ہم انہیں سمجھتے کیاتھے اوروہ نکلے کیا۔۔؟انتہاء پسندی،دہشتگردی اورماردھاڑکو جن کاخاصاگرداناگیا۔جنہیں کسی نے جاہل،کسی نے ان پڑھ،کسی نے گندا،کسی نے خودکش،کسی نے انتہاء پسنداورکسی نے ،،خطرناک دہشتگرد،،کانام دیاوہ تو ہم تعلیم یافتہ،عقلمند،باشعور،مہذب ،باادب،شریف،پرامن اورقانون پسندوں سے بھی ایک دونہیں سودرجے بہتربلکہ بہت بہتر نکلے۔اس ملک میں مساجداورمدارس سے وابستہ مولویوں کوہمیشہ حقارت کی نظرسے دیکھا گیا۔امریکہ اوربرطانیہ تودوراس ملک میں بھی جہاں کوئی برا کام ہوا اسے فوراًمدارس اوراہل مدارس سے جوڑاگیا۔
چاندپرپہنچنے والے ہمارے جیسے ترقی یافتہ اوردودھ سے دھلے لوگوں نے مدارس اوراہل مدارس کے بارے میں نہ جانے کیاکچھ نہیں کہا۔۔؟اسکول ،کالج اوریونیورسٹیوں کے تربیت یافتہ سیاستدان،بیوروکریٹ، ڈاکٹر، انجینئرز،ٹیچرز،کھلاڑی،وکیل،فنکار،گلوکار،ججز،سرمایہ دار،صنعتکاراورتاجروں کے کالے کرتوت تو ہمیں کبھی دکھائی نہیں دیے ۔تعلیم کے نام پرسکول ،کالج اوریونیورسٹیوں میں کیاکچھ نہیں ہوتا۔۔؟اس کے بارے میں بھی ہم نے کبھی سوچنے اوربولنے کی زحمت توگوارہ نہیں کی لیکن اس کے مقابلے میں مدارس اوراہل مدارس کوہم نے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی معاف نہیں کیا۔۔؟
دین دشمنی یادین بیزاری میں ہم اس قدراندھے ہوئے کہ ہمیں مدرسے کاہرطالب علم اورمسجدکاہرمولوی جاہل، ان پڑھ، گندا، خودکش بمبار، انتہاء پسنداور ،،خطرناک دہشتگرد،،نظرآیا۔حلوہ اورڈیزل سے فرضی کہانیاں اورقصے شروع کرکے بے چارے مولوی کوبدسے بدنام کرنے کے لیے ہم سے جوہوسکااللہ گواہ ہے کہ اس ملک میں آج تک ہم نے وہ کیا۔سکول ،کالج اوریونیورسٹیوں سے فیض پانے والے طاقت کے بل بوتے یااسلحہ کی نوک پربھی اگرپورے ملک کویرغمال بنادیں توان پرہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتالیکن بے چارہ مولوی اگرایک ڈنڈا یا جھندا اٹھا کر مسجد و مدرسے سے نکلے تو ہمارے پیٹ میں مروڑاٹھنے لگتے ہیں۔
مولانافضل الرحمن نے حکومت کے خلاف احتجاج،مارچ اوردھرنے کااعلان کیاتوایک مولوی کے اس اعلان سے بہت سے لوگوں کے ہاضمے اورپیٹ خراب ہوناشروع ہوگئے حالانکہ اس ملک میں نااہل اورنکمے حکمرانوں کے خلاف احتجاج ، مارچ اوردھرنے یہ کوئی نئی بات نہیں۔2014میں تو اسکول ،کالج اوریونیورسٹیوں کے تربیت یافتہ جوانوں نے تواحتجاج ، مارچ اوردھرنوں سے بھی بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے تھے۔اسکول ،کالج اوریونیورسٹیوں سے نکلنے والے ہمارے جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ، باشعور، باادب، عقلمند اور درددل رکھنے والے لوگ جب اہم قومی عمارتوں پرچڑھائی کر کے ان کے درودیواروں پرشلواریں لٹکا رہے تھے اس وقت توہم نے ان کے خلاف ایک آوازتک نہ اٹھائی لیکن جب مولاناکے جانثاروں کے ہاتھوں میں ڈنڈوں اورجھنڈوں کی کچھ تصاویر سامنے آئیں توہم نے پوراآسمان سرپراٹھالیا۔
دھرنے سے پہلے ڈنڈوں اورجھنڈوں کی بنیادپرداڑھی اورپگڑی والوں کوجس طرح انتہاء پسند، جاہل، ان پڑھ، گندے اوردہشتگردثابت کرنے کی کوشش کی گئی وہ بے چارے مولوی سے ہماری بغض، حسداورجلن کاایک واضح ثبوت ہے۔ہم نے تواپنی طرف سے ڈنڈے اورجھنڈے اٹھانے والوں کومیڈیا اورسوشل میڈیا پر خطرناک دہشتگرد اور انتہاء پسند بنانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی لیکن قربان جائیں ڈنڈے اورجھنڈے اٹھانے والے ان مولویوں پرجنہوں نے کسی سکول ،کالج ویونیورسٹی کے سرٹیفکیٹ اور ہمارے جیسے شعور،عقل ،ادب، تمیزو درد دل نہ رکھنے کے باوجود آزادی مارچ اور دھرنے کے دوران عقل،شعور، ادب اور درمندی کی وہ مثالیں قائم کردیں جس کی وجہ سے بڑے بڑے ناقدین بھی منہ چھپانے پرمجبورہوئے۔آزادی مارچ تمام اپوزیشن جماعتوں کا تھا۔اپوزیشن میں مذہبی جماعت ایک جے یوآئی ہوگی باقی سب ہمارے جیسے ماڈرن اسٹائل اورسوچ والوں کی ہیں لیکن اس کے باوجوداکثریت کوچھوڑکرایک مذہبی جماعت کی وجہ سے آزادی مارچ کے نام پر صرف بے چارے مولویوں کونشانہ بنایا گیا۔
یہ مولوی ایسے۔۔یہ مولوی ویسے۔۔مطلب جس کے منہ میں جوآیاوہ مولویوں کے بارے میں بولتاگیا لیکن جب آزادی مارچ کے آغازسے ان مولویوں کے آگے بڑھنے اور ان کے کچھ کرنے کاوقت آیا تو پھردنیا نے دیکھا کہ کراچی سے اسلام آبادتک ان مولویوں نے امن پسندی، ڈسپلن، رحمدلی اورشرافت کی کئی نئی تاریخیں رقم کردیں۔ ہمارے جیسے باشعوراورتعلیم یافتہ لوگوں کے دھرنوں کی وجہ سے ہی تولوگ دھرنے کے نام سے بھی کترانے لگے تھے کیوں کہ دھرناہماراہوتا۔ تکلیف، مصیبت، پریشانی، نقصان اور اذیت عام لوگوں کواٹھانی پڑتی ۔دھرنے پرنکل کرپھرہم اپنے دیکھتے نہ بیگانے۔روڈبلاک اورتوڑپھوڑتوہمارے دھرنوں میں عام سی بات ہے۔پی ٹی وی سنٹراوراعلیٰ عدلیہ کی اسلام آبادمیں مقدس بلڈنگ دھرنوں کے دوران ہم سے نہیں بچی توعام لوگ کیسے بچتے۔۔؟
عقلمند اور باشعورلوگوں کے دھرنوں، احتجاج، مظاہروں اورجلسے وجلوسوں کی وجہ سے ایک نہیں کئی بارہم نے ایمبولینس میں مجبور ولاچار انسانوں کوایڑھیاں رگڑتے اورجان جان آفرین کے سپردکرتے دیکھا لیکن یہ ان جاہل،ان پڑھ،انتہاء پسنداورڈنڈابردارمولویوں کاعجیب احتجاج، مارچ اوردھرناتھاجس میں کوئی گھملاٹوٹانہ کوئی روڈبلاک ہوئی۔ہم نے توپہلی بارہزاروں کے اس مارچ میں ایمبولینس کوبھی 120کی رفتارسے دوڑتے دیکھا۔لاہورمیں جہاں مارچ جاری تھا وہیں اوپرمیٹروبھی معمول کے مطابق چلتی رہی۔جاہل مولویوں کے اس آزادی مارچ اوردھرنے میں کوئٹہ سے سوات،گلگت سے لاہور،چترال سے بالاکوٹ اورخیبرسے آزادکشمیرتک لوگوں نے شرکت کی لیکن اس مارچ اور دھرنے کی وجہ سے ملک کے کسی ایک شہرمیں بھی نہ کوئی شٹرڈاؤن ہوااورنہ ہی کوئی پہیہ جام۔
آج تک توہم ان مولویوں کو انتہاء پسند، جاہل، ان پڑھ، گندے اورنہ جانے اور کیاکیاکہتے رہے لیکن اب ان مولویوں نے اپنے عمل اورکردارسے ثابت کردیاہے کہ انتہاء پسند، جاہل، ان پڑھ، گندے،تنگ نظر،بے عقل اوربے شعوریہ نہیں بلکہ ہم خودہیں۔جوڈسپلن قائم کریں،ایمبولینس ،کسی مجبورولاچارکوہجوم میں راستہ دیں،خواتین کااحترام کریں،بڑوں کاادب کریں،آئین وقانون کی پاسداری کریں،ماحول کوصاف رکھیں وہ کبھی جاہل نہیں ہوتے ۔جاہل ہمارے جیسے وہ ہوتے ہیں جواحتجاج،مارچ اوردھرنوں کے نام پربازارودکانیں بند،شاہراہیں بلاک، قومی عمارتوں پرچڑھائی اورجلاؤ گھیراؤ کر کے ملک وقوم کامفت میں لاکھوں،کروڑوں اوراربوں روپے کانقصان کردیں۔جاہل وہ ہوتے ہیں جنہیں انسانی حقوق کاعلم نہیں ہوتا۔جوکسی کی ماں ،بہن اوربھائی کے دردسے ناآشناء ہوتے ہیں۔
اسلام آباددھرنے میں شریک جاہل مولویوں نے اپنے عمل ،اخلاق اورکردارسے مخالفین کے بھی دل جیت کرصبح وشام ٹی وی چینلزاورسوشل میڈیاپرڈنڈابرداراورخطرناک جتھوں کا ڈنڈورا پیٹنے والوں کی زبانیں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بندکردی ہیں۔اپوزیشن اتحاداورمولانافضل الرحمن آزادی مارچ اوردھرنے کے ذریعے اپنے مقاصدمیں کامیاب ہوں یا نہ لیکن مولاناکے کارکن اوردنیاکی نظروں میں جاہل گردانے جانے والے مولوی سو فیصد کامیاب ہوچکے ہیں ۔جاہل مولویوں کے اس دھرنے میں ہمارے لیے بھی بہت بڑاسبق موجود ہے کہ ماردھاڑ، جلاؤ،گھیراؤ،شاہراہیں بنداورشترڈاؤن وپہیہ جام کے علاوہ بھی احتجاج، مارچ ،جلسے ،جلوس اوردھرنے دیے جاسکتے ہیں۔
ہمارے جیسے جواعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ احتجاج، مارچ اوردھرنوں کے نام پرہردوسرے دن لوگوں کی زندگیاں عذاب بناتے ہیں ان کوایسے جاہل مولویوں سے کچھ سیکھنا چاہیئے تاکہ آئندہ کسی غریب کابچہ روڈبندش کی وجہ سے بھوک سے بلکے نہ کوئی مجبور اور لاچار انسان فوری طبی امدادنہ ملنے کے باعث ایمبولینس میں ایڑھیاں رگڑرگڑکرجان سے ہاتھ دھو نہ بیٹھے۔اللہ ہم سب کوملک وقوم کی فلاح کے لئے کام کرنے کی توفیق دے۔آمین