سارے مسائل کا حل نظام خلافت میں ہی ہے

1958 کے بعد سے تا حال، یوں لگتا ہے کہ جمہوریت ہمیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ جو حکمران بھی آتا ہے، خواہ وردی والا ہو یا سادے لباس والا، اس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کے منھ سے نکلا ہوا ہر لفظ “قانون” مانا جائے۔ ایوب خان تو خیر سے آئے ہی آئین و قانون کی سارے بندھنوں کو توڑ کر تھے اس لیے ان سے اگر کوئی بات پوچھی جاسکتی ہے تو یہی کہ “غداری” کا مطلب ہوتا کیا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ پاکستان میں جو ادارہ ان سے یہ سوال کرنے کے قابل تھا اور ہے، وہ وہی ادارہ ہے جس سے کوئی وفادارِ آئین و پاکستان ایسا سوال کرنے کی جرات ہی نہیں کرسکتا۔

1958 سے لے کر آج تک پاکستان ایک بہت بڑی سیاسی، آئینی اور قانونی تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ جو بھی تخت حکومت پر بیٹھتا ہے وہ چوں چوں کا ایسا مربہ ثابت ہوتا ہے جس کو نہ تو آمریت کی کڑواہٹ بھلی لگتی ہے اور نہ ہی اسے جمہوریت کی مٹھاس کے بغیر ملک چلانے میں مزا آتا ہے۔ پہلے مارشل لا کے بعد اس بات کی کوشش کی گئی کہ پورے ملک کو پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا جائے چنانچہ سیاسی لیڈروں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا لیکن ہوا یوں کہ جمہوریت کا کیڑا چیف مارشل لا کے دل و دماغ میں کلبلانے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سخت گیر ڈکٹیٹر نے “بنیادی جمہوری نظام” کا تجربہ کر ڈالا۔ پھر ہوا یوں کہ جمہوریت کا یہ ایٹم بم خود اس کی اپنی حکومت کو تباہ و برباد کر گیا۔ یحییٰ خان کی حکومت میں پوری جمہوریت کا تجربہ پاکستان کو دولخت کرنے کا سبب بنا۔ مارشل لائی دور کا سورج غروب ہوا تو پاکستان میں جمہوریت کا ابھرنے والا سورج نکلتے ہی گہنا گیا اور اس جمہوریت نے وہ اندھیر مچائی کہ مارشل لا کی سختیاں نرمیاں نظر آنے لگیں اور عسکری قوتوں کو ایک مرتبہ پھر ملک میں سخت ترین آمریت قائم کرنے کا موقع مل گیا اور یوں ضیاالحق نے پورے ملک میں مارشل نافذ کردیا۔ لیکن یہ بات بڑی عجیب ہے کہ جب قوم جمہوری حکمرانوں کو اپنا رہبر و رہنما بناتی ہے تو وہ حکمران آمریت کے دلدادہ ثابت ہوتے ہیں اور جب جمہوری ظلم جبر کے ہاتھوں تنگ آکر لوگ مارشل لا کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں تو آمریت اپنے آپ کو جمہوریت میں ڈھال لیتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب کوئی آمر جمہویت کی جانب قدم بڑھاتا ہے، بی ڈی سسٹم بناتا ہے، بلدیاتی نظام ایجاد کرتا ہے یا مقامی حکومتوں کے تحت عوام تک اختیارات منتقل کرنے لگتا ہے تو آمریت قتل کردی جاتی ہے اور جب کوئی جمہوریت کے تحت اور عوام کی رائے سے منتخب ہو کر ملک کا حاکم بننے کے بعد آمرانہ طرز حکومت اختیار کرتا ہے اور ملک کو آئین و قانون کے مطابق چلانے کی بجائے اپنے احکامات کے تحت چلانے کے درپے ہوجاتا ہے تو عوام اس کے اقتدار کے سورج کو غروب کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ گزشتہ 72 برسوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے لیکن سویلین ہوں یا وردی والے، اس بات سے کسی بھی قسم کا کوئی سبق سیکھنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔

جب یہ بات ثابت ہے کہ جس قسم کی بھی طرز حکومت ہو، وہ اگر اپنے مزاج سے ہٹ کر نہیں چلائی جاسکتی تو پھر یہ ضروری ہے کہ بادشاہت بادشاہت کے جاہ و جلال کے ساتھ، سلطانیت سلطانیت کی سطوت کے ساتھ، آمریت آمرانہ انداز فکر کے اور جمہوریت جمہوری اقداروروایات کے ساتھ ہی چلائی جاسکتی، اس میں کسی بھی قسم کا کوئی اختلاط یا شتر گربے کا تجربہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا تو پھر یہ بار بار کے تجربے آخر کب تک چلتے رہیں گے اور ہر تجربے کی ناکامی کی سزا عوام ہی کیوں بھگت تے رہیں گے۔

ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام ایجاد کیا، جنرل ضیا نے بلدیاتی نظام بنایا، پرویز مشرف نے مقامی حکومتی سسٹم سے رو شناس کرایا۔ ہر سسٹم سے ہر آنے والے حاکم کو اختلاف رہا جس کی وجہ سے وہ اختیارات جو ہر گلی کوچے میں موجود عوامی نمائندوں کو ملتے رہے، وہ کبھی ان کو دیے جاتے رہے اور کبھی ان سے چھینے جاتے رہے اور عوام مسلسل تباہی و بربادی کا شکار ہوتے رہے۔ عوام تک اختیارات کی منتقلی کیلئے جتنے  بھی نظام وضع ہوئے وہ سارے کے سارے آمروں کے دور میں ہی ہوئے اس کے بر عکس نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے گراس روٹ تک آجانے والے اختیارات کو مزید جڑوں تک اتارنے کی بجائے اپنے قومی و صوبائی نمائندوں کی مٹھی تک محدود کر کے اس بات کی کوشش کی کہ ان کی مٹھیاں گرم رہیں اور وہ ملے ہوئے فنڈ کو عوامی ضرورتیں پورا کرنے کی بجائے اپنے اوپر خرچ کی ہوئی اس دولت کو جو الیکشن کے دوران انھوں نے وفاداریاں خریدنے میں لگائی تھی، اسے سود کے ساتھ وصول کر سکیں۔

اس رویے سے ہوا یوں کہ جب عدالت کو اس بات کا حکم دینا پڑا کہ مقامی جمہورتی نظام کو بحال کیا جائے اور الیکشن کرائے جائیں تو ان منتخب نمائندوں اورنام نہاد جمہوری حکومتوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ مقامی حکومت کی بحالی سے قبل، قانون میں ایسی ترامیم کرلی جائیں کہ الیکشن کے نتیجے میں منتخب ہونے والی مقامی حکومتیں صرف کاٹھ کی الو ہی بن کر رہ جائیں اور وہ عوام کے سامنے صرف ذلت و رسوائی اٹھانے کے اور کچھ نہ کر سکیں۔ چنانچہ پورے ملک میں مقامی حکومتیں قائم ہوجانے کے باوجود بھی دور دور تک عوامی مسائل کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور ان کے منتخب مقامی حکومتوں کے نمائندے صرف اس لیے اپنے اپنے دفتروں اور گھروں میں ہیں کہ وہ عوام کی گالیاں کھاتے رہیں اور سارے فنڈ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران اپنے پیٹوں میں اتارتے رہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جب بھی مقامی حکومتوں کے الیکشن قریب آنے لگتے ہیں، ان کیلئے بنائے ہوئے قوانین میں ترامیم کا شور بہت شدت کے ساتھ بلند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ خبر ہے کہ وفاقی کابینہ نے اسلام آباد کیلئے نیا نظام لانے کی منظوری دیدی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی نظام پہلے سے موجود ہے اور ماضی میں اس کے نتائج بہت زیادہ مثبت طریقے سے عوام کے سامنے آتے رہے ہیں تو پہلے سے نافذ نظام میں کسی ترمیم کی ضرورت کس لیے پیش آ رہی ہے۔ یہی وہ طرز فکر تھی جو 2013 کے الیکشن کے بعد قائم ہونے والی ایک جمہوری حکومت نے اختیار کی تھی اور مقامی حکومتوں کے نظام کیلئے جو قانون جنرل پرویز مشرف نے بنایا تھا اس میں اتنی ترامیم کی گئیں تھیں کہ اس نظام کے تحت منتخب ہونے والے تمام ممبران صرف تنخواہیں وصول کرنے کے علاوہ عوام کی کسی بھی شکایت دور کرنے کیلئے نہ تو کوئی فنڈ رکھتے ہیں اور نہ ہی اختیارات جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عوام کے وہ مسائل جو گھر بیٹھے حل ہوجایا کرتے تھے اب عوام یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کیلئے کہاں جاکر اپنا سر پھوڑیں۔ گلیاں، بازار، گاؤں اور شہر کوڑے کچرے کے ڈھیر میں دبتے چلے جارہے  ہیں، سڑکوں کا برا حال ہے، نئی نئی بیماریاں قیامت بن کر ٹوٹ رہی ہیں، محلے نینی تال بنے ہوئے ہیں، گٹر فواروں کی طرح ابل رہے ہیں، فضائیں بدبوؤں سے رچ بس گئی ہیں لیکن لوگ حیران ہیں کہ وہ اگر کوئی در کھٹکھٹائیں بھی تو کس کا کھٹکھٹائیں۔

اب پھر مقامی حکومتوں کے الیکشن قریب ہیں اور اب پھر فضا میں نظام کی ترمیم ترمیم کے نعروں کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔ اب سے پہلے جو نام نہاد جمہوری حکمران تھے انھوں نے پرویز مشرف کے بنائے ہوئے مقامی حکومتوں کے نظام میں اپنی مرضی و منشا کے مطابق تبدیلیاں کی تھیں اور اب جو تختہ اقتدار پر متمکن ہیں وہ اس فکر میں ہیں کہ وہ اس نظام کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں۔

یہ ساری باتیں اس بات کہ عکاس ہیں کہ ہم جمہوری ہوں تو ہمارے اندر ہمارا آمر جاگ اٹھتا ہے اور جو آمرانہ نظام ہماری طبع نازک پر گراں گرزتا تھا وہ اس لئے اچھا نظر آنے لگتا ہے کہ اس میں ہماری “میں” کو حکومت کرنے کا پورا پورا موقعہ ملتا ہے اور جب آمریت اپنے پنجے گاڑ کر تختہ اقتدار پر آبیٹھتی ہے تو اس کے اندر کی جمہوریت بیدار ہوجاتی ہے اس لئے کہ اسے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے عوام کا تعاون درکار ہوتا ہے۔

بات بہت ہی سادہ سی ہے کہ “جمہوریت” ہو یا “آمریت” یہ دونوں نظام اس نظام کی ضد ہیں جس کو “خلافت” کہا جاتا ہے۔ خلافت میں جو بھی حکمران ہوتا ہے وہ حاکمِ اعلیٰ نہیں ہوتا ہے کیونکہ مخلوق کا حاکم اعلیٰ اللہ کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ مخلوق نیابت کا درجہ ضرور رکھتی ہے مگر حکم جاری نہیں کر سکتی اس لئے کہ مخلوق پر صرف خالق کا ہی حکم چل سکتا ہے۔ کاش یہ بات اہل پاکستان کو سمجھ میں آجائے تو پاکستان کی ہی نہیں ساری دنیا کی تقدیر بدل جائے اور بار بار کی آئین و قوانین میں تبدیلیوں سے مخلوق خدا کی جان چھوٹ جائے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں