کئی دنوں سے کوشش کر رہی تھی کہ کوئی نیا کالم لکھا جائے مگر چراغوں میں روشنی نہ تھی۔ کہاں سے شروع کیا جائے، ملکی حالات پر نظر دوڑائیں تو جی چاہتا ہے کہ کان میں انگلیاں دے کر کسی کمرے میں خود کو بند کر دیا جائے جہاں تک کوئی آواز نہ پہنچ سکے ۔ کاش قدرت کا کوئی ایسا نظام ہوتا ہے کہ کچھ دیر کےلیے مر سکتے پھر واپس آ جاتے خیر اوپر والے نے تو نیند اسی غرض سے عنایت کی ہے مگر پھر آگے ہمارے اپنے کرتوت ہیں جنکی بدولت ہمیں وہ بھی دوائیوں کے بغیر نہیں آتی ۔ مگر حالات جو مرضی ہو جائیں، جینے کی آرزو نہیں چھوٹنی چاہیے۔
ابھی ٹی وی کھولا نہیں یا کسی سے ملکی حالات پر بات شروع کی نہیں کہ بلڈ پریشر آسمانوں کو چھونے لگتا ہے ۔ آج کل جس طرح کے ملک کے حالات ہیں اور پھر جس طرح میڈیا پر دکھائے اور بتائے جاتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے اب سب کچھ ہی ختم ہو جائے گا اور کچھ بھی صحیح اس ملک میں ہو ہی نہیں رہا۔ ہر طرف مہنگائی بےایمانی اور ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو گرانے اور خود آگے نکلنے کی دوڑ میں ہے۔سیاست کی تو بات ہی مت کیجئے،سیاست دان کرسی کےلیے ملک تک بیچنے کو تیار ہیں ۔ جب کبھی ملک میں تھوڑا سا امن آنے لگتا ہے ان سیاستدانوں کو شرارتیں سوجھنے لگ جاتی ہیں ۔ ان کا بس چلے تو بس عوام کو اسی طرف الجھائے رکھیں۔ اداروں میں اب ٹک ٹاک بنائیں آپ، کام کس نے کرنا ہے اور ملک جائے بھاڑ میں۔ بات چیت سے کرسی نہیں ملی تو کیا ہوا دھرنے کا سہارا لے لو۔ ریٹنگ نہیں آ رہی تو مسئلہ کیا ہے زندوں کو مارنا شروع کر دو اور مرے ہوؤں کو زندہ کر دو۔ عوام کو بیوقوف بنانا ہے تو مذہب یا کسی اور تفریق کو بیچ میں لے آؤ ۔ پیسے کمانے ہیں تو دو نمبری شروع کر دو ۔ کراچی صاف نہیں ہو رہا ہے تو پریشان نہیں ہونا ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دو ۔ چور نہیں مل رہے تو کیا ہو گیا شکایت کرنے والے کو ہی پکڑ لیجیے ۔
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
انجام گلستان کیا ہوگا
19 جنوری 2019 کو ساہیوال میں ایک خاندان عوام کے رکھوالوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن جاتا ہے ۔ عوام اور میڈیا کے پریشر پر چند افراد کو حراست میں لے لیا جاتا ہے پھر تین دن پہلے انہیں شک کا فائدہ دے کر عدالت بری کر دیتی ہے ۔
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
انتہائی افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے یہ پولیس جسے ہم نے اپنا نگہبان بنایا ہے مگر ہر شریف آدمی کی دعا ہے کہ خدا نہ کرے کبھی اسے پولیس کے قریب سے بھی گزرنا پڑے اور پولیس سٹیشن وہاں تو اللہ کبھی کسی دشمن کو بھی نہ لے کر جائے، اتنی دہشت ہے عوام کے دلوں میں اپنے محافظوں کےلیے۔
جان کی اب کوئی مانگ نہیں
ہتھیلی پہ رکھ کہ چلتا ہوں
کیا خبر کب چھین لی جائے
اسی ڈر سے روز مرتا ہوں
موت مجھ کو کیا ڈرائے گی
میں تو جینے سے ڈرتا ہوں
جب مخافط ہی ٹھہرا قاتل
تو رہزنوں سے کہاں ڈرتا ہوں
آس
نجانے یہ انصاف کیسا ہے جس کی پکار صرف حکمرانوں کےلیے سنائی دیتی ہے۔ نواز شریف بیمار ہوئے ہیں تو سارا میڈیا ساری حکومت حرکت میں آ گئی ہے ۔ دو دن سے ٹی وی پر اور کوئی بات ہی نہیں ہو رہی سوائے انکی بیماری کے ۔ مگر ہماری جیلوں میں روز نجانے کتنے شریف کبھی بیماری سے تو کبھی تشدد سے مرتے ہیں جن کی تعداد بھی معلوم نہیں اور نہ کسی کو ان کی خبر ہے۔ غریب دن میں کئی کئی بار مرتا ہے کبھی دیہاڑی نہ ملنے پر تو کبھی بچوں کی فیس جمع نہ ہونے پر تو کبھی بیوی کی دوائی نہ لانے پر،کبھی بھوکے پیٹ تو کبھی ننگے پیر مگر کسی کو کان و کان خبر نہیں ہوتی اور امیر کا کتا بھی بیمار پڑ جائے تو سارا ملک سوگوار ہو جاتا ہے ۔ عمران خان آپ کیا کر رہے ہیں آپ نے 9 ماہ کا کہا تھا اب تو 1 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے مگر ابھی1 فیصد بہتری بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہی، چیزیں مزید خرابی کی طرف چلی گئی ہیں اور آپ کی ٹیم ہر الزام پرانی حکومتوں پر لگا دیتی ہے ۔ ٹھیک ہے کہ پرانی حکومتوں کی خرابیاں ہیں مگر آپ کی ٹیم بھی تو کچھ کرے الزامات کے علاوہ ۔ کیا پانچ سال آپ یونہی ٹیم بدلتے ہی گزار دیں گے، کیا یہ کوئی مذاق ہے ۔ ملک اس وقت سیاسی اکھاڑا بنا ہوا ہے جہاں ہر جماعت اپنے فائدے کا دنگل لڑ رہی ہے اور چاہے اس میں عوام کا کوئی پرسان حال نہ رہے ۔ مولانا فضل الرحمن آج کل ایک نئے پراپگنڈہ پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد اپنے لیے کرسی یا اقتدار کے سوا کچھ نہیں اور اس مقصد کیلئے استعمال کرنا ہے عوام کو چاہے پھر کشمیر کا سہارا لینا پڑے یا پھر اسلام کا۔ پتا نہیں یہ لوگ جو ان کو سپورٹ کرنے کےلیے دیوانہ وار سڑکوں پر نکل پڑتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جس عوام کا نام یہ استعمال کررہے ہیں وہی عوام تو اس سے تباہ ہوتی ہے ۔ اللہ ہی ہمیں ہدایت دے تاکہ کچھ بہتری ممکن ہو سکے مگر اللہ بھی اسے ہدایت دیتا ہے جو طلبگار ہوتا ہے۔ پاکستان میں تب تک کچھ نہیں بدل سکتا جب تک زنگ آلود سوچ نہیں بدلے گی ۔۔۔
اور سچائی اتنی کڑوی اور تلخ ہے کہ اگر کانوں میں سیسہ پگھلا کر بھی ڈالا جائے تب بھی اسکی کڑواہٹ میں ذرا کمی نہیں آئے گی ۔۔ مگر یہ سوچ کسی اور نے نہیں باہر سے آ کر بدلنی ہم نے خود بدلنی ہے ۔ جب تک ہم خود اپنے اپنے گریبانوں میں دیکھ کر اپنا احتساب نہیں کریں گے تبدیلی ممکن نہیں اور بہتری بھی تبھی ممکن ہے ۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے ہم سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے ۔