ڈسپلن (نظم و ضبط )مثبت طرز زندگی کی کلید

پہلی قسط

                زندگی میں ڈسپلن( نظم و ضبط) کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔بغیر ڈسپلن اچھے معاشرے کا تصور ہی محال ہے۔دنیا کی ہر شے ،ہر ذرہ ایک قدرتی نظام سے بندھا ہوا ہے۔ کائنات میں قدرت کی نشانیاں ہر جا بکھری پڑی ہیں اور ان میں پایا جانے والا نظم وضبط ( ڈسپلن )د یکھ کر عقل عش عش کر نے لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں دن کام اور راتیں آرام کے لیے بنائی ہیں ،  وہیں روزوشب گزارنے کے لیے الگ الگ اسباب بھی مہیا کیے ہیں۔ دن کو روشن کرنے کے لیے سورج ، اور رات کو پْرسکون بنانے کے لیے چاند تارے پیدا کیے ہیں۔ سورج ہر روز اپنے مقررہ وقت پر مشرق سے طلوع ہوکر مغرب میں غروب ہوتا ہے۔  چاند اور تارے بھی اپنے معمول کے مطابق محوِ گردش ہیں۔  پہاڑ زمین کو اپنی جگہ پر قائم رکھنے کے لیے ایک خاص اندازاور ہیبت سے کھڑے ہیں۔ ندی، نالے، دریا اور نہریں فطرت کے طے کردہ معمول کے مطابق بہہ  رہے ہیں۔  پہاڑ، ندی نالے بننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ندی نالے ،پہاڑوں کی جگہ لینے کی جسارت۔ سورج کبھی رات کو نکلا ہے اور نہ کبھی چاند نے سورج کی جگہ لی ہے۔ یہ نظم و ضبط صرف ماحول میں ہی نہیں بلکہ عالم حیوانات چرندو پرند اور کائنات کے ہر ذرے میں نظرآتا ہے۔ بعض جانور موسمی تبدیلی کے لحاظ سے رہائش کے لیے نقل مقام کرتے ہیں اور دوسرے جنگل کا رخ کرتے ہیں ، پرندے موسم کے اعتبار سے اپنے مقام کو تبدیل کرتے ہیں ، یہاں تک کہ چیونٹیاں موسم گرما میں ،  موسم سرما کے لیے ذخیرہ اندوزی کرتی ہیں۔ان فطری مظاہر میں پایا جانے والا نظم وضبط اور ڈسپلن انسان کو احسن طریقے سے زندگی بسر کرنے کے لیے نظم وضبط کی دعوت دیتا ہے۔

                نظم و ضبط انسان کی زندگی کو منظم، پْرسکون،  کامیاب بنانے اور مطلوبہ نتائج کے حصول میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔  ڈسپلن پر کاربند رہنے سے آدمی میں مفید اور کارآمد عادتیں ازخود فروغ پانے لگتی ہیں جس کی وجہ سے ہر مشکل کام آسان اور سہل ہوجاتا ہے۔زندگی میں اکثر پریشانیاں،مشکلات،محرومیاں، ناکامیاں اور نامرادیاں نظم وضبط کے فقدان کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ڈسپلن کو انسانی طرز زندگی میں مثبت تبدیلیاں پیدا کرنے والی ایک کرشماتی پِل (گولی)  کہا گیا ہے ، جو وقت اور سرمائے کو ضائع ہونے سے بچاتی ہے۔کامیاب انسان اہمیت کے حامل کام پہلے انجام دیتا ہے، ہر ایک کام کی انجام دہی کے لیے وقت اور زمانے کا تعین کرتاہے ، تاکہ وقت پر وہ اپنے تمام امور انجام دے سکے۔نظم و ضبط کے ذریعے وہ کام اور زندگی میں انتشار سے بچ کر اپنے وقت سے بہترین فائدہ حاصل کرتا ہے۔ اپنے روز و شب کے انفرادی و اجتماعی افعال کی انجام دہی میں  نظم و ضبط اور منصوبہ بندی کو پیش نظر رکھنے والا شخص ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔’ایک وقت میں ایک کام‘  یہی وہ سنہرا اصول ہے جو آدمی کی زندگی کو سادہ ، آرام دہ اور اس کی سرگرمیوں کو نتیجہ خیز بناتا ہے‘‘۔امریکی شخصیت ساز اور موٹیویشنل سپیکر برائن ٹریسی ایک وقت میں ایک کام کے حوالے سے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’مسائل حل کرنے کے اکیس (21 ) اصول‘‘ میں لکھتا ہے ، ’ ’ہدف سے آغازکریں اوراس کی انجام دہی کا خود کو پابند کر لیں۔ مصمم ارادہ اور پوری قوت و سوفیصد توجہ سے کام کو انجام دیں ، اس لیے کہ  یہ ہدف آپ کے لیے دوسرے کاموں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر آپ کی توجہ ہٹ جاتی ہے تو اس کام کی طرف جتنی جلد ممکن ہو لوٹ آئیں۔  اپنی فہرست میں موجود تمام کام مکمل یکسوئی کے ساتھ انجام دیں۔

                زندگی میں نظم وضبط ،  زندگی سے بھی زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔یہ زندگی کو حسن وکمال عطاکرتا ہے۔معاشرے میں ایک معیاری ،عمدہ زندگی گزارنے کے لیے حسن سلوک، عمدہ پسندیدہ عادتیں اور مثبت نظریہ زندگی کاپایا جانا بے حد ضروری ہے۔سازگار اکتسابی ماحول ہر طالب علم کو اچھے اعمال وعادات اپنانے کی تلقین کے ساتھ ساتھ بری و رذیلہ عادات سے انھیں محفوظ رکھنے ، ان پر ہردم اپنی رہبری ا و رہنمائی کے دروازے کھلے رکھتا ہے۔بچوں میں پسندیدہ عادات اور بہتر اخلاق کے فروغ کے لیے گھروں  میں مثالی ماحول کا فقدان پایا جاتا ہے ، یا پھر اچھی عادات کو پروان چڑھانے والے وسائل کی قلت دیکھی گئی ہے۔ بچوں میں عمدہ اکتسابی رویے و عادتیں وہبی نہیں بلکہ کسبی ہوتی ہیں۔ بچوں کو ان کی غلطیوں پر تنبیہہ نہ کرنے سے ان کے قدم درست راستوں سے بھٹک جاتے  ہیں۔بچوں کو جب احسن طریقے سے ان کی غلطیوں پر متنبہ کیا جاتا ہے تب نہ صرف ان کی غلطیوں کی اصلاح  ودرستگی ہوجاتی ہے ، بلکہ ان میں مثبت اکتسابی صلاحیتیں اور قابل تحسین انداز میں زندگی بسرکرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔

                بچے دانش مندی سے جب اپنے رویوں پر قابو پانا سیکھ جاتے ہیں توازخود ان کی زندگی میں نظم و ضبط (ڈسپلن) پیدا ہونے لگتا ہے ، اور وہ عمدہ رویوں اور اعلیٰ برتاؤ کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ مارک ٹوائن کے مطابق ’’اچھا ئی خوبی ہے اور اچھائی کا درس خوب تر ہے ،  جب کہ دوسروں کو اچھا بنانا خوب ترین ہے۔‘‘(To be good is noble, but to teach others good is nobler and to make others good is noblest- Mark Twain)اساتذہ اچھے ہوتے ہیں، اچھائی کا درس دیتے ہیں ،  لوگوں کو بہتر و خوب تر بناتے ہیں ،  اور یہ ہی وصف درس و تدریس کی معراج ہے۔‘‘مثالی اساتذہ  نہ صرف بچوں کے جذباتی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں ،  بلکہ ان کی عزت نفس ،تشخص ( شبیہ )کو بھی بہتر بناتے ہیں ۔ ان میں عمدہ رویوں اور اعلیٰ کردار کو پروان چڑھاتے ہیں۔تعلیم کا اساسی مقصدوسائل کا بہتر استعمال،طلبہ کی صلاحیتوں کا فروغ ، عمدہ رویوں کی تشکیل و نمو ،  ایک کارآمد ،قابل قدرا ور پروقار شخصیت کی تعمیر ہوتاہے۔ نظم وضبط پیدا کرتے ہوئے طلبہ کو بتدریج زندگی کو بہتر بنانے والی راہوں پر گامزن کرنا چاہئے۔اساتذہ اور والدین اس امر کی انجام دہی میں غایت درجہ احتیاط سے کام لیں۔ اچھائی ا ور بھلائی کی طرف بلانے والی آواز بھی بھلی اور مانوس ہونی چاہئے ۔اساتذہ اور والدین کی جانب سے ڈسپلن کے لیے برتی جانے والی بے جا سختیوں کے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں جس سے اجتناب ضروری ہے۔سختی بھی محبت شفقت اور لگاؤ کی ردا میں لپٹی ہونی چاہئے۔ عمدہ عادات و اطوار اور نظم و ضبط کا حصول و فروغ جو طلبہ کی اخلاقی نشوونما کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں ،  دراصل اساتذہ کے تعاون کے متقاضی ہوتے ہیں۔

                اسکولس میں تمام تعلیمی پروگرامس کے کامیاب نفاذ کے لیے جو اولین شرط ہوتی ہے وہ ڈسپلن(نظم و ضبط ) ہے ، جسے ہموار و مستحکم کیے بغیر کسی بھی تعلیمی پروگرام پر کامیاب عمل آوری مشکل ہی نہیں ،  بلکہ ناممکن ہے۔اساتذہ کی جانب سے کمرہ جماعت میں اختیارکردہ تدریسی و غیر تدریسی حکمت عملیاں، کمرہ جماعت کا انتظام و انصرام وغیرہ نظم و ضبط کی برقراری و استحکام میں موثر کردار ادا کرتی ہیں۔اگر اساتذہ حقیقت میں طلبہ میں اعلیٰ معیار کا نظم و ضبط (ڈسپلن) پیدا کرنے کی متمنی و لائق ہوں تب طلبہ میں بھی اس کی شدید خواہش ابھرے گی ، کہ وہ اپنے طرز عمل کو بہتر و پسندیدہ بناتے ہوئے نظم و ضبط کے اعلیٰ اقدار و اصول پر عمل درآمد کریں۔  پابند ڈسپلن اور اصول پسند اساتذہ طلبہ کے لیے نمونہ ہوتے ہیں ،  جو انھیں اچھے برتاؤ اور عمدہ اخلاق و عادات کی جانب مائل و راغب کرتے ہیں۔  بچوں میں اساتذہ کا اسوہ  و  کردار نقش ہوجاتا ہے ،  جس پر عمل کرنا ان کے لیے نہ صرف آسان ہوجاتا ہے بلکہ وہ اس کردار و برتاؤ کو تمام زندگی اپنی جان سے زیادہ عزیز تصور کرنے لگتے ہیں۔  جب طلبہ نظم و ضبط کے بارے میں درست رویہ اختیار کرنے کے اہل ہوجاتے ہیں اور اسے مثبت زندگی بسر کرنے کا ایک لازمی جزو سمجھنے لگتے ہیں تو مطلوبہ مقاصد و اہداف کے حصول میں ڈسپلن ان کا معین و مددگار بن جاتا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ اکثر اساتذہ نظم و ضبط جیسے سنجیدہ مسئلے کو صرف اسی وقت سنجیدگی سے لیتے ہیں جب یہ طلبہ کی پڑھائی یا تعلیم میں مداخلت کرتا ہے ،  یا پھر رکاوٹ پیدا کرنے لگتا ہے۔

                مدارس میں اساتذہ اپنے تمام افعال و فرائض کی انجام دہی میں غایت درجہ احتیاط سے کام لیں ،  کیوں کہ غلط حکمت عملیوں اور نارواں برتاؤ سے طلبہ میں نظم و ضبط کے بحران کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔تما م مسائل و پریشانیوں کے سدباب و تدارک میں ـ ’’احتیاط علاج سے بہتر ہے‘ والی تدبیر پر عمل پیرائی اور دانشمندی سے وضع کردہ اسکولی  ضابطہء اخلاق و نظم و ضبط  پرعمل آوری سے متعددمسائل و پریشانیوں سے باآسانی بچا جاسکتا ہے۔بیتھ رایکر (Beth Racker) کے مطابقـ’’ یہ بات ذہن نشین رہے کہ سب سے زیادہ  ناپسند  بچے کو ہی پسند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘(Keep in mind that the  most unlikable child is the one who most needs to be liked)  اس قول کی روشنی میں بہت ضروری ہے کہ بچے کو پسند نہ کرتے ہوئے ، اسے نفرت کیے بغیر ، اس کے تمام نارواں اور غیر مناسب برتاؤ پر اساتذہ اصلاح کی نیت سے خاص توجہ دیں۔

 

          کردار سازی؛-

 

                تھوروروزویلٹ نے کہا تھا ’’ آدمی کو اخلاق سے آراستہ کیے بغیر تعلیم سے آراستہ کرنا معاشرے کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ ‘‘ (“To educate a man in mind and not in morals is to educate a menace to society”) مثالی استاد طلبہ کے ذہنوں کی بند تجوریوں کو کھولتا ہے اور اچھے رویے سے اپنے طلبہ کی کردار سازی کرتا ہے۔اساتذہ کا طلبہ کے ساتھ اچھا برتاؤ  اور خندہ  پیشانی سے پیش آنا ان کے پیشے کی تقدیس کو چار چاند لگاتا ہے ،اور انھیں دیگر افراد سے ممتاز کرتا ہے۔ طلبہ کی مربوط ،مکمل ، قابل قبول شخصیت کی تشکیل اور تیاری کو یقینی بنانے کے لیے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو خصوصی دلچسپی اور سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کی متوازن و مہذب شخصیت کی تیاری تعلیمی وتدریسی معیار، مختلف و متنوع حالات میں اختیارکردہ طریقے ہائے تدریس اساتذہ کی مسلسل رہبری ،رہنمائی اور شفقت کا نتیجہ ہوتی ہے۔اچھی تعلیم کے ساتھ عمدہ اخلاق و کردار سازی کے نتیجے میں طلبہ ترقی کی جانب بغیر کسی دشواری کے محو سفر رہتے ہیں اور سماج کا قابل قدر و قیمتی اثاثہ بن جاتے ہیں۔ طلبہ کی ہمہ جہت نشوونما کی متمنی اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ ،  وہ سنجیدگی سے طلبہ میں عمدہ اخلاق ، کردار اور پسندیدہ عادات و اطوار کی تشکیل اور نشوونما کا جویا پیدا کریں۔ کسی بھی فرد کی پہچان وشناخت میں عمدہ کردار (اچھے عادات و اطوار ،  جو اساسی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں) کی تعمیر صلاح افکار اور عمدہ برتاؤ پر منحصر ہوتی ہے۔روزمرہ درپیش مسائل ( چیلنجس)  سے نبردآزمائی میں پیش رفت کے لیے انسان میں جرات، ہمت، دیانت ، وفاداری، امید، احترام، انصاف پروری اور محبت جیسے قابل قدر اقدار کو جاگزیں کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے ۔انسان کے ذہن و دل میں احساس ذمہ داری اور دوسروں کے لیے اکرام ،احترام ا ورمودت کا جذبہ جب موجزن ہوتا ہے تو بین الشخصی تعلقات کی مضبوط بنیادیں استوارہونے لگتی ہیں ۔ بین الشخصی تعلقات سماجی مہارتوں کے فروغ میں بے حد معاون ہوتے ہیں۔آدمی احساس ذمہ داری سے لیس ہو کر جب اپنے کردار کو بہتر بنانے لگتا ہے تو اس کے اندر وقت ، حالات اور معاشرے سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت ازخود جنم لینے لگتی ہے۔

                اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے علم اور عقل کی وجہ سے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا۔ انسان اگر اپنے علم اور عقل کا صحیح استعمال کرلے تو وہ بہت اونچائی تک جا سکتا ہے۔کسی بھی کامیابی اور بلندمقام کا حصول نظم و ضبط کے بغیر ناممکن ہے ۔کامیابی کے لیے نظم و ضبط ضروری ہے۔آدمی نظم و ضبط کے ذریعے اپنی زندگی کی بہت ساری پریشانیوں کو کم کرسکتا ہے۔جس آدمی کی زندگی میں نظم و ضبط نہ ہو معاشرہ اسے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔ ’نظم وضبط‘‘ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ زندگی میں ہر جگہ اس کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔نظم و ضبط کا جہاں فقدان پایا جائے ، وہاں افراتفری اور تکلیف دہ نتائج نمودار ہوتے ہیں۔دنیا کے تمام کام کسی نہ کسی ضابطے اور قاعدے کے تحت انجام پا رہے ہیں۔  زمین کی گردش، دن اور رات کا وجود، سورج کا طلوع و غروب ہونا، سورج کی تپش، چاند و ستاروں کی چمک ،لیل و نہار کا بڑھنا اور گھٹنا، موسموں کا تغیر ، یہ سب ایک مقررہ اصول اور نظم و ضبط کے تحت کام انجام دے رہے ہیں ،  حتیٰ کہ انسان کے اعضا وجوارح بھی اپنا کام ایک مخصوص ضابطے کے تحت انجام دے رہے ہیں۔ان شواہد سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ نظم و ضبط ایک ایسا کلیہ ہے جس سے دنیا کی کوئی چیز باہر نہیں ہے۔انسان کو اپنی بقاء اور ارتقاء کے لیے قدرت کے مقررکردہ نظم و ضبط کی پابندی کرنا لازمی ہے۔انسان کی فکری تنظیم میں انفرادی اور اجتماعی رویوں کا اہم کردار ہوتاہے۔ آدمی جب اپنی زندگی کے افعال و کردار منظم کرتا ہے تو اس کی فکر بھی منظم ہوجاتی ہے اور جب فکر میں تنظیم اور نظم و ضبط پیدا ہوجاتا ہے تو انسان خدا کے فکری نظام کا حامل ہوجاتا ہے۔ انسان کا ہر فعل معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انسان کے ہر انفرادی ،  اچھے اوربرے ،  ہر دو افعال کے اثرات دوسروں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔اجتماعی نظم و ضبط کا آغاز انفرادی نظم و ضبط سے ہوتا ہے۔ ہر فرد پر چند انفرادی اور اجتماعی معاشرتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ،  جس کی تکمیل کے بغیر صالح معاشرے کا وجود محال ہے۔جس قوم میں نظم و ضبط کا فقدان ہوتا ہے وہ صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہوجاتی ہے۔ روئے زمین پر مسلمانوں کا عروج اپنے نظم و ضبط ،اتحاد اور تنظیم کی اعلیٰ مثال تھا۔  اپنے نظم و ضبط، ایقان و اتحاد کے باعث مسلمانوں کی قلیل تعداد نے بڑی سے بڑی سلطنت کو زیر کردیا تھا۔ معاشرے کے استحکام، قوموں کی آزادی کی برقراری اور حکومتوں کی ترقی کے لیے نظم و ضبط کی اشد ضرورت ہوتی ہے ،  جہاں ان عناصر کا فقدان ہو اور  بے ضابطگیاں در آجائے ،  وہاں ذلت، غلامی اور زوال قوموں کا مقدر بن جاتا ہے۔ وہی آدمی منظم ہے جو اپنے تمام کام نظم و ضبط کے تحت انجام دیتا ہے اور دوسروں کے وقت کا احترام کرتاہے۔ اپنے افکار و افعال میں نظم و ضبط پیدا کرتے ہوئے آدمی نہ صرف اپنی زندگی میں خوشحالی کو مدعو کرتا ہے بلکہ معاشرے کو اپنے نظم و ضبط کے ذریعے تنظیم و ترتیب کی جانب مائل و راغب کرتا ہے ۔

                نظم و ضبط کے متعدد معنی اور تعریفیں بیان کی گئی ہیں۔بامقصد سرگرمیوں میں ایک تناسب سے ترجیحات کی بنیاد پر لائحہ عمل کے تعین کو نظم و ضبط کہتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر نظم و ضبط تدبیر اور کام کی تقسیم اور مستقبل میں اسے انجام دینے کے فیصلے سے عبارت ہے۔’’ کام کی انجام دہی سے قبل تدبیر اور منصوبہ بندی آدمی کو پشیمانی سے محفوظ رکھتی ہے۔‘‘کردار کو ابتدائے آفرینش سے آدمی کے برتاؤ پر قابوپانے والی ایک طاقت ور عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے جو کسی کے طرز عمل اور صحیح طرز عمل کوسمجھنے ، مطلوبہ عادات و برتاؤ کی تشکیل اور زندگی کی کارکردگی میں توازن و حسن پیدا کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ درس و تدریس کے دوران ماہر اساتذہ عمدہ برتاؤ و کردار کی اہمیت،  وضاحت اور اسے مثبت طرز زندگی سے مربوط کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ عمدہ برتاؤ،پسندیدہ رویوں ، بہترین کردار کو طلبہ کی زندگیوں کا جزو لاینفک بنانے کے لیے اسکول تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی خاص اہتمام کریں اور کردار ورویوں کی تشکیل و فروغ میں اساسی نکات پر خصوصی توجہ مرکوز کریں۔ اچھے اساتذہ کے ذریعہ روبہ عمل لائے جانے والے بہتر پروگرامس جو بچوں میں عمدہ کردار کی قدرو قیمت کو اجاگر کرتے ہیں دراصل طلبہ میں خود انضباط(Self Control)کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں۔اساتذہ مدارس میں ایسے پروگرامس کا آغاز کریں ،   جوانفرادی شخصیت کی نشوونما، اعتماد، تحفظ اور احترام کے احساس کو جاگزیں میں معاون ہوں ،  تاکہ طلبہ کی ایک ہمہ جہت شخصیت ابھر اور نکھر سامنے آئے۔ طلبہ کی شخصیت وکردار کو موثر و بہتر بنانے کے لیے ان کے اند پائے جانے والے  جذبہ خیرخواہی و نیک نیتی کی مناسب حوصلہ افزائی اورمسلسل رہبری ورہنمائی انجام دی جائے۔  (جاری ہے)

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں