پلان اے کے بعدپلان بی کاآغاز

جمعیت علما ئے اسلام(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کے خلاف نئے محاذ کا اعلان کردیا،انھوں نے کہا کہ ملک بھر میں دھرنے ہوں گے،پلان بی کے تحت صوبوں اور اضلاع کو ملانے والی شاہراہیں بند کی جائیں گی،اسلام آباد کے پشاور موڑ پر دھرنے کے شرکا سے خطاب میں مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کادھرنا ختم کرنے اور حکومت مخالف احتجاج ملک گیر سطح پر پھیلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 2 ہفتوں سے جاری قومی سطح کے اجتماع نے حکومت کی جڑیں کاٹ دیں، تنا بھی گرادیں گے،عمران خان کو بہرصورت استعفا دینا ہوگا۔ان کاکہنا تھا کہ حکومتی حلقوں کا خیال تھا کہ احتجاج یہاں سے اٹھے گا تو آسانی ہو گی لیکن اب حلقوں کی چولیں ہل گئی ہیں، وہ پریشان ہیں کہ اب تو احتجاج گلی گلی ہوگا۔ انھوں نے دھرنوں میں شرکت کی دعوت عام دیتے ہوئے کہا کہ ہر شہری سے کہتا ہوں کہ جب آپ دور سے یہاں نہیں آسکے تو اب سڑکوں پر آجائیں، یہ عوام کے حقوق اور ان کے ووٹ کے تقدس کی جنگ ہے۔
لوگ سوال کررہے ہیں استعفاتوملانہیں،کوئی اورانقلاب بھی نہیں آیا،مہنگائی بھی جوں کی توں ہے،غرض کچھ بھی نہیں بدلا،پھرآزادی مارچ کیوں ختم کیاگیا؟یہ ان لوگوں کی سادگی ہے یاسادہ لوحی،وہ سیاست دوراں کی ابجدسے بھی واقف نہیں،وہ ہواکے رخ کوجانتے ہیں اورنہ ہی اس کے مطابق پروازکے گرسے آگاہ ہیں۔ان کاسوال ان کی لاعلمی کی دلیل ہے۔
ایسے ہی لاعلم ہرجماعت کے وہ سربکف سرفروش کارکن بھی ہوتے ہیں،جن کے بل بوتے پرلیڈروں کوسیاست چمکانے،اداروں پردھونس جمانے،ووٹ سمیٹنے اورووٹ بچانے کے مواقع ملتے ہیں۔قربانی وہ دیتے ہیں،مگرخودانھیں بھی معلوم نہیں ہوتاکہ اس کاحاصل وصول کیارہا؟نتیجہ کیانکلا؟ثمرات کیاتھے اورکس نے سمیٹے؟بس انھیں غرض ہوتی ہے اپنے لیڈرکی کام یابی سے،اس کے لیے زندہ بادکے نعرے لگاکروہ سمجھتے ہیں ان کوگوہرمرادہاتھ آگیا۔آپ کوبھی ہماری یہ بقراطی،سقراطی اورافلاطونی باتیں سمجھ میں نہیں آرہیں،تواپنی سیاسی عدم بصیرت کوالزام دیجیے؛اوراتناسمجھ لیجیے مولاناکام یاب ہوچکے ہیں۔انھیں مطلوبہ نتائج مل چکے ہیں۔کچھ وقت آنے پرملیں گے۔یہ نتائج کیاہیں؟پروفیسر طفیل ہاشمی کی متوازن رائے ملاحظہ فرمائیے:
”مولانا نے اسلام آباد کا دھرنا ختم کرتے ہوئے پلان بی کا اعلان کر دیا۔مولانا کا مارچ جن کے خلاف تھا، انہوں نے تیسرے روز ہی معافی مانگ لی تھی۔باقی دن Modalities طے کرنے میں لگے۔مولانا نے اس سے نقد کیا وصول کیا۔انھوں نے یہ باور کروا دیا کہ ان کو سائیڈ لائن کرنے کا فیصلہ غلط تھا، ان میں بے پناہ دوگونہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی بھی وقت کسی کو بھی مشکل ترین حالات میں بیل آؤٹ کر سکتے ہیں اور ایک پیج پر ہونے کے باوجود ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔مولانا نے یہ باور کروا دیا کہ کوئی فرد یا ادارہ مقدس گائے نہیں ہے اور ہر ایک کو بیچ چوراہے بازپرس کی صلیب پر لٹکایا جا سکتا ہے۔مولانا نے یہ بتا دیا کہ جن لوگوں کو ڈرون قابو نہیں کر سکے وہ میرے لفظوں کی ڈوری سے بندھے ہوئے ہیں۔مولانا نے نظم و تہذیب، امن و امان، گفتار کی شائستگی اور دلیل کی قوت کا لوہا منوایا ہے۔غالبا ًمولانا کے ساتھ کوئی ٹائم لائن طے ہو گئی ہے۔فوری فیصلے کئی الجھنیں پیدا کرنے کا باعث ہو رہے تھے۔مولانا نے ادارے کو ان الجھنوں سے بچنے کے لیے راہ دے دی ہے،لیکن کئی فیصلے کرنے کے لیے طاقت بھی بخش دی ہے۔بظاہر مولانا پلان بی اور سی زندہ رکھیں گے لیکن ہلکے سروں میں،اس دوران یہ احساس دلاتے رہیں گے کہ اس ملک کو آکسیجن اور خون سپلائی کرنے والے اعصاب ہمارے ہاتھ میں ہیں لیکن ہمیں ملک سے محبت ہے اور ہم کوئی نقصان نہیں کرنا چاہتے۔انھوں نے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ممنون کر کے مستقبل کے لئے ان کی حمایت کے علاوہ مقتدر حلقوں کی حمایت بھی یقینی بنا لی ہے۔“
رہے آپ کے مسائل؛یہ عوام کے مسائل ہوتے ہیں۔بڑوں کی شان اس سے وراالوراء ہوتی ہے۔ہاں!آپ جتنا مسائل کے بھنور میں پھنسے بلکہ دھنسے رہیں گے،سیاست دانوں کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع ملے گا۔مہنگائی،بے روز گاری،بد امنی،معاشی عدم استحکام،لاقانونیت،صحت وتعلیم کی دگرگوں صورت حال،یہی تو وہ آکسیجن ہیں جو اپوزیشن کو زندہ رکھتے ہیں۔اگر سب اچھا ہوگا،توان کے پاس بولنے کو کیا رہ جائے گا؟وہ کون سا منجن بیچیں گے؟خیر،یہ چمن یوں ہی رہے گا،بس آپ اپنی سوچ بدلنے کی کوشش کریں؛ان مسائل سے صرف نظر کرکے سیاست دانوں کی طرح اس سے اوپراٹھ کرسوچنے کامزاج بنائیں۔
آج سے اس بات کو پلے باندھ لیں کہ:ملک کااصل مسئلہ اسیرسیاست دانوں کی رہائی اوران کی بیرون ممالک منتقلی ہے، ووٹ کی عزت کاتحفظ ہے؛اقتدارکی بندربانٹ ہے؛منتخب حکومت کادھڑن تختہ کرنااوراس کی جگہ کسی اورجدی پشتی جاگیردارکوبٹھاناہے۔مائنڈسیٹ تبدیل کریں،آپ کوسمجھ میں آجائے گاکہ مارچ کام یاب ہوچکاہے۔سلسلہ پلان بی،سی کی صورت میں جاری رہے گا؛کہ کء فیصلے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بعدہونے ہیں۔تب تک مولاناکوکارکنوں کی فوج ظفرموج کے ساتھ میدان میں رہناہے۔سووہ رہیں گے۔طفیل ہاشمی کے لفظوں میں ”ہلکے سروں میں“ہی سہی!
خاطرجمع رکھیے اورپلان بی کی تیاری کیجیے؛کہ سلطان جائرکے خلاف کلمہ حق افضل جہادہے۔یوں بھی مولانا نے عا م شہریوں کو دھرنوں میں حصہ لینے کی دعوت دے ہی ڈالی ہے۔ان کے صاحبزادے مفتی اسعد محمودنے دوسری اپوزیشن جماعتوں سے شکوہ بھی کیاہے کہ وہ دورنگی چھوڑ دیں اوردھرنوں میں عملی طور پر شرکت کریں۔

حصہ
mm
مولانا محمد جہا ن یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سینئر ریسرچ اسکالرہیں اور مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں