھیل رہاہے ۔ ریکی تقریباً سب کی کی جاتی ہے ۔مگر کچھ لوگوں کی بہت زیادہ اور کچھ کی کم ۔ حساس ادارے اور ادارے کے سارے ملازمین کی اعلیٰ سے ادنیٰ تک کے مشکوک لوگوں کی کی ریکی کی جاتی ہے ۔ عوام الناس کی صرف خبریں اور معلومات اکٹھی کی جاتی ہے ۔ عوام الناس کی ریکی کرنے والا ہر ایجنٹ بیک وقت تین اضلاع میں ڈیوٹی پر ہوتا ہے ۔ جو کسی بھی لمحے تینوں اضلاع کے کسی بھی شہر یا گائوں میں جا سکتا ہے ۔ اسکی ایک خاص وجہ ہے ۔
اب اگر ایک ایجنٹ کسی ایک آدمی کو ثبوتوں کے ساتھ دس مرتبہ بھی رپورٹ کر لے ، مگر وہ ساری رپورٹ اُس ایک آدمی پر ہاتھ ڈالنے کیلئے اُس وقت تک ناکافی سمجھی جاتی ہیں جب تک کم سے کم دو اور ایجنٹ دو اور ایجنٹ متعلقہ شخص کو اسی جرم میں ملوث قرار نہ دے دیں ۔ مطلب ذاتیات اور غلط فہمی کی گنجائش بھی نہیں آ سکتی ۔ سیکرٹ ایجنٹ کسی بھی صورت میں اپنی جاب کو دوسروں کے سامنے ظاہر نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ اس سے ایجنٹ کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے اور غیر ملکی دشمن عناصر جاسوس بھی اس سے محتاط ہو جاتے ہیں اور کام میں مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی ایجنٹ کسی بھی مجرم کو ذاتی رنجش پر رپورٹ نہیں کر سکتا کیونکہ رپورٹ کے کوائف میں اس پر گواہوں کی گواہی ریکارڈ کی جاتی ہے ۔مثلاً ایجنٹ رپورٹ میں لکھے گا کہ فلاح ولد فلاں سکنہ فلاں جو کہ مجرم کے حلقہ یاراں یا نزدیک سے جاننے والوں میں سے ہے کا کہنا ہے کہ مجرم فلاں جرم میں شامل ہے اور یہ بات ایجنٹ ان لوگوں کے منہ سے کسی بھی مجلس یا محفل میں بہت آرام سے ریکارڈ کر کے چلا جاتا ہے ۔ پہلے ایجنٹ کی پہلی رپورٹ پر آدمی کو مشکوک کی فائل میں ڈال کر فائل بند کر دی جاتی ہے ۔دوسری رپورٹ آنے پر جب اُس کا نام پہلے سے لسٹ میں موجود ہوتا ہے ۔ تھوڑا اُوپر آجاتا ہے اور تیسری رپورٹ پر تینوں رپورٹ کا جائزہ لے کر خاص نظروں کے حوالے کیا جاتا ہے ۔ اب کی بار تھوڑی بھی گڑ بڑ کی تو بچ کے نہیں جاسکتا ۔ اُسے اُٹھا کر لایا جاتا ہے اور جرم کے حوالے سے مزید گفتگو مجرم اور ایجنسی کے قابل ترین افسران کے درمیان آمنے سامنے بیٹھ کر ہوتی ہے ۔ یقین کریں !ایجنسیاں کسی بے گناہ کو نہیں اُٹھا تیںاورجو لوگ اُٹھائے جاتے ہیں وہ قطعاً بے گنا ہ نہیں ہوتے ان کو مکمل چھان بین کے بعد اُٹھایا جاتا ہے ۔ اگر وہ صرف استعمال ہوئے ہوں تو انہیں وارننگ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے مگر دوبارہ اگر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہو تو پھر اسکو دنیا کی کوئی طا قت بھی نہیں چھڑوا سکتی ۔تو پھر وہ تو کیا اسکی لاش بھی لواحقین کو مل جائے تو یہ بھی غنیمت سے کم نہیں ہوگا۔
دشمنانِ پاکستان کی اگر ہم چیخ پکار سنیں تو اِنکی ساری بات ISIکے مارخوروں سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہوتی ہے اور یہ بات بھی ہم لوگ جانتے ہیں کہ اس وقت کے دشمنانِ پاکستان خفیہ طور پر اندرونے پاکستان بھی پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں اوربیرونی طور پر بھی سر عام پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔ لیکن اس سب کے دوران لوگ کیا کر رہے ہیں اور یہ کیوں نہیں سمجھ پا رہے کہ اس چیخ و پکار کی وجہ کیا ہے ۔؟ کیوں یہ لوگ ان مارخوروں کے خلاف محاذ کھولے بیٹے ہیں اور کیوں ہمیں یعنی پاکستانی عوام کو انکے خلاف کھڑا ہونا چاہیے ۔ مصروف عمل ہیں بحیثیت ایک محب طن ہمیں اپنے اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے لیکن بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں اس مملکت میں جو اپنے اداروں کے خلاف سرگرم بھی ہیں اور عوام کے دل و دماغ میں نفرت بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
کوئی کہہ رہا ہے کہ ملک میں ہونے والے فسادات میں ISIملوث ہے کوئی کہتا ہے کہ PSکے واقع ISIنے کرایا ۔ اس قسم کے نازیبا پروہ پروپیگنڈوںکو عوام کے سامنے رکھا جا رہا ہے اور ہم عوام بغیر پروپیگنڈوں پر تحقیق کیے منہ اٹھا کر ان باتو ں کو محفلوں میں بتا رہے ہوتے ہیں اور ٹھیک اسی طرح جو ہمارا برین واش کر رہے ہوتے ہیں ہم بھی ان کے ساتھ مل کر دوسروں کا برین واش کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔
کیا یہ محبت ہے ہمیں اپنے اداروں سے ؟ ان اداروں سے جن میں ہماری طرح کے اپنی پیاری مائوں کے شیر بہادر جوان بھرتی ہوتے ہیں اور انکی پہلی منزل ہوتی ہے وطن سے لازوال عشق، اتنا کہ اگر وطن کے خلاف اپنا سگاباپ ، بھائی ، ماں ، بہن بھی خلاف ہو جائیں تو اُنکے لیے بھی انکے دل میں کوئی معافی نہیں ۔ پھر ایک سخت ترین ٹریننگ سے گزر کر اگلا محاذ ہوتا ہے اپنی شناخت سے لے کر اپنے گھر تک بھول جانا اور اپنا ایک ایک سیکنڈ اس ملک کے دفاع کے دفاع میں وقف کر دینا ، ناکھانے کی فکر ، ناسونے کہ فکر ، ناپہننے کی فکر بس دل میں اللہ ہو اور دماغ میں پاکستان کا عشق اور ہاتھ پائوں پاکستان کے حفاظت کے لیے وقف
انہیں ہم سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ اگر کوئی پاکستان اور پاکستانی عوام کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتا ہے تو یہ لوگ اُسکی آنکھیں نوچ لیتے ہیں ۔ اگر کوئی بولتا ہے تو اُسکی زبان کھینچ لیتے ہیں ۔ اگر کوئی قدم اُٹھا تا ہے تو اُسکی ٹانگیں توڑ دیتے ہیں ۔ملک کے راز سینوں میں دفن ہوتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ ملک دشمنو ںکے ہاتھ لگ جائیں تو دشمن ان رازوں کو نکلوانے کیلئے طرح طرح کی اذیت دیتاہے۔
جب انکو ہم سے اتنا پیار ہے یہ سب کچھ یہ لوگ ہمارے لیے برداشت کرتے ہیں تو ہم لوگوں کو کیوں نہیں سمجھ آتا کہ یہ لوگ کبھی ا پنے بچوں کا سودا نہیں کرتے ۔ یہ لوگ کبھی اس ملک کے خلاف کام نہیں کرتے ۔ یہ لوگ کبھی اس ملک کی عوام کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال نہیں کرتے ۔ منظور پشتین سے لے کر ہمارے سیاستدانوں تک اور اس ملک کے میڈیا میں بیٹھے غداروں تک کتنے انکے خلاف دن رات غلیظ زبان کا استعمال کرتے ہیں ۔ آج تک ان کے خلاف ان مارخوروں نے امن اور محبت کاپیغام دیا ہے ۔نا کہ انہیں کوئی مالی جانی نقصان دیا ہے تو کیسے یہ اپنی پیاری عوام کے خلاف کچھ سر انجام دے سکتے ہیں ۔ اگر دشمن کے کسی پرو پیگنڈے پر یہ خاموش دکھائی دیتے ہیں تو اسکی بہت سی ایسی وجوہات ہوتی ہیں ۔ جنہیں اپنی عوام کے سامنے نہیں رکھا جاسکتا ۔ لیکن کاروائی ضرور کی جاتی ہے اور خفیہ رکھی جاتی ہے ۔ ہم لوگ کیوں نہیں سمجھ پا رہے کہ ادارے کاکام ہی گمنامی ہے تو پھر کیوں ہم مطالبات کرتے ہیں کہ ہرچیز کوہمارے سامنے لایا جا ئے ۔
میری اس ملک کے محب وطنوں سے گزارش ہے اور ان لوگوں سے بھی ہیںجو ہمارے اپنے لیکن گمراہ ہیں اداروں کے خلاف اُس وقت تک زبان استعمال نہ کریں جب تک پوری حقیقت سے آگاہ نہ ہوں اور آپکے حقائق سے گمراہی معاشرے میں فساد اور بے اعتمادی کی فضا ء قائم کرتی ہے اور یہ دونوں چیزیں اس ملک کی عوام اور ریاست پاکستان کیلئے نقصان دے ہیں ۔ بحیثیت ایک محب طن پاکستان ہم نے ایسے پرو پیگنڈوں کو انجانے میں پھیلانے والوں کو آگاہ کرنا ہے اور جان بوجھ کر پھیلانے والوں کے خلاف لڑنا ہے ۔ تب ہی ہمارا معاشرہ اچھائی کی طرف راغب ہو گا۔
مارخور کبھی نہیں بتاتا کہ میں کامیاب ہو گیا ۔ اِدھر اُدھر سے سنائی دینے والی دشمن کی چیخیں بتاتی ہیں کہ مارخور بازی لے گیا ہے ۔