اقوام متحدہ کے غیر حل طلب مسائل میں سے ایک بہت اہم حل طلب مسئلہ جوناگڑھ بھی ہے جو آج بھی راکھ میں دبی ایک چنگاری ہے جسے کسی وقت بھی آگ لگ سکتی ہے۔ ریاست جوناگڑھ جو قریباً چار ہزار میل پر مشتمل ہے۔ سمندر کے راستے کراچی سے صرف تین سو میل کے دوری پر ہے۔ تقسیم ہند کے وقت یہاں نواب مہابت خانجی کی حکومت تھی۔ انہوں نے 15 ستمبر 1947 کو پاکستان کے ساتھ ی دستاویز پر دستخط کیے لیکن ہندوستان نے اس الحاق پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔
جب نواب مہابت خانجی کراچی گئے تو ہندوستان نے 9 نومبر 1947 کو جوناگڑھ میں فوجیں داخل کردیں اور بزور طاقت جوناگڑھ کو اپنی عمل داری میں داخل کرلیا۔ جوناگڑھ پر ہندوستانی تسلط کے 72 برس پورے ہو گئے لیکن کراچی میں مقیم جوناگڑھی عوام اس جبر و تسلط کو بھول نہ سکے۔ نواب مہابت خانجی کے پوتے نواب جہانگیر خانجی اب بھی جوناگڑھ کی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔
ہندوستان کے اس غاصبانہ قبضے کے خلاف پاکستان نے اس وقت اقوام متحدہ سے رجوع کیا لیکن بعد میں پاکستانی سیاست میں ردوبدل اور حکمرانوں کے غیر ذمے دارانہ رویوں کی وجہ سے یہ اہم مسئلہ پس منظر میں چلا گیا۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری اکثریت کو معلوم ہی نہیں کہ جونا گڑھ بھی کبھی ہمارا حصہ تھا حالاں کہ سچ تو یہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہم اور تاریخی لحاظ سے مسلمانوں کی ایک اہم ریاست آزادی کے وقت ہندوستان کی 562 ریاستوں میں چھٹی بڑی اور امیر ترین ریاست قریباََ 3 مہینے پاکستان کا حصہ رہنے کے بعد ہندووں کے قبضے میں چلی گئی۔
جونا گڑھ کے اصل حکمران یعنی نواب محمد جہانگیر خانجی جوکہ اس وقت کے نواب آف جوناگڑھ مہابت خانجی کے پوتے ہیں آج بھی کراچی کے جوناگڑھ ہاؤس میں یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حکومت پاکستان جوناگڑھ کو ہندوستانی قبضے سے چھڑائے گی اور ان کی یہ امید عبث اور بے کار نہیں ہے بلکہ ان کا یہ حق ہے کہ وہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کی توجہ اس اہم مسئلے کی طرف دلاتے رہیں کیوں کہ یہ ہم سب کا اخلاقی، ملی اور دینی فریضہ ہے کہ ہم جوناگڑھ سمیت دیگر مسلمان علاقے اور ریاستیں جوکہ ان دنوں کفار کے قبضے میں ہیں ان کو آزاد کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔
پہلے پہل جونا گڑھ پاکستان کے نقشے پر کشمیر کی طرح شامل تھا مگر اب نجانے کیوں اسے پاکستانی نقشے سے نکال دیا گیا ہے۔ پہلے تعلیمی نصاب میں بھی اس کا ذکر ملتا تھا اب وہ بھی نہیں ہے۔ ریاست جونا گڑھ کا معاملہ آغاز ہی سے سیاسی سرد مہری کا شکار ہے۔ کشمیر کے لیے تحریک حریت پوری دنیا میں معروف ہے مگر جونا گڑھ کے لیے کوئی خاص اہتمام پاکستانی حکومتوں کی طرف سے نہیں کیا گیا۔
ریاست جونا گڑھ کے نواب مہابت خانجی کے بعد ان کے بیٹے اور اب پوتے نواب محمد جہانگیر خانجی تک ایک ایسی مرکزی شخصیت ہیں کہ وہ خود اکیلے ایک تحریک حریت کی طرح ہیں۔ وہ ابھی تک اپنے استحقاق پر قائم ہیں اور جونا گڑھ کے الحاق کو ہی اپنی زندگی کا مقصد و منشاء سمجھتے ہیں۔ یہ معاملہ ان کی وجہ سے زندہ ہے۔ وہ جہاں ہوں جس محفل میں ہوں نواب آف جونا گڑھ کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔
جونا گڑھ تاریخ کے پنوں میں ہماری بے حسی کی وجہ سے آج گمنام ہوچکا ہے۔ یہ بات اس وقت اہمیت کی حامل ہے کہ کشمیر کے ایشو کو جس طرح سے پاکستانیوں نے اجاگر کیا ہوا ہے اسی جذبے اور جوش سے ہمیں جونا گڑھ کے ایشو کو بھی اٹھانا چاہیے۔ جونا گڑھ پاکستان کا آئینی حصہ ہے۔ اپنے اس حصے کو ہم کیسے بھلا سکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو اس وقت کی موجودہ سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے کشمیر کے ساتھ جوناگڑھ کے مسئلہ کو بھی اٹھانا چاہیے۔
پاکستان میں جونا گڑھ کی کئی برادریاں مقیم ہیں۔ ان کو بھی اس حوالے سے آواز بلند کرنا ہوگی۔ اسی طرح سے ہمارے میڈیا کو بھی جونا گڑھ کے الحاق اور سقوط کے مواقع پر خصوصی کوریج دینی چاہیے۔ میڈیا ریاست جوناگڑھ کے لیے آواز اٹھا کر اپنا دینی اور قومی فریضہ ادا کرسکتا ہے۔ جوناگڑھ اسٹیٹ مسلم فیڈریشن جوناگڑھ عوام کی فلاح و بہبود اور جوناگڑھ کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
جونا گڑھ اسٹیٹ مسلم فیڈریشن کی جانب سے الحاق اور سقوط جونا گڑھ کے حوالے سے خصوصی تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بہترین اقدام ہے۔ اس حوالے سے ملک بھر کی محب وطن پاکستانیوں کو بھی مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے تقاریب کا اہتمام کرنا چاہیے کیوں کہ جونا گڑھ پاکستان کا آئینی اور قانونی حصہ ہے اور جوناگڑھ کے بغیر پاکستان کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ جوناگڈھ پاکستان کا ایک نامکمل باب ہے۔