ہر طرف دھند تھی، گردو غبار کے اڑنے سے پھیلی دھند۔ ڈیرے کے اردگرد پھیلے جامن، پیپل اور شیشم کے بڑے بڑے درخت اس دھند نما گردوغبار میں چھپتے چلے جاتے۔ چھوٹی سی مسجد جو اس ڈیرے کے ساتھ ہی کہیں وجود میں آئی تھی۔ جس کے صحن میں شکستہ اینٹوں کا فرش تھا۔ چھت کے لکڑی کے شہتیروں میں ابابیلوں کے گھونسلے تھے جہاں نمازیں کم کم ہی پڑھی جاتیں۔ زیادہ تر مسجد کے صحن اور واحد کمرے جہاں شرارتی بچے کھیلتے رہتے۔
مسجد کا نابینا متولی عالم علی مسجد کا واحد نمازی تھا۔ وہ بیٹھ کے تلاوت کر رہا ہوتا اور بچے بچپنے کے بھولپن میں اسے تنگ کر کے مزے لیتے۔مسجد کے کمرے میں ایک طرف دیوار میں الماری تھی جس میں قرآن مجید کے نئے اور بوسیدہ دونوں طرح کے نسخے رکھے تھے۔ دوسری طرف کی دیوار میں کھڑکی تھی جس سے دور تک لہلہاتے کھیت نظر آتے۔
مسجد کے دو چھوٹے چھوٹے مینار تھے جن پہ شکستہ سیمنٹ کے ٹکڑے کہیں کہیں باقی رہ گئے تھے۔ چونے کا لیپ سیمنٹ کے ان ٹکڑوں پہ خال خال جما ہوا تھا۔ مسجد کی دیواروں اور میناروں سے وہ لیپ جھڑتا اور شکستہ اینٹوں کے فرش کو سفید کرتا۔ میناروں کے درمیان ڈوبتا لال انگارا سورج بھی دھند میں اٹا پہچانا نہ جاتا ایسے میں بھینسوں کے گلے میں بندھی گھنٹیاں عجب دکھی سے راگ الاپتی بجنے لگتی۔ اماں نے برآمدے میں جائے نماز بچھا رکھی ہوتی ان کے سجدے معمول سے لمبے ہو جاتے۔ دعا مانگتی تو مانگتی ہی چلی جاتی۔ وہ نماز سے فارغ ہوتیں تو میں کریدتی اماں آج آپ نے اتنی لمبی نماز کیوں پڑھی سجدے کیوں اتنے طویل تھے۔ وہ کہتیں دیکھ آج کیسا گردوغبار ہے۔ کیسی لال آندھی اٹھی ہے کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ دیکھ تو سورج بھی بجھتا محسوس ہوتا ہے۔ لگتا ہے آج کوئی بے گناہ قتل ہوا ہے۔ میں خدا سے خیریت کی دعا مانگ رہی تھی۔ پتہ نہیں کوئی قتل ہوا ہوتا یا نہیں جب بھی وہ گردو غبار پھیلتا میں سہم ساجاتی۔ سراسیمہ ہوجاتی۔ اداس اداس پھرتی۔
آج کل جب گلیوں میں نکلتی ہوں تو وہی گردوغبار ہر طرف پھیلا نظر آتا ہے۔ ایک دھند ہے جو آنکھوں کو دھندلاتی ہے۔ سورج بجھتا محسوس ہوتا ہے۔ کہیں ہے جو کوئی بے گناہ قتل ہو رہا ہے۔ کوئی ہے جو بے موت مارا جا رہا ہے۔ موت کا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ میں خوفزدہ پھرتی ہوں۔ سراسیمگی سی طاری ہے مجھےلگتا ہے کہ ہم سب مل کر اس مٹی کا خون کر رہے ہیں۔ جب بھی ہم کوئی ایک درخت کاٹتے ہیں تو اس زمین کو ہم ایک گہرا گھاؤ لگا دیتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی نئی ہاؤسنگ سکیم کئی سر سبز کھیتوں کی مٹی کو نگل جاتی ہے تو اس زمین کی ایک ہچکی سنائی دیتی ہے جیسے مرتے ہوئے آدمی کی آخری ہچکی ہو۔ دھواں اگلتی گاڑیاں، موٹرسائیکل، بسیں ہر طرف رواں دواں ہیں۔ ہم یہ زہر اگل رہے ہیں اور موت بانٹ رہے ہی۔ میں خود کو دیکھتی ہوں اردگرد نظر دوڑاتی ہوں تو مجھے قاتلوں کا ایک ہجوم رواں دکھائی دیتا ہے جو اس زمین کو آہستہ آہستہ موت کے گھاٹ اتار رہا ہے اور ہم سب نے دستانے بھی پہن رکھے ہیں۔
بہت اچھا لکھا ہے