“برگد کا درخت”

اسّی سال سے کم و بیش ہوگئے ہیں۔۔۔۔ میں یہاں موجود ہوں ۔۔ میری ان بڑی شاخوں نے اس علاقے پر ہر گزرتا دور دیکھا ہے۔۔۔ مجھے یاد ہے۔۔۔۔  میں ایسا بوڑھا نہ ہوا کرتا تھا۔۔ میری شاخیں بھی ایسی نہ تھی۔ میں کافی سرسبز تھا۔۔۔ جب میرے شہر کو ہری سنگھ نے میرے شہریوں کی اجازت کے بغیر بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا تھا پھر یہاں میرے لوگوں کے حق کے لیے جنگ بھی لڑی گئی۔۔ جس سے رائے شماری کا نتیجہ نکالا گیا تھا مگر نجانے وہ لمحہ ،وہ دن کب ہوگا ؟جب ان بے کسوں کی شنوائی  ہو گی؟ آج میں جوان سے بوڑھا ہو گیا ہوں مگر اب تک وہ دن نہیں آیا  جس کی آس میں  یہ لوگ کتنی ہی نسلیں ختم کرچکے ہیں۔۔ ان لوگوں نے اپنے بیٹے قربان کیے تو بیٹیوں کی عصمت کو تار تار ہوتے بھی دیکھا مگر وہ دن نہ آیا ۔۔۔ان سا مظلوم میں نے نہیں دیکھا۔۔۔

یہ کہتے کہتے وہ برگد کا درخت رونے لگا۔۔۔ پھر کچھ دیر کے بعد کہا ۔۔۔میری سمجھ نہیں آتا کہ میرے لوگ کس کی آس میں نعرہ لگاتے ہیں۔۔۔۔ان کی زبان “پاکستان زندہ باد” کہتے نہیں تھکتی مگر پاکستانی صرف تقریروں پر اکتفا  کر کے میرے بچوں کو کٹتا، مرتا چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔اور جب سے مودی نے باقاعدہ نسل کشی کا اعلان کیا ہے تب سے تو ظلم کی کوئی مثال بھارت کی فوج نے نہیں چھوڑی۔۔۔۔ تین مہینے ہونے کو ہیں یہاں کرفیو لگا ہوا ہے۔۔میری تو نگاہ ترس گئی کہ یہاں کوئی خوشی دیکھوں! وہ دور دیکھو جو میں نے بچپن میں دیکھا تھا ۔۔۔ جب میرے بچے میرے گرد چکر کاٹ کر کھیلتے تھے، پڑھتے تھے، ہنستے کودتے تھے مگر اب ہنستے چہروں کو دیکھے برسوں گزر گئے ہیں اب تو صرف رونے اور چیخوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔۔۔لہو لہان لاشیں دیکھائی دیتی ہیں۔۔۔ عرصہ ہوا یہاں خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔۔اب تو جو آخری آس اور امید تھی کہ کبھی مجھے امن کے رنگ دیکھنا نصیب ہوں گے وہ بھی ختم ہو گئی ہے۔۔ہاں اب تو باقاعدہ میرے گھر کے دو ٹکڑے کردیئے گئے ہیں ۔۔۔ ہاں کشمیریوں کو اتنے انتظار، اتنے صبر اور قربانیوں کے بعد بھی ۔۔۔آج آزادی نہیں ملی  بلکہ  بھارت نے اپنا قبضہ حتمی طور پر میرے لوگوں پر مسلط کر دیا ہے مگر  اب بھی  مجھے رب کریم سے امید ہے کہ میرا اللہ ان لوگوں کے لیے کوئی قاسم،کوئی طارق، کوئی ٹیپو سلطان۔۔۔بھیجے گا جو ان معصوموں کو اس بر بریت سے نکال دے گا برگد کا درخت آنسوؤں سے ہچکیاں لیتا ہوا اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا  اور میں خاموش کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔کہ شاید کوئی قاسم،کوئی طارق ،کوئی ٹیپو اس برگد کے درخت کی امید بن کر آجائےـ

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں