دنیا میں جتنے بھی حادثات ہوتے ہیں ،ہوائی ہوں ،زمینی ہوں یا بحری ، سب سے المناک اور شدید ترین ریل گاڑی کا حادثہ ہے۔اس لیے کہ جدید دنیا نے ہر سفر کے لیے ایمر جنسی اخراج اور مسافروں کی جان بچانے کے طریقے نکال لیے ہیں،ریل کے رستوں کو تیز ترین اور محفوط بنا لیا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں حادثہ ہونے کے بعد اس کی وجوہات پر جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں، ذمہ داران کا تعین مشکل ہو جاتا ہے اور آخر میں چند لاکھ روپے کا اعلان کرکے دامن جھاڑ لیاجاتا ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریل کے حادثے میں کتنے گھر وں کا اکیلا کماؤ پتر چلا گیا، جو اپنی فیملی کا واحد سہارا تھا،کیا ریاست اس قابل ہے کہ وہ تادم حیات اس کی بیوہ کو وظیفہ جاری کرے ، اس کے بچوں کی اعلی اسٹنڈرڈ تعلیم کا خرچ اٹھائے اور جانے والے کا خلا پر کرے۔ہم ہر سال ریل حادثوں میں قیمتی انسانی جانوں کا نقصان تو اٹھالیتے ہیں ،لیکن ریل میں موجود ایک ایمرجنسی چین ٹھیک نہیں کرا سکتے۔
ریل گاڑی ہزاروں لاکھوں مسافروں کی آمد رفت کا ذریعہ ہے،اس میں سفر کرنے والے وہ عوام ہوتے ہیں جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ایسے لوگ جو پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا مہنگا کرایہ نہیں دے سکتے، ریل کا سفر ایک تو آرام دہ ہوتا ہے ،دوسرا آسان ہوتا ہے۔ ریل گاڑی ہمارا قومی ادارہ ہے۔بچپن میں ریل کہانیاں اور درسی کتب میں ریل کی تصویر بھلی لگتی تھی،ہمیں یاد ہے (جہاں ابھی ریل کا حادثہ ہوا ) ہماری خالہ کا گھر پٹڑی سے اس طرف تھا اور ہم لیاقت پور اسٹیشن پر گھنٹوں ریل کے آنے کا انتظار کرتے،دور سے ریل آتی دکھائی دیتی تو پٹڑی پر کان رکھ کر سنسناہٹ سنتے جو کانوں میں رس گھول دیتی، ریل ہمارا فخر ہوتی تھی،ریل کا پہلا سفر سب کو یاد ہوگا ،پھر ہم نے ہر ادارے کی طرح ریل میں بھی تبدیلی کے خواب سجا لیے۔ہمیں کیا پتا تھا کہ ’’ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ اور‘‘یہ تو ہمیں بہت بعد میں سمجھ آیاکہ ریل کا ایک بڑا ہوتا ہے جس کو وزیر کہا جاتا ہے ،وہ کلی اختیارات کا مالک ہوتا ہے، اس پہلے ہم سمجھتے تھے کہ ریل ہی سب کچھ ہے اور اس کی لگام آگے بیٹھے پچاس سالہ کچوان کے ہاتھ میں ہے۔وہ چاہے تو روک دے چاہے تو دوڑا دے۔ نادان اب سمجھے کہ قومی اداروں میں سے ایک ،ریل میں تبدیلی کا آکسیجن پہنچا نہیں، رہا سہا آکسیجن بھی نکال دیا گیا۔
دوسری وزارتوں کی طرح وزیر ریلوے بھی ریل گاڑی میں کوئی تیر نہ مار سکے، ریل گاڑی کے انڈوں سے بچے کیا نکلتے ،انڈے گل سڑ گئے۔کیوں کہ وزیر موصوف کو لسانی طاقت کے زور پر حکومت بچاؤ محاذ پر بٹھا دیا گیا اور ریل گاڑی کو پچاس سالہ کچوان کے حوالے کر دیا گیا کہ میاں جیسے چاہو چلاؤ، مسافر کچھ بھی لے کر آئیں نہ روکو، ریلوے پولیس کا کام چلتے پھرتے رہنا یا ایکس نشان والے ڈبے میں بیٹھ کرکھیت کھلیان دیکھنا ہے۔وزیر ریلوے صاحب میڈیا پر صرف ’’سیاسی زائچے‘‘بنائیں گے اور وقت پڑنے پر سیاسی مخالفین کو ٹف ٹائم دیتے ہوئے ’’ لسانی گولہ باری ‘‘کریں گے۔پاکستان ریلوے کیوں کہ ایک قومی ادارہ ہے اور 75 ہزار خاندانوں کا وسیلہ روزگار اور ان کے گھر کا چولہا جلاتا ہے،اتنے بڑے ادارے کی ذمہ داری کا مطلب ہے ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی کفالت کرنا ،یہ بوجھ بہت بھاری ہے اور اس قومی فخر ادارے کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا گیا۔
کچھ سال قبل ریل گاڑی کے حوالے سے ایسی اطلاعات ملنے لگی تھی جنہیں سن کر اچھا لگتا تھاکہ ہماری ریل گاڑی میں کوئی سدھار آئے یا ناآئے، لیکن یہ وقت پر خیرخیریت سے پہنچ جاتی ہے،مسافر عیدین پر ،خوشی غمی میں اپنوں کے پاس باحفاظت پہنچ جاتے ہیں،ایسی خبروں کے بعد ہم سوچتے کہ قومی اداروں کی بقا کے لیے کام کرنے والوں کا نام ہمیشہ روشن رہتا ہے اور جو قومی اداروں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں انہیں بادلوں میں بھی چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی،قومی ادراوں کی بحالی عوام کی خوش حالی سے جڑی ہوتی ہے،ہم اپنے آپ کو اس طرح تسلی دیتے کہ دنیا ریل گاڑی میں جتنی بھی ترقی کر لے، تیز ترین اور خوبصورت ریل گاڑیاں بنا لے ،ہم ہمارے انگریز کے بنائے نظام سے خوش ہیں اور اس میں بہتری کے لیے کام کررہے ہیں،امید کرتے ہیں کہ اس میں عروج ہمارا مقدر ہوگا،پھر اس قومی ادارے کا پہیہ تبدیلی کے نام پر تبدیل کردیا گیا۔ اقتدار کی خوشی میں پہیہ بھیا الٹا لگ گیا اور ہمارے ملک کی تبدیلی سرکار نے اس کماؤ پتر قومی ادارے کو تباہ کردیا ۔