مولانا بڑے منجھے ہوئے اور زیرک سیاست دان ہیں، انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی پاور چاہے وہ ان ہاؤس ہو ،یا آوٹ ہاؤس ہو، اس کا بہت بڑا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ لوگ جو مولانا کو بارھویں کھلاڑی سے زیادہ کی حیثیت نہیں دینا چاہتےتھے، اب وہ اپنے ریٹائیرڈ کھلاڑی بھی مولانا کے مقابل اتارنے کا بندو بست کر بیٹھے ہیں، جس کا تماشا تمام تماشائی بڑی توجہ اور انہماک سے کر رہے ہیں ۔ تمام دنیا کی نظریں مولانا پر جمی ہوئی ہیں، میں پوری دنیا کے لفظ کا استعمال رسمی طور پر نہیں کر رہا ، بلکہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ کر رہا ہوں۔ ہر روز شام کے بعد سب کو مولانا کے بیان کا انتظار ہوتا ہے، کہاں وہ مولانا جس کی کسی بات کو کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی، اور کہاں آج کا دن کہ حکومتی کارندے بھی اپنی اگلی حکمت عملی طہ کرنے کے لئے مولانا کے خطاب کا انتظار کر رہے ہیں۔
آج کل جو اسلام آباد میں نظر آرہا ہے اس کا اشارہ مولا نا پہلے بھی کئی دفعہ دے چکے تھے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مولانا ایک استعفے کی خاطر ایسا کر رہے ہیں۔۔۔؟ جب ہم اس سوال کے جواب کی طرف جاتے ہیں تو مولانا کے ماضی کی سیاست ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مولانا جو کام آج کل خود کر رہے ہیں ، اس کے بڑے مخالف رہے ہیں، ان کا یہ بھی دعوی رہا کہ غیر جمہوری طریقے سے حکومت کو رخصت کرنا انہیں پسند نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے رہے کے دھرنے کی سیاست ایک منفی سیاست ہے۔ لیکن آج مولانا کو کیا ہو گیا۔۔۔ مولانا آج وہ سب باتیں اپنے لئے کیسے جائز سمجھ رہے ہیں جو کسی اور کے لئے ناجائز گردانتے ہیں۔۔۔
لیکن اگر کچھ اور غور اور توجہ کی جائے تو مولانا استعفے کی آڑ میں بہت کچھ ابھی تک حاصل کر چکے ہیں، اور جن مقاصد کا تذکرہ مولانا نے زبان سے نہیں کیا، اور نہ وہ کرنا چاہتے تھے، اس لئے کہ اگر مولانا ان مقاصد کا تذکرہ کرتے تو اپوزیش شروع ہی سے ان سے اپنی راہیں جدا کر لیتی، جس سے مولانا اپنے ہدف میں اگر ناکام نہ بھی ہوتے، تو شاید اس قدر کامیاب نہ ہو پاتے کہ جیسا کہ ہمیں دکھ رہا ہے کہ ہر پارٹی کے کارکن مولانا کے گن گا رہے ہیں۔ اسی لئے بھلاول صاحب بھی اپنے جیالوں اور ووٹروں کی توجہ مولانا سے ہٹانے کے لئے شہر شہر جلسے کر کہ اپنے ووٹ بینک کو متاثر ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف مسلم لیگ اگرچہ بظاہر یک جان ہے لیکن اسلام آباد آزادی مارچ میں ایک بڑی سیاسی شخصیت نے دبے لفظوں میں شاید اندرونی تاٹ پھوٹ کی طرف اشارہ کیا جن کے الفاظ کا مفہوم یہ تھا کہ ” ہمیں اس مسلم لیگ کی حمایت حاصل ہے جس کی قیادت نواز شریف اور مریم نواز کر رہی ہیں” ناجانے انہوں نے ایسا کیوں کہا لیکن شہبا ز شریف جو پنڈال میں اپنی حاضری بھی لگا چکے ہیں ان کا تذکرہ نہ کرنا کافی عجیب تھا۔
رہی بات مولانا کے بظاہر نظر آنے والے مقاصد کی تو وزیر اعظم کا استعفی ان کے جمیع مقاصد کی ایک شق ہے، نئے الیکشن بھی ایک شق ہے، مہنگائی بھی ایک شق ہے، بے روز گاری بھی الگ شق ہے، معیشت بھی الگ شق ہے، اداروں کی جانبداری بھی ایک شق ہے، کچھ اسلامی شقات بھی ہیں جن کو دیگر جماعتیں مذہبی کارڈ کا نام دیتی ہیں، لیکن جہاں تک مولانا کا تعلق ہے تو وہ ان باتوں سے پیچھے نہیں ہٹتے جو آئین کا حصہ ہیں۔
لیکن ان ظاہری مقاصد کے علاوہ کچھ پوشیدہ مقاصد بھی ہیں ، ان میں سے ایک تو یہ ہے جس کی حمایت متحدہ اپوزیشن سے بھی مولانا کو حاصل ہے، کہ اس مارچ سے عمران خان صاحب کو ان کے 2014 کے دھرنے کی سیاست کا سبق سکھانا ہے کہ دھرنوں کی سیاست درست نہیں ہوتی، جس میں وہ قریبا کامیاب ہو چکے ہیں، کیوں کہ آج جتنے لوگ ان کے ساتھ آئے ہیں اگر مولانا بھی ان کے ساتھ استعفی لینے میں ہر ہال میں ڈت جاتے ہیں تو شاید 126 دن کی ضرورت بھی محسو س نہیں ہوگی۔ لیکن مولانا کی سیاست سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ مولانا ایسا نہیں کریں گے، کیوں کہ مولانا کا مقصد دھرنے کی روایت کو تقویت دینا نہیں بلکہ اس کی جڑوں کو کاٹنا ہے۔ اور لوہا لوہے سی ہی کاٹا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ کچھ اور مقاصد بھی ہیں جن پر شاید اپوزیشن کی اکثریت مولانا کی حامی نہ بنتی اس لئے مولانا نے موقع سے خوب فائدہ اٹھایا، اور سوکھی کےساتھ تر کو بھی بھڑکا ڈالا۔ان ہی میں سے ایک مقصد مدارس کے متعلق بے بنیاد خبروں کا توڑ تھا، جس میں باطل قوتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس لئے کہ جب مولانا کا ساتھ اہل مدارس اور قریبا ہر طبقے کے لوگوں نے دیا اور ایک داڑھی پگڑی والے کی قیادت میں امن پسندی کی ایسی مثالیں قائم ہوئیں کہ سازشی عناصر اپنی ناکامی کے دھانے پہنچ گئے، اور آکسفورڈ کے نقش قدم پر چلنے والوں کی نام نہاد تہذیب پر ماتم کرنے لگے ۔ اہل مدارس کے پر امن ہونے کو ہر انسان نے صراحا اور پھرمولانا اس محاذ پر بھی کامیاب ہو تے نظر آئے۔
بقول مولانا کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اور مولانا نے اپنے ساتھ تمام بڑی جماعتوں کو ملا کر اس بات کا واضح پیغام دے دیا کہ ایسی کسی بھی سازش کو کسی صورت کامیابی میسر نہ ہوگی۔ اور مولانا اس میں بھی کامیاب نظر آئے۔
ایک تاثر یہ تھا کہ اسلام اور سیاست الگ الگ ہیں،جیسا کہ ہماری ایک موجودہ خاتون وزیر کے یہ الفاظ ہیں کہ کہاں سیاست کہاں اسلام۔ اس تاثر کو مولانا نے مکمل مسترد کیا اور اس بات کو واضح کیا جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ اور اس مارچ سے دنیا کو یہ پیغام ملا کہ کہ پاکستان کے اندر آج بھی ایک ایسی مذہبی سیاسی جماعت موجود ہے جس کی راہنمائی میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں بر سر میدان ہیں۔
اور اگر آخر میں میں یہ کہوں کہ مولانا اس قسم کے موقع کی تلاش میں کئی برسوں سے تھے تو یہ شاید غلط نہ ہوگا، لیکن مولانا کو کبھی ماضی میں ایسا موقع نہیں ملا جب پوری اپوزیشن اپنی قیادت سے محروم ہو ، اور مولانا کا سہارا ان کی بحالی میں مدد گار ہو۔ اگرچہ اس مارچ کے کچھ فوائد دیگر پارٹیوں کو بھی حاصل ہوں گے ، لیکن اس تمام صورت حال میں مولانا نے جو ہدف متعین کر رکھا تھا مولانا کا نشانہ اس سے خطا نہیں ہوا۔