نمی دانی کہ سوزِ قرات تو

امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں کہ میں نے ساری زندگی قرآن فہمی میں گزاری اور خود کو جانا کہ میں نے تفسیر لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔لیکن قرآن فہمی میں جہاں ہماری پرواز ختم ہوتی ہے وہاں سے علامہ اقبال کی پرواز کا آغاز ہوتا ہے۔پھر ایک سرد آہ بھر کر کہا کہ ” جس قوم کو اقبال جیسا حدُی خواں نا جگا سکا ہما شما کی حیثیت کیا ہے”
ایرانی انقلاب کے روح رواں خمینی کہتے ہیں کہ” 1979 کاانقلاب ِایران اقبال کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔”
ایک اور ایرانی رہنما علی شریعتی بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ۔
” 1979 کے انقلابِ ایران میں اقبال کا نامpower and awakening خیال کیا جاتا ہے۔”
درج بالا اقوال کے منقول کرنے کا مقصد محض اتنا ہے کہ علامہ اقبال کو یہ عظیم مقام محنتِ یک شنبہ کے عوض نہیں ملا بلکہ اس کے پیچھے اقبال کے والدین اور خاندا ن کی وہ تربیت ہے جس نے اقبال کے اندر بچپن سے ہی وہ عادات،صفات،اخلاق و اطوار کی ایسی لگن پیدا کر دی کہ جس کا اثر دم آخر تک رہا۔انہوں نے قرآن کی تعلیم،تلاوت و قرا ت سے کبھی بھی جی نہ چرایا۔بلکہ کبھی اچھے موڈ میں ہوتے تو خوش الحانی سے تلاوت و قرات سے محظوظ ہوتے کہ بعض اوقات ایسی کیفیت میں استغراق میں چلے جاتے کہ انہیں اپنی بھی خبر نہ ہوتی پھر خوب یادِ باری تعالیٰ میں غرق ہو کے آہ و زاری سے اپنی قوم کے لئے دعائیں فرماتے۔اقبال لکھتے ہیں کہ۔
گر دلم آئینہ بے جوہر است۔۔۔۔۔۔۔۔اگر دل کا آئینہ کسی خوبی سے خالی ہے
گر بحر فم غیر قرآن مضمر است۔۔۔۔۔۔۔اگر قرآن کے علاوہ میرے دل میں ایک حرف بھی موجود ہے
روزِ محشر خوار و رسوا کم مرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے اللہ روزِ قیامت مجھے خوار و رسوا کر دینا
بے نصیب از بوسہ پا کن مرا۔۔۔۔۔۔۔مجھے رسول اللہ کے پاؤں کے بوسے سے بھی محروم کر دینا۔
ایسے اشعار ہر ہما شما شاعر کی ذہنی فکر نہیں ہو سکتی۔ایسا اندازِ،ذاتِ نفی وہ اپنا سکتا ہے جس پہ میرے مالک کی عطا ہو۔جن کے بارے میں بزرگ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ علم سے نہیں عطا سے بولتے ہیں۔اقبال بلاشبہ ایسے ہی شاعر ہیں جن پہ اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اقبال کی زندگی کا خاصہ قر آن فہمی اور عشقِ قرآن بھی تھا، اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کو محض اساطیر الاولین خیال نہ کر لیا جائے بلکہ اس میں موجود 750 آیات جو قرآن کا آٹھواں حصہ بنتا ہے،آیاتِ معاملاتِ عمرانی کو اپنی زیست کا عملی اوڑھنا بچھونا بنا کر دنیا کے سامنے ایک مثالِ عمل پیش کرنی چاہئے۔وہ اس بات سے بھی خوب آشنائی رکھتے تھے کہ قرآن وہ کتاب ہے جو کتابِ صلوۃ کے ساتھ ساتھ کتابِ اعمال بھی ہے اور دونوں کو عملاً ماننا ایک مومن کی معراج ہے۔اقبال The Reconstruction Of Religious Thought In Islamکے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ۔The Quran is a book which emphasizes “deed” rather than “idea” کہ قرآن کتاب عمل ہے۔اقبال اپنے اشعار میں جابجا مسلمانوں کی زبوں حالی،زوال،پسماندگی،اخلاقی گراوٹ اور علمی پستی کا ذکر کرتے ہیں کہ جب سے مسلمانوں نے قرآنی تعلیمات کو اپنی زندگیوں سے نکال دیا ہے اس وقت سے ذلالت و خواری ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔جب تک قرآن ہمارے ذہنوں،سینوں اور اعمال میں رہا،دنیا کی تمام سپر پاورز ہمارا پانی بھرتی تھیں اور آج اگر ہم اخلاقی پستی کے پاتال کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں تو اس کی بڑی وجہ ہمارا قرآنی تعلیمات سے عدم وابستگی ہے۔بقولِ اقبال۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
عشق قرآن اور قرآن فہمی کا درس دراصل گھریلو تربیت کا ایک جز و لاینفک تھا،کہ ایک طرف تو گھر میں کتب بینی،عشقِ کتاب کا عالم اور ماحول کہ جس ماحول نے علامہ میں بچپن سے ہی شعر و شاعری کا شوق پیدا کر دیا تو دوسری طرف مثنوی مولانا روم جیسی ضغیم کتاب جو انہیں بچپن میں ہی پڑھنے کا موقع نصیب ہوا۔کہ جس کے شروعات ہی اس شعر سے ہوتی ہے۔
مثنوی،معنوی،مولوی
ہستِ قرآن در زبان پہلوی
اقبال کو مثنوی اس قدر بھائی کی ساری زندگی اس کے اثر سے باہر نہ نکل پائے۔جس کی مثال یہ ہے کہ وہ مولانا روم کو مرشد رومی اور خود کو مریدِ ہندی لکھتے رہے۔اور اس بات کا اعتراف اقبال اپنی شاعری میں جابجا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
رازِ معنی مرشدِ رومی کشود
فکرِ من بر آستانش در سجود
ایک بار اقبال قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ والد صاحب کا پاس سے گزر ہوا۔رکتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ کیا قرآن کی سمجھ بھی آ رہی ہے؟اقبال نے جواب دیا کہ ہاں،عربی اور گرامر دونوں جانتا ہوں۔جس پہ والد گرامی فرمانے لگے کہ قرآن ایسے پڑھو جیسے اس کا نزول تم پہ ہو رہا ہو۔یہی عادت اقبال اپنے بیٹے جاوید اقبال میں بھی دیکھنا چاہتے تھے۔جاوید اقبال اپنی کتاب “مئے لالہ فام” میں اس کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ” اقبال کے عقیدت مندوں میں حجازی عرب بھی تھے جو کبھی کبھار قرآن پڑھ کر اقبال کو سنایا کرتے تھے۔میں نے بھی قرآن ان سے پڑھا وہ بہت خوش الحان تھے۔ابا جان جب بھی ان سے قرآن سنتے مجھے ہمیشہ بلا بھیجتے۔ایک بار سورۃ مزمل کی تلاوت وہ فرما رہے تھے تلاوت سن کر والد گرامی اتنا روئے کہ آنسووٗں سے تکیہ تر ہو گیا۔جب وہ تلاوت ختم کر چکے تو مجھے فرمانے لگے کہ جاوید قرآن ایسے پڑھا کرو۔”۔۔۔اسی طرح ایک بار مجھے مسدس پڑھنے کو کہا جب خاص طور پہ وہ بند قریب بیٹھے ہوئے محمد شفیع نے دہرایا۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
تو آپ آبدیدہ ہو گئے۔حالانکہ میں نے انہیں اماں جان کی وفات پہ روتے ہوئے نہیں دیکھا۔تھا۔مگر قرآن سنتے وقت وہ اکثرنمناک و آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔عشق قرآن اقبال کی ذات میں دراصل عشق مصطفی ﷺ کا نتیجہ ہے۔کہ جب کبھی بھی آپ ﷺ کا نامِ نامی اسمِ گرامی کسی کی بھی نوکِ زبان ہوتا یا اپنی شاعری میں استعمال کر رہے ہوتے تو اشک روانی ایک بحر کی سی صورت اختیار کر جاتی۔یہی وجہ تھی کہ اقبال تصورِ ذاتِ محمد ﷺ کے علاوہ کسی اور کا تصور بھی شرک کے مترادف خیال کرتے تھے۔
ہر کہ رمزِ مصطفٰی فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است
گویا عشقِ احمدِ مرسلین اور رحمتِ باری تعالیٰ کا یقین ِ کامل اوائل عمری میں ہی ان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہو۔کہ ان کی شاعری کا آغاز بھی ایسے اشعار سے ہوتا ہے کہ انہیں اس بات پہ مکمل یقین تھا کہ دنیا میں اگر کوئی مطلق العنان ذات ہے تو وہ خدائے بزرگ و برتر کی وہ واحد ہستی ہے جو باوجودیکہ کثرتِ گناہ اپنے بندوں کو دامنِ حقیقی میں چھپا لیتے ہیں۔اقبال جب لاہور آئے تو ایک مشاعرہ میں جس کے میرِ مجلس مرزا ارشد گورگانی تھے،جب درجِ ذیل اشعار اقبال نے پڑ ھے تو میرِ مجلس تڑپ اٹھے اور اقبال کو آنے والی صدیوں کا سب سے بڑا شاعر ہونے کی پیش گوئی کر دی جو آج من و عن سچ ثابت ہو رہی ہے۔کہ اقبال آنے والے ہر دور اور ہر قوم وملت کا شاعر بن گیا ہے۔ان کے وہ اشعار ملاحظہ ہوں
موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
ہم کو تو لکھنؤ سے نہ دہلی سے ہے غرض
اقبال ؔ ہم اسیر ہیں زلفِ کمال کے
اقبال کے کلام کا اگر بنظر عمیق مطالعہ کریں تو ایک بات جو واضح ہوتی ہے۔ان کی شاعری میں ایک ایک شعر مکمل داستان اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے جسے وہی قاری تلاش کر سکتا ہے جو متلاشِ حق کی راہ کا مسافر ہو۔جب آپ پر ان کی شاعری کے راز افشاں ہوتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ ایک ایک مصرع اور بیت میں ایک داستان اور حکائت پنہاں ہے۔جیسے اس شعر کے معنی و مفہوم کو جب ہم سمجھتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے حضرت عمر ؑ کے قبولِ اسلام کا پورا واقعہ مانندِ فلم پردہِ ذہن پر متحرک ہو جاتا ہے۔کہ
نمی دانی کہ سوزِ قرات تو
دگرگوں کرد تقدیرِ عمرِ را
عشق قرآن اور یقینِ قرآن پر ان کا ایک اور واقعہ یاد آگیا کہ ایک بار ان کی ملاقات ایک مغربی پروفیسر میک ڈوگل سے ہوئی جو کہ حضورﷺ کو psycho pathetic خیال کرتے تھے۔کہ ایک dream world میں جبریل ؑ کو ایک خاص کیفیت میں جا کر دیکھتے تھے اوراسے پھر پوری قوم کے سامنے آ کر بیان کر دیتے تھے۔اس نے اقبال سے ایک مرتبہ سوال کیا،Do you still believe that Quran was revealed on Hazrat Muhammad (PBUH) تو اقبال نے اسے بہت خوبصورت جواب دیا کہ ” عالم بالا سے مجھ پر چار پانچ سو اشعار اگر اتر سکتے ہیں تو حضرت محمدﷺ پر قرآن کیوں نازل نہیں ہو سکتا۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں