جسارت اخبار میں آج (8 نومبر 2019) شائع ہونے والی خبر کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ “سکھ یاتری ایک سال تک صرف شناختی کارڈ کے ذریعے کرتارپور آسکیں گے، 20 ڈالر فیس صر ف 2 روز کے لیے معاف اورپاسپورٹ کی شرط ایک سال کے لیے ختم کی گئی ہے”۔ بہت ساری باتیں ایسی سی ہوتی ہیں جس کو دیکھنے والے یا ان پر سوچنے والے اپنا اپنا زاویہ نگاہ یا سوچ رکھتے ہیں۔ اسی کو اختلاف رائے کہا جاتا ہے اور رائے کا یہ اختلاف اگر ایک دائرے میں ہو، ادب و لحاظ کو ملحوظ رکھ کر کیا جارہا ہو اور لب و لہجہ ضد اور انا کا اظہار نہ کر رہا ہو تو اسے “حسن” کہا جاتا ہے لیکن اگر ہر اندازِ نظر ان تمام ذاویوں سے مختلف ہو تو یہ بات کبھی کبھی بہت سنگین صورت حال اختیار کر لیتی ہے اور نازک مسائل ہوں توقومیں تقسیم کی جانب جا نکلتی ہیں۔
کرتار پور کی راہداری بھی پاکستان میں ایک ایسا ہی سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ممکن ہے کہ جو اس کے کھولنے کے حق میں ہوں وہ پاکستان کیلئے کچھ اچھا ہی سوچ کر ہی ایسا انداز فکر رکھتے ہوں لیکن وہ لوگ جو اس کے شدید مخالف ہیں وہ بھی ضروری نہیں کہ پاکستان کیلئے غلط سوچ رہے ہوں۔ جہاں یہ صورت حال ہو کہ مخالف یا موافق اپنے اپنے رویوں میں بے لچک ہونے لگیں وہاں حالات کبھی کبھی سنگین نوعیت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ جب کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو یہ بات از حد ضروری ہوجاتی ہے کہ کوئی تو گروہ یا ادارہ ایسا ہو جو فریقین کو ایک دوسرے کا مؤقف سمجھانے میں کامیاب ہو اور سب کو اس بات پر قائل کرلے کہ دونوں ہی اپنے اپنی بات میں درست اور دونوں ہی مخلص ہیں۔
بر صغیر کے مسلمان اپنے اپنے مسالک اور دینی معاملات میں بہت جذباتی ثابت ہوتے رہے ہیں۔ جب کسی بات پر اختلاف پیدا ہوجائے تو عموماً دونوں فریق اپنی اپنی بات یا قائم کردہ مؤقف پر ڈٹ جاتے ہیں۔ اگر کوئی ٹھنڈے دل سے دونوں فریقوں کے مؤقف پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے طرز استدلال یا منطق کے مطابق بالکل درست ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب کئی دہائیوں قبل لاؤڈاسپیکر پر اذان کا معاملہ اٹھا تو اکثر مقامات پر یہ بات کافی سنگین صورت اختیار کر گئی۔ اس وقت کے علما میں اختلاف پیدا ہوا۔ ایک گروہ کے نزدیک اذان یا نماز کے لیے لاؤڈاسپیکر استعمال کرنا درست تھا جب کہ دوسرا گروہ اس کا شدید مخالف تھا۔ تماشبین نے دوطرفہ مؤقف جانے بغیر ان کے اختلاف پر ملاؤں کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ دونوں جانب کے علما کا استدلال کچھ یوں تھا۔ ایک کہتا تھا کہ جب کسی مسلمان کے کان میں اذان کی آواز چلی جائے تو اس پر یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ لازماً مسجد میں باجماعت نماز کیلئے حاضر ہو۔ لاؤڈاسپیکر سے آواز میلوں دور تک جائے گی اور اس طرح جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے والا گناہگار بن جائے گا۔ میلوں دور کا فاصلہ طے کرکے آنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں ہوا کرتا۔ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ جہاں تک آواز جائے گی دین کو فرغ ملے گا اور رہا مسئلہ باجماعت نماز میں شرکت کا تو شرعی عذر کی موجودگی میں دین بہت سارے معاملات میں آسانیاں دیدیتا ہے۔ غور کیا جائے تو فریقین کی باتوں میں بہت وزن تھا اور کسی کے استدلال کو بھی آسانی سے رد نہیں کیا جاسکتا تھا۔
کرتار پور کی راہداری کئی لحاظ سے پاکستان کیلئے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ سکھوں کو بھارت کے بہت سارے رویوں یا امتیازی سلوک کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہاں اکثر “خالصتان” کے نعروں کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ سکھوں کو اپنی عبادات کیلئے اگر پاکستان کی جانب سے کچھ آسانیاں فراہم کردی جائیں تو دوطرفہ سکھ خاندانوں کو اس سے اطمنان حاصل ہونے کے امکانات ضرور پیدا ہونگے۔ کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب یا مسلک کے افراد کے آنے جانے سے ممالک کو فوائد ہی ہوتے ہیں۔ ایران، ایراق میں لاکھوں زائرین آتے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کو (مذہب اور مسلک سے ہٹ کر) کافی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ مسلمان حج کرنے اور روزہ رسول کی زیارت کیلئے دنیا بھر سے سعودی عرب جاتے ہیں، پورے سال عمرے کی غرض سے لوگ سعودیہ جاتے ہیں تو یہ وہاں کے لوگوں کیلئے ایک بہت بڑا ذریعہ آمدنی اور ثواب و برکت کا کام ہے۔ اسی طرح نہ جانے کتنے زائرین بھارت کے شہر اجمیر شریف جاتے ہیں تو یہ بات بھارت کیلئے ایک اچھا ذریعہ آمدنی ثابت ہوتی ہے۔ کرتار پور کی راہداری بھی پاکستان کیلئے اچھی خبروں کا سبب بن سکتی ہے اور یہاں عبادت کیلئے آنے والوں سے نہ صرف اچھی آمدنی کا ذریعہ پیدا ہو سکتا ہے بلکہ دو طرفہ تعلقات کی کشید گی میں بھی کسی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔
اس نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ قدم پاکستان کیلئے برا نہیں ہے اور جو افراد، محکمے یا حکومتِ وقت اس نقطہ نظر کے مطابق اس کی حمایت میں ہیں تو ان کو غلط نہیں کہا جاسکتا لیکن کچھ وہ بھی ہیں جو کرتار پور کی راہداری کے مخالف ہیں تو ان کے اندازِ فکر پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ شاید ان میں سے کسی کو بھی اس راہداری کے کھولنے پر اعتراض نہ ہو لیکن جن حالات میں اور جن آسانیوں کے ساتھ راہ داری کو کھولا جارہا ہے اس کیلئے مخالف رائے رکھنا کوئی ایسی بات نہیں جس پر بہت شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ اگر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ کیسا عمل لگے گا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں مسلمانوں کے گلے کاٹے جارہے ہوں۔ ان کو کرفیو کے حصار میں رکھ کر ان سے زندہ رہنے کا حق چھینا جارہا ہو، خواتین کی عصمتیں پامال کی جارہی ہوں اور مسلمانوں کے خون سے نہ صرف کشمیر میں بلکہ ہندوستان کے ایک وسیع علاقے میں، ہولی کھیلی جارہی ہو اور ہم ان سب مناظر کو دیکھنے کے باوجود اُسی ملک کے ہر مذہب والوں کیلئے اپنی آنکھیں فرش راہ کئے ہوئے ہوں تو پھر مسلمانوں کے دلوں میں اشتعال تو پیدا ہوگا۔ اگر مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہنے کے مناظر دیکھنے کے باوجود ہم محض چند سکوں یا دنیوی مفادات کی خاطر اپنی گردنیں خم کر کے اسی ملک کے قاتلوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے کیلئے بے پناہ آسانیاں فراہم کر رہے ہوں تو یہ عمل کسی بھی صورت پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے قابل قبول کیسے ہو سکتا ہے۔
کرتار پور راہداری کا مسئلہ کوئی آج کا نہیں۔ یہ برسوں پرانہ منصوبہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو منصوبہ کئی برسوں سے تنازعے کا شکار تھا اگر اس کو موجودہ حالات کی روشنی میں مزید مؤخر کردیا جاتا تو کیا پاکستان کی معیشت تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی؟۔ نیز یہ کہ کیا پاکستان نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق جو آسائشیں اور رعایتیں سکھوں کو دیکر ان کے دل میں اپنے لئے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھارت کو قابل قبول ہونگی؟۔ کیا ہندوستان پاکستانیوں کو مختلف مقامات کی زیارتوں یا تفریحی مقامات کی سیاحت کیلئے بالکل اسی قسم کی آسانیاں فراہم کرنے کا اعلان کرے تو پاکستان اس کو من وعن قبول کر لیگا؟۔
یہ بات محض ہواؤں کے دوش پر نہیں کہی جا رہی بلکہ اس بنیاد پر کہی جا رہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے دی جانے والی رعایتوں پر بھارت کی حکومت کو شدید اختلافات ہیں۔ جسارت میں شائع ہونے والی اسی خبر کی تفصیل میں درج ہے کہ “بھارت نے سکھ یاتریوں کے لیے اعلان کردہ مراعات لینے سے انکار کردیا ہے”۔ پاکستان کیا، دنیا کا کوئی بھی ملک اگر اپنے ملک میں کسی بھی غرض (مثبت) سے آنے جانے کیلئے پاسپورٹ یا ویزے کی قید ختم کردے تب بھی کسی بھی ملک کا کوئی بھی فرد اپنے ملک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے ملک کا سفر کیسے کر سکتا ہے؟۔
ایک اور بات جو ناقابل فہم بنتی جارہی ہے وہ یہ ہے ایک جانب تو ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ کشمیر کی کنٹرول لائن پر اب ہر روز کے حساب سے فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے اور جسارت ہی کی خبر کے مطابق مغربی سرحد پر بھی حالات بہت کشیدہ ہیں یہاں تک کہ افغانستان میں موجود سفارتی عملہ بھی اپنے غیر محفوظ ہونے کی خبریں دے رہا ہے۔ صورت حال ایسی پر آشوب ہو اور ہم اپنی سرحدیں بے پناہ رعایتوں کے ساتھ دشمنوں کیلئے کھول کر بیٹھے ہوں تو بات فہم و فراست سے بہت دور کی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان تمام معاملات کو سامنے رکھ کر مقتدر حلقوں اور حکام بالا سے سے نظرثانی کی درخواست ہی کی جاسکتی ہے اور یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ
کاش وہ خود کو آئینے میں
میری آنکھیں بن کے دیکھے