ہم بھی کتنے بھولےہیں

    بازاروں میں یابسوں میں سفر کرتے ہوئے آج کل یہ مشاہدہ آئے روز ہوتا رہتا ہےاور یہ مشاہدہ بارہا آپ نے بھی  کیا ہوگا۔ جب بس میں سفر کرتے ہوئے کرایہ کسی نے بیس روپے کنڈیکٹر کو دئیے، کنڈ یکٹر نے کہا نہیں بھائی کرایے بڑھ چکے ہیں ،پانچ روپے اور دیں۔۔۔ کسی نے پچیس روپے دئیے تو اس سے کہا گیا کہ نہیں بھائی کرایے بڑھ چکے ہیں آپ تیس روپے دیں، کسی نے چارو ناچار جیب سے پانچ کا سکّہ نکال کر دے دیا۔ کبھی بات تو تو میں میں تک گئی اور کبھی ہاتھا پائی تک۔۔۔۔معاملہ دفع ہوا تو جتنے منہ  اتنی باتیں، کسی نے مہنگائی کا رونا رویا، کسی نے وزیر ٹرانسپورٹ  کو بر ابھلا کہا ، کسی نے محترم  وزیر اعظم پر اپنا بخار اتارا،

یہی حال زندگی کے تمام شعبوں کا ہے، کیا بازار، کیا تعلیم، کیا ہسپتال تمام شعبہ ہائے زندگی پر ہوش ربا مہنگائی نے اپنا اثر ڈالا ہے۔ عوام کی کمر مہنگائی نے دوہری کر رکھی ہے۔بجلی، پانی، گیس اور ٹیلیفون کے بِلوں کو دیکھ کر ہم سب بلبلانے لگ جاتےہیں۔ آخر ہم بھی کتنے بھولےہیں!

اللہ تعالیٰ نے قران میں سورہ رعد  میں ارشاد فرمایا” بے شک اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو قوم اپنی حالت کو خود بدلنا نہ چاہیے”

ڈاکٹر علامہ اقبال نے اس کو اپنے شعر میں یوں بیا ن کیا؎

خدا نے آج  تک  اس قوم  کی حالت  نہیں  بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ہر پانچ سالوں کے بعد۔۔۔ بلکہ ہم تو ماضی میں بہت خوش نصیب رہے ہیں کہ ہر دو تین سالوں کے بعد بھی ہمیں یہ موقع ملا کہ ہم اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں کہ نہیں، ہم وزیر ٹرانسپورٹ بدلنا چاہتے ہیں کہ نہیں، ہم وزیر تعلیم بدلنا چاہتے ہیں کہ نہیں یا ہم وزات اعظمیٰ کے منصب پر ایک ایماندار فرد کو دیکھنا چاہتے ہیں کہ نہیں۔ مگر وہی دھاک کے تین پات ہر بار یہ بازیگر ہمیں نئے خواب دکھا کر دھوکہ دیتے ہیں۔ الیکشن کی صبح قطار میں لگ کر ہم جھولی بھر بھر کر ووٹ دیتے ہیں اور اس کے بعد پورے پانچ سال تک جھولی پھیلا کر بد دعائیں دیتے ہیں، ان کو جن کو ہم خود اپنے ووٹوں سے منتخب کرتےہیں۔ ہم بھی کتنے بھولے ہیں!

ایسا نہیں ہےکہ ملک میں امانتدار، دیانتدار،اورباکردار افراد کی کوئی کمی ہےاور یہ بے چارے ہر بار قوم کو سمجھاتے بھی ہیں مگر ان کے بارے میں عمومی رائے کچھ اس طرح سے ہوتی ہےکہ، امیدوار تو اچھا آدمی ہے ہم تواس  کو برسوں سے جانتے ہیں۔ مگر یہ تو نہ ہماری برادری ،اور نہ اپنا ہم زبان ہے۔ اگر دوسری برادری اور دوسری زبان والے  الیکشن میں جیت گئے تو ہماراکیاہوگا۔ یہ نعرے بھی  سننے کو ملتے ہیں کہ ” اپنوں کا ووٹ اپنوں کے لیے” اور” جاگ پنجابی       جاگ “اور”سندھ          گھرے تو آزادی”اس طرح پھر سے ایک بار ہمارا ووٹ اپنوں کےلیے ڈالا جاتا ہے۔

بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میا ں سبحان اللہ ، آج تک یہ بات ذہنوں میں جگہ نہیں بناسکی کہ دین کا سیاست سے گہرا تعلق ہے ، ایک بڑا دین دار طبقہ  تو یہ کہہ کر الیکشن سے باہرہی رہتا ہے اور پولنگ اسٹیشن کے قریب بھی نہیں جاتا کہ، صاحب یہ سیاست تو کا م  ہی گندے لوگوں کا اس سے ہمارا کیا تعلق۔ ایک دین دار آدمی کا سیاست سے کیا واسطہ گویا اس کو شجر ممنوعہ قرار دے کر اپنے آپ کو اجتماعی فیصلوں سے دور رکھتاہے۔

پھر وہی ہوتاہے جو ہم سب دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ عاشق رسولﷺ سولی پر   چڑھا دیا جاتا ہے،گستاخ نبیﷺ رہائی پاجاتاہے۔ کوئی حکومت کا فرد یہ کہتاہےکہ توہین رسالتﷺ کے قانون میں جو سزا ہے اس کو کم کردیا جائے، کہیں زینب جیسی پھول سی بچی مسل دی جاتی ہے، کہیں ڈاکٹر نمرتاکماری اپنے ہاسٹل میں مردہ پائی جاتی ہے۔ خوشحالی لانے کے دعوے دار  کہتے رہتے ہیں کہ  سب اچھا ہےسب اچھا ہے مگر عوام یہ دیکھتے ہیں کہ کچرے کے ڈھیر سے اس قوم کا مستقبل اپنے لیے رزق تلاش کررہاہے۔ ہم بھی کتنے بھولےہیں!

پاکستان جس مقصدکی خاطر بنا تھا اس مقصد کو جان بوجھ کر پس دیوار ڈال دیا گیا ہے ۔ اب تو مفّکر پاکستان علامہ اقبال کے یوم پیدایش پر بھی مفّکرپاکستان کو گویا اسکرین آؤٹ کر دیا گیا ہےاور بانی پاکستان کو بھی سیکولر بنا کر پیش کیا جارہا ہے ان کے فرامین کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسا اس لیےکیا جارہا ہے کہ مفّکر پاکستان اوربانی پاکستان کے ساتھ قرآن، اسلام اور نبی مہربانﷺ کاحوالہ موجود ہے۔ یہ بات کب سیکولر طبقہ ہضم کرسکے گا۔

پاکستان کی پہچان اسلام ہے، اس کی بنیادمیں اسلامی آئیڈیا لوجی ہے اس کی پہچان کو ختم کرنے کوشش بڑی تیزی کے ساتھ ہورہی ہے جہا ں پاکستان کی زمینی سرحدوں کو خطرہ لاحق ہے وہاں اس کی نظریاتی سرحدیں بھی دشمنان دین اور دشمنان پاکستان کے نشانے پر ہیں ،زندہ و بیدار قومیں ہر لمحہ اپنی آزادی کے تحفظ کے لیے تیار رہتی ہیں۔

خودبخود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی
بد لی  جا تی  ہے، بد لتی   نہیں  تقد یر کبھی

جواب چھوڑ دیں