میری چھوٹی بیٹی اپنی پیاری سی آواز میں چوتھی جماعت کی ایک نظم پڑھ رہی تھی،نظم کا مفہوم کچھ یوں تھا، زیادہ پرانی بات نہیں، جب زندگی بہت سادہ اور آسان تھی، اس وقت کوئی ای۔ میل ، جی ۔میل یا ہاٹ میل کا معاملہ نہیں تھا ۔ لوگ اپنے ہاتھوں سے خط لکھتے اورجواب کے لیے ڈاکیے کے منتظر رہتے ، کہ کب ڈاکیہ آئے گا اور جواب لائے گا ۔ بڑے پیارے تھے وہ دن جو اب کہیں کھو گئے ہیں۔ ‘ ‘میں جو اپنی بیٹی کے قریب ہی بیٹھی تھی اور پیاز کاٹ رہی تھی ، یک دم اپنے ہاتھ روک لیے ، ایک لمحے کو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں چاند پر چرخہ کاٹنے والی ایک بڑھیا ہوں، اور میری بیٹی عہد حاضرکی نمائندہ ۔ گویا یہ بات سیدھی جاکر دل پر لگی۔ میں نے گہری سانس لی اور سوچا سب کچھ کتنی تیزی سے بدل رہا ہے ، بلکہ بدل چکا ہے ۔
اب پچھلے دنوں کی بات ہے ، میری بڑی بیٹی جو کالج میں پڑھتی ہے ، ایک دن اس نے مجھے پکار کے کھڑکی کی جانب بلایا ” امی آئیں جلدی دیکھیں ، کوئی پاگل ایک پتھر پر کچھ ٹھونک رہا ہے“ میں دوڑتی ہوئی گئی کہ دیکھوں کہ پاگل کہاں سے آگیا ، لیکن جب باہر نگاہ دوڑائی تو غضب ناک ہو کر بیٹی کی طرف متوجہ ہوئی’ ’کیا ہوگیا ؟ بیوقوف یہ سل بٹے والا ہے۔“ پھر مجھے سل بٹے کے بارے میں اسے بتانا پڑا کہ کس طرح ہماری نانی اماں اس پر مسالحے پیستی تھیں ، اور یہ کس قدر مفید آلہ ہے۔ دل میں افسوس بھی ہوا کہ بچے قطعی نا واقف ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ پرانا زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے ۔ نئی چیزیں اپنی جگہ بنارہی ہیں۔ ہم نے بھی اپنی پرانی چیزوں کو کونے کھدرے میں ڈال ضرور دیاہے ، لیکن اسے ابھی زندگی سے نکالا نہیں ہے۔
پچھلے دنوں ہم اپنی پرانی یادوں کو سمیٹے بیٹھے تو کہیں سے وی۔ سی۔ آر کیسٹ ہاتھ لگ گیا۔ اس میں ہمارا پچپن مدفون تھا، سوچا پچپن کو اپنے بچوں کو دیکھائیں گے۔ اسی غرض سے بیٹے کو آواز دی، اس سے دریافت کیا کہ وی۔ سی ۔ آر رپیئرنگ کی کوئی دکان ہو تو بتائے تا کہ وی سی آر چل سکے۔ میرے بیٹے نے زیر لب مسکراتے ہوئے جواب دیا، ” امی اب کچھ نہیں ہو سکتا، وی سی آر بنانے والے تو مر کھپ گئے ہوں گے“۔
بہرحال گھریلو آلات ہوں یا شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی اشیاء ، سب نے ہی جدیدیت کو خوش آمدید کہا ہے۔ موبائل فون کی انٹری کیا ہوئی ٹیپ ریکارڈ ، ریڈیو، آلارم گھڑیاں، کیمرے سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ All in one موبائل سب کے ہاتھ میں آگیا۔ انسان ذات میں انجمن ہوگیا۔ یہ کھلونا لوگوں میں اس قدر مقبول ہوا کہ ، ہر کس و ناکس کے پاس آگیا۔ خالی پیٹ تن پر کپڑا نہیں ،مگر یہ جان سے بھی پیارا ہوگیا اور اس کی محبت میں کبھی جان بھی چلی گئی۔
”بات نکلی ہے تو دور تلک جائے گی “ کے مصداق میں بھی باتوں میں ناجانے کہاں سے کہاں نکل گئی۔ پچھلے دنوں ابا ابو ظہبی سے آئے ہوئے تھے ۔ ہمیشہ کی طرح ابا کی محبت مجھے کھنچ کر ابا کے پاس لے گئی اور ہمیشہ کی طرح ابا پرانے قصے سنانے لگ گئے۔ وہ واقعات میں بارہا ابا کی زبان سے سن چکی تھی، سنا بھی چاہئے اور اس طرح کہ ابا کو لگے میں پہلی بار سن رہی ہوں اور بھلا وہ بیٹی ہی کیا جو اپنے باپ کو سن نہ سکے۔ ہمارے ابا اپنے دور کے جدید انسان ہیں۔ ابا واقعات سنا رہے تھے اور میں سن رہی تھی ۔ ابا نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے مجھے مخاطب کیا۔ ” بیٹے یہ واقعات جو میں بتا رہا ہوں بہت اہم ہیں آپ اس کو ٹیپ کر لیجئے“۔میں نے فرمابرداری سے اثبات میں سر ہلایا اور موبائل ریکارڈنگ کے لیے ہائی الرٹ ہوگئی۔ ابا نے سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھا کہ یہ اطاعت گزار بیٹی کب حکم بجا لائے گی ، شاید ابا کا خیال تھا کہ بیٹی اٹھے گی ، بھاری بھرکم ٹیپ ریکارڈ لائے گی اور کیسٹ لگا کر ٹیپ کرے گی ۔ ابا نے موبائل یعنی بندر کی ڈگڈگی کو ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھا اور پھر کچھ نہ بولے اور میں اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔برق رفتار ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہوئے میں یہ سوچ رہی تھی کہ اپنے دوڑتے ہوئے بچوں کا ہاتھ تھام لوں، اس میں شرم کی کیا بات ہے میں نے بھی تو انہیں انگلی پکڑ کر چلنا سیکھایا تھا اب اور اگر اب وہ ماﺅس پکڑ کر کمپیوٹر سکھا رہے ہیں تو کیا بڑی بات ہے۔ وقت کی رفتار بہت تیز ہے یہ سرپٹ گھوڑا دوڑا چلا جارہا ہے اور پتہ نہیں کہاں جا کردم لے گا سو میں نے مضبوطی سے بچوں کا ہاتھ پکڑ لیا ہے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے والدین کا ہاتھ تھام لیا ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے سیکھ رہے ہیں اور ایک دوسرے کوسکھا بھی رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں اور سمجھا رہے ہیں اب مجھے امید سی ہوگئی ہے کہ جدیدیت کے عفریت کو ہم اپنے قابومیں کر سکیں گے اور جینریشن گیپ کا حوا پرُ ہو سکے گا۔