سانحہ تیزگام ہماری ملکی ریلوے تاریخ کا سب سے المناک واقعہ ہے۔ جس میں ہولناک آتشزدگی کے نتیجے میں 74 قیمتی جانوں کا ضیاع ہوااور 40 کے قریب فرادزخمی ہوئے ہیں۔اس حادثے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے، یہ حادثہ محکمہ ریلوے کی ناقص کارگردگی ، ریلوے اسٹیشنز پر سکیورٹی اور چیکنگ کے ناکافی انتظامات کی طرف اشارہ کرتاہے اور ریلوے میں بہتری اور گڈگورننس کے دعویداروں کے منہ پر ایک زور دارتماچہ ہے۔ پے درپے ریلوے حادثات جہاں انتظامیہ کے لیے سوچنے کا مقام ہے وہیں حکومت کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ تمام تر کوششوں اور دعوؤں کے باوجود بھی ریلوے میں ٹھیک ہوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ناقص انتظامات،بوسیدہ ٹریک ،سیکیورٹی اور چیکنگ کے ناکافی انتظامات آج بھی ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔ہماری بے حسی پر نوحہ کناں ہیں۔ایک سال میں ٹرینوں کے چھوٹے بڑے 100 حادثات ہوچکے ہیں۔جن میں 20سنگین جب کہ 61گاڑیاں پٹڑیوں سے اترنے واقعات ہوئے، 9 حادثات آگ لگنے کے ہیں۔ آگ لگنے کے 4 واقعات ڈائننگ کار کے ہیں۔مسافر اور مال ٹرینوں کے درمیان تصادم کاایک واقعہ ہوا،28مسافر اور 33مال گاڑیاں ڈی ریل ہوئیں۔مینڈ لیول کراسنگ پر مسافر ٹرین کے 3تصادم ہوئے ہیں۔ٹرینوں کو آگ لگنے کے کل 8واقعات ہوئے ، اِس کے علاوہ بھی دیگر چھوٹے بڑے حادثات رونما ہوتے رہے ہیں۔
سب سے سنگین حادثہ رحیم یار خان میں لیاقت آباد کے مقام پرٹانوری ریلوے اسٹیشن چک نمبر 6چنی گوٹھ کے قریب چلتی ٹرین تیز گام میں31 اکتوبر2019 بروزجمعرات کوبوقت صبح 6 بج کر32منٹ پرپیش آیاہے۔ایک عینی شاہدکے مطابق جب کانومی کلاس کی ایک بوگی میں ایک مسافر نے ناشتہ بنانے کے لیے سلنڈر جلایا تو آگ نے گدوں اور کمبل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،جس کے بعد آگ نے بزنس اور اکانومی کلاس کی مزید دو بوگیوں تک پھیل گئی،دھوئیں نے بوگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو کئی مسافروں نے جان بچانے کے لیے بوگیوں سے چھلانگ لگادی، جس سے متعدد مسافروں کی ٹانگیں اور بازو ٹوٹ گئے۔کئی بدقسمت بوگیوں میں ہی بے ہوش ہوگئے اور بے ہوشی میں ہی زندگی کی بازی ہار گئے۔اِس کے علاوہ ایک عینی شاہد کا کہناتھاکہ آگ پنکھے میں شارٹ سرکٹ کے باعث لگی، اے سی کے پنکھے سے بجلی کے تار جلنے کی بو آرہی تھی ،جسے نظراندازکرنا مہنگا پڑگیا۔بہرحال جیسے تیسے بھی، آگ سلنڈرچولہے کے دھما کے سے لگی ہو یا بجلی کے شارٹ سرکٹ سے ،ہماری نالائقیوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ شیخ رشید دورمیں ٹرین میں آگ لگنے کا یہ پہلا نہیں بلکہ نواں واقعہ ہے۔قوانین کی خلاف ورزیاں اور انتظامی کوتائیاں حادثے کی وجہ بنیں۔تیزگام حادثہ کی ابتدائی رپورٹ میں ریلوے حکام نے سارا قصور جاں بحق ہونے والے مسافروں پر ڈالنے کی تیاری کرلی ہے ۔اِس حادثے کے حوالے سے ایک نجی چینل نے انکشاف کیا ہے کہ’’ کراچی اور ملتان ریلوے ڈویژنوں کی پولیس اور شعبہ کمرشل اپنی ذمہ داریوں سے مجرمانہ غفلت کا مرتکب ہوا ہے۔کمرشل مینوئل رولز 1949ء کے آرٹیکل 4 کی شق 1کے مطابق مسافر ٹرین پر آتش گیر مادہ نہیں لے جاسکتا۔ریلوے پولیس ایکٹ کمرشل مینوئل کے رول 95 کے تحت ایسی کوشش کو روکنے کے ذمہ دار کنڈیکٹر گارڈ اور ریلوے سٹیشن کی حدود میں سٹیشن ماسٹر ہیں لیکن حیدر آباد کے سٹیشن ماسٹرکی زیر نگرانی ٹکٹ ایگزامینر اور پلیٹ فارم انسپکٹر اور نہ ہی پولیس نے آتش گیر مادہ چیک کیا۔ستمبر میں کراچی سے اکلوتے شخص امیر حسین کے نام پر پوری بوگیاں بک کرکے بھی غلطی کی۔ نواب شاہ اور ٹنڈوآدم سٹیشنوں پربھی بغیر چیکنگ تبلیغی جماعت کے ارکان ٹرین پر سوار ہوتے رہے،تیزگام کی نگرانی کے لیے2 انجن ڈرائیوروں کے علاوہ 6 پولیس اہلکار 3 گارڈ 2 سینئر ٹکٹ ایگزامینزز1الیکٹریشن اور2اے سی پاور پلانٹ آپریٹرزڈیوٹی دیتے ہیں۔
حادثہ سے قبل ملتان ڈویژن کی پولیس ٹیم رحیم یار خان جبکہ گارڈ اور سینئر ٹکٹ ایگزامینر کی ٹیمیں خان پورسے ٹرین میں سوار ہوئیں جو مٹی یا تیل کے تیل کے چولہے پرچائے بننے کو نہ روک سکیں۔عیدین پر خصوصی احکامات جاری ہوتے ہیں لیکن رائیونڈ اجتماع کے لیے ایسا کوئی سرکلر جاری نہیں کیا گیا۔بوگیوں کی بکنگ کے وقت بڑے ریلوے سٹیشن پرسٹیشن سپریٹنڈنٹ کے بجائے اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر محمد ارشاد کو انچارج لگایا گیا تھا۔ کراچی ڈویژن کے سپرنٹنڈنٹ ریلوے پولیس شاہد حسین کے ماتحت اہلکاروں نے نواب شاہ ،حیدر آباد اور ٹنڈوآدم کے سٹیشنوں پر تبلیغی اجتماع کے مسافروں کو چیک نہیں کیا۔وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشیداور 5 افسروں سے جونیئرنئے چیف ایگزیکٹو آفیسراعجاز بروڑوکی ایک اور لاپروائی یہ ہے کہ ملتان ڈویژن جہاں یہ آتشزدگی کا واقعہ پیش آیاوہاں ریلوے پولیس کی کمانڈ سپرنٹنڈنٹ کے بجائے ڈی ایس پی امجد منظور کررہے تھے جو ریلوے رولز کی خلاف ورزی ہے۔چیئرمین ریلوے سلطان سکندر نے اپنے مئوقف میں تصدیق کی ہے کہ آتشزدگی کا آغازمٹی کے تیل کے چولہے سے ہوااور اب تبلیغی جماعت کے مسافروں کو سلنڈر اور چولہے سمیت سوار نہیں ہونے دیا جائے گا۔انہوں نے کیا کہ کراچی ملتان ڈویژن کے سپرنٹنڈنٹس،چیف مکینیکل انجینئر،پولیس اہلکار اور شعبہ کمرشل کے سربراہ ،جوبھی قصوروار ہوا اُس کے خلاف کارروائی ہوگی۔وفاقی انسپکٹر برائے ریلوے دوست محمد لغاری کی حادثے بارے ابتدائی رپورٹ مل گئی ہے۔تفصیلی رپورٹ کے بعد فوری ایکشن ہوگاکیونکہ آتش گیر مادہ ٹرین کے اندر جانے سے روکنے میں ناکامی کے ذمہ دارریلوے حکام ہی ہیں۔