آٹھ سن ھجری، جب آنحضورﷺ مکّہ فتح کرنے کے ارادے سے صحا بہ رضوان اللہ اجمعین کےساتھ مکّہ کی جانب پیش قدمی کررہے تھے تو ایک شخص آیا اور کہا کہ: محمدﷺ اگر آپ قبیلہ مدلج پر حملہ کریں تو ان کے پاس بہت بڑی تعداد میں سرخ اونٹ ہیں۔اور انکی عورتیں بہت خوبصورت ہیں۔”رحمت عالمﷺ نے جواب ارشاد فرمایا کہ:” مجھے اللہ نے قبیلہ مدلج پر حملہ کرنے سے منع کیا ہے۔کیونکہ یہ لوگ صلہ رحمی کرتے ہیں اور اپنے رشتہ دارون کا حق پہچانتے ہیں۔”حالانکہ یہ قبیلہ قریش کا حلیف قبیلہ تھا۔
حاتم طائی کے قبیلے طے کی سرکوبی کے لیے جب صحابہ کا لشکر بھیجا عدی بن حاتم جو کہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اور ان کے دل میں اسلام کے خلاف عداوت کی آگ جل رہی تھی۔جب ان لوگوں کا سامنا اسلامی لشکر سے ہوا تو وہ حملے کی تاب نہ لا سکے اور فرار ہوجانے میں اپنی عافیت سمجھی۔ عدی بن حاتم اور دیگر سردار فرار ہوگئے۔عورتیں، بچے اور مال و اسبا ب ہاتھ لگا ۔ قیدیوں کو حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس موقع پر حاتم طائی کی بہن بھی موجود تھی۔ اس نے حضورﷺ سے کہا: ” میرا باپ ایک سخی آدمی تھا وہ قیدیوں کا فدیہ ادا کرکے ان کو آزاد کراتا، بھوکوں کو کھانا کھلاتا،وفا شعار اور عہد کا پابند تھا۔ آپﷺ میرے باپ کی ان خوبیوں کی وجہ سے ہمیں آزاد کردیں۔”
حضورﷺ نے فرمایا:”یہ صفات تو مسلمانوں کی ہیں۔ اگر تیرا باپ مسلمان ہوتا تو میں تیرے باپ کے لیے دعا کرتا”۔اس کے بعد حاتم طائی کی بیٹی اور تمام قیدیوں کو رہا کردیا گیا۔
اسلام پر اعتراض کرنے والے آج اور ماضی میں بھی اسلام پر یہ الزام دھرتے رہے ہیں کہ اسلام طاقت کے زریعے پھیلا ہے۔اور اس کو بڑے زور دار انداز میں پیش کرتے ہیں۔اس میں ہمارے کچھ روشن خیال اور مغرب سے متاثر مسلمان بھی مرعوب ہوجاتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے ان مردان حق کا جنہوں نے ماضی میں اور آج بھی اس اعتراض کا منہ توڑ اور مدلّل جواب دیا ہے۔جو کہ تایخ کا حصّہ ہے۔جس میں ایک کتاب “الجہاد فی الاسلام” کا ذکر کرنا ضروری ہے جس کی آرزو مولانا محمد علی جوہر نے کی اور جس کو علّامہ اقبال نے ایک گراں قدر کاوش قراردی۔
رحمت عالمﷺ کی حیات طیّبہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو کیہ بات دلیل کے طور پر سامنے آجاتی ہے اور اسلام کے خلاف یہ جھوٹ کا طوفان ریگستان کا سراب نظر آتاہے۔ بس شرط یہ ہے کہ انسان نے اپنے اوپر بے شرمی کی چادر نہ اوڑھ رکھی ہو۔ وہ اس بات کو مانے بغیر رہ نہیں سکتاہے کہ حضورﷺ نے جتنی بھی جنگیں لڑی وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کفّار کی مسلط کردہ تھیں۔ جوکہ ایک خاص پس منظر میں ناگزیر تھیں۔ لوگ ان کاروائیوں کو بھی جنگ شمار کرتےہیں جو کہ خالص پولیس کاروائیاں تھی اور وہ بھی کسی ریاست کی رٹ اور سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ناگزیر ہوتی ہیں۔
آپﷺ نے تو اوّل روز سے اپنے تمام متبعین کو انسانی جان کا، اسکی عزت کا احترام سکھایا، بلکہ جانوروں اور درختوں کو بھی بلا ضرورت تلف کرنے سے منع فرمایا۔ دنیا میں ہردور میں جو بھی جنگیں اسلام کے علاہ لڑی گئیں ہیں ان سب کا حال یہی تھا کہ وہ تمام اصول اور قانوں سے عاری ہوتی تھی۔ آج بھی جو جنگیں دورِ حاضر میں لڑی جارہی ہیں ۔ اور ان جنگی جنون کی حامل قوموں کو اس بات کا بھی اصرار ہےکہ ان کو متّمدن اور تہذیب یافتہ قوم کہا جائے۔
وہ فساد فی الارض کو ختم کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں اور پوری دنیا کو جنگ کی آگ میں جلاتے جارہے ہیں۔ ملک کے ملک اور شہروں کے شہر کھنڈرات میں تبدیل کرتے چلے جارہے ہیں اور جنگی جنون ختم ہوکے نہیں دے رہا ہے۔
آنحضورﷺ نے اسلام کے لیے جو جنگیں لڑی ان کا مقصد نہ تو ملکوں پر قبضہ کرنا، نہ انسانوں کو غلام بنانا اور نہ ہی اسباب و سائل پر قبضہ کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لشکر جب بھی آپﷺ کہیں روانہ کرتے تو ان کو خاص ہدایت فرماتے جب لشکر کسی قوم کےسامنے جاتا تو ان کے سامنے تین شرطیں رکھتا اوّل: اسلام قبول کرلو تو ہمارے بھائی بن جاؤ گے دوم: اطاعت قبول کرلو جزیہ ادا کرو سوم: ورنہ جنگ کے لیے تیّار ہوجاؤ۔
یہی وجہ تھی کہ دنیا کا سب سے انوکھا انقلاب، اسلامی انقلاب تھا جس میں سب سے کم جانیں کام آئیں۔ اسلام کا انقلاب دلوں کی تبدیلی چاہتاہےیہ علم اور دلیل کی بنیاد پر انسانیت سے اپیل کرتاہے۔ لا اکراہ فی الدین کے اصول پر کار بند رہ کر دعوت سے میدان کو ہموار کرتاہے۔
آپﷺ نے دشمنوں کی اچھی صفات کی بھی قدر دانی فرمائی جیسا کہ اوپر کے دو واقعات میں موجود ہیں جس کی وجہ سے آپﷺ نے دشمن کو جنگ کی مصیبتوں سے محفوظ فرمایا آپﷺ نے جنگ سے حتی الاامکان گریز فرمایا۔جن لوگوں نے آپﷺ پر سنگ باری کی اس طائف کے قبیلے بنو ثقیف کا محاصرہ کرنے کے بعد آپﷺ نے ان کا محاصرہ ختم فرما دیا ۔ اور ان کو اسلام قبول کرنے کے لئے مہلت دی اور اپنے اوپر سنگ باری کرنے والوں پر بھی رحمت کے دریا بہادئے۔
سلام اس پر کہ جس نے خون کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کے دعائیں دی