خبر کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سیاسی مخالفین کی بیماریوں اور رنج کا مذاق اڑانے والے نہ بھولیں کہ وقت بدل جاتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی صحت پر قوم سمیت ہم سب سخت فکر مند ہیں، پارٹی قائد کی صحت میں بہتری ہماری اولین ترجیح ہے۔ سیاسی مخالفت رہتی ہے، لیکن کسی کے زندہ رہنے کے حق سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ نوازشریف کا قانونی حق ہے کہ انہیں بہترین علاج میسرآئے، قوم اور ہم نوازشریف کی صحت سے متعلق کسی غفلت کے متحمل نہیں ہوسکتے، حکومتی وزرا اور مشیروں کا انداز بیان انتہائی نامناسب اور قوم کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی تعلیمات تو ایسا ہی کہتی ہیں لیکن راقم الحروف سمیت پاکستان میں شاید ہی چند اللہ کے ولی ایسے ہوں جو کسی کی بھی مصیبت، پریشانی، غم، دکھ یا بیماری کا سننے کے بعد اس کے حق میں دعاؤں کیلئے ہاتھ بلند کرتے ہوں۔ خاص طور سے ہر وہ فرد، ذاتی یا سیاسی مخالف، یا مخالف سیاسی پارٹی جو کسی بھی قسم کی قانونی یا قدرتی آفت کا شکار ہوجائے، اس کو کسی بھی مشکل میں دیکھ کر اس کے حق میں اچھا کرنا تو کرنا، سوچنا بھی گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ مصیبتیں، بیماریاں اور مشکلات تو ایک طرف، یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی رضائے الٰہی سے فوت ہو جاتا ہے یا عدالتوں سے سزا پاکر تختہ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے تو لوگ اس کی مغفرت کیلئے دعائیں مانگنے کی بجائے مٹھائیاں بانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔
شہباز شریف کی بات اپنی جگہ بالکل درست، لیکن کیا ان کا ماضی اپنے مخالفین کیلئے ایسا ہی رہا ہے۔ کیا وہ سیاسی مشکلات میں پھنسے ہوئے افراد یا ان کے دکھ بیماری میں اللہ کے حضور گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگتے رہے ہیں ، اور ان کے سفر آخرت کی جانب روانہ ہونے پر مگر مچھ کے ہی سہی، آنسو بہاتے رہے ہیں۔
بات تو بالکل درست ہے کہ جینے کا حق ہر امیر و غریب کو ہونا چاہیے اور خاص طور سے وہ افراد جو کسی بھی خطرناک بیماری کا شکار ہوگئے ہوں، ان کو جہاں سے بھی اور جس ملک سے بھی علاج کرانے سے شفایابی ملنے کی توقع ہو، وہاں جاکر علاج کرانے کی پوری پوری اجازت ہونی چاہیے ، لیکن کیا وہ اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ جب جب بھی ایسا برا وقت ان کے حقیقی مخالفین پر آتا رہا تھا تو ان کا دل اتنا ہی کشادہ ہوکر سوچتا تھا ، جیسے وہ اس وقت اپنے آپ کو مصیبت میں دیکھ کر وسعت نظری سے سوچ رہے ہیں؟۔
ہم بہت دور کی بات نہیں کرتے۔ 2013 سے 2018 تک “ن” ہی کی حکومت تھی۔ کراچی کی ایک سیاسی پارٹی جو اکثر ان کی اتحادی بھی رہی تھی اور جو حقیقتاً مخالف سیاسی پارٹی بھی نہیں تھی، اس پر اس وقت کی مقتدرہ کا سخت دباؤ تھا۔ ایسے موقع پر جب کہ وہ پارٹی سخت کشمکش کا شکار تھی تو کیا “ن” اس وقت ان پر آئے دباؤ کو کم کرنے کی سعی میں مصروف تھی یا ان کی خراب سیا سی پوزیشن میں سے اپنے لیے اچھائیاں تلاش کرتی رہی تھی۔ یہ وہی وقت تھا جب اُسی سیاسی پارٹی کے بانی کی صحت کے متعلق بہت کچھ ایسی باتیں منسوب بھی کی جارہیں تھیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اس حد تک اس بات کو بڑھادیا گیا تھا کہ جیسے وہ زندہ بھی نہیں ہے ، بلکہ اس کے زندہ ہونے کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے ، تو کیا مسلم “ن” جو اس وقت حکومت میں تھی، اس موقع پر انھیں اس بات کا کوئی احساس تھا کہ ہر فرد کو نہ صرف زندہ رہنے کا حق ہے ، بلکہ کبھی کسی کو کسی کی بیماری کو نہ تو مذاق سمجھنا چاہیے اور نہ ہی کسی کو جینے کے حق سے محروم کر دینا چاہیے؟۔
اگر تمام باتوں پر غور کیا جائے تو نچوڑ یہی نکلتا ہے کہ جب تک کسی فرد پر انفرادی طور پر یا کسی سیاسی پارٹی پر قانونی یا آفاتی طور پر مصیبت کے پہاڑ نہ ٹوٹ پڑیں ، اس وقت تک فرد یا پارٹیاں کسی بھی ظلم، مصیبت، زیادتی اور ناانصافی کو ظلم، زیادتی یا نا انصافی ماننے یا تسلیم کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتیں۔
ملک میں احتساب کا آغاز ہوا تو ہر پارٹی اپنے مخالفین کے خلاف ہر قسم کی جائز یا ناجائز کارروائی پر خوشی کے شادیانے بجاتی نظر آئی ، لیکن جوں جوں احتساب کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور وہ پارٹیاں جو مخالفین کو احتساب کے شکنجے میں جکڑا دیکھ کر تالیاں بجاتی دکھائی دیتی تھیں، جب بات ان کے گریبانوں تک جا پہنچی تو وہی احتساب کا عمل ان کو برا لگنے لگا۔
یہ بات بھی مسلم ہے کہ ہماری عدالتیں یا احتساب کے ادارے، کبھی بھی بے رحم اور غیر جانبدارانہ احتساب یا منصفانہ فاصلے نہیں کیا کرتے ، بلکہ عدالتیں اور احتساب کے ادارے اپنے مخالفین کو دبانے اور ان کی کردار کشی کرکے ہر اس حکومت کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مسند اقتدار پر موجود ہوتی ہے، جب کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ بات الم نشرح ہو چکی ہے کہ ان کے اس عمل سے کبھی کسی حکومت کو استحکام حاصل نہیں ہو سکا ، بلکہ یہ عمل ہر حکومت کے زوال کا سبب ہی بنا ہے ، لیکن نہ جانے ایسے عمل سے اجتناب کی بجائے، اسی عمل کو ہر آنے والی حکومت دہرانا کیوں پسند کرتی ہے اور اس فریب میں مبتلا رہتی ہے کہ دوسروں کو بے شک ایسا کرنے کی وجہ سے ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے لیکن وہ اپنی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے نہ صرف اپنے مخالفین کی کردار کشی کرنے میں کامیاب ہو جائے گی بلکہ ہمارا یہ عمل ہمارے اقتدار کے دوام کا باعث بھی ہو گا۔
موجودہ حکومت بھی اپنے سابقین کی طرح اپنے مخالفین کو دبانے میں مصروف رہی تھی اور اب تک ہے ، لیکن نتیجے کے طور پر وہی کچھ ناکامیاں سامنے آرہی ہیں جو ماضی کی حکومتوں کو در پیش رہی ہیں۔
جب بار بار کے تجربوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے تو پھر ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں لائی جائیں۔ لہٰذا موجودہ حکومت کو بھی اس معاملے میں بہت کچھ سوچنا ہوگا۔ اگر ہر کام کو ہر حکومت اپنے ہی سر لینے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے گی تو پاکستان کا آگے پڑھنا بہت ہی مشکل ہے۔
چوروں کے ہاتھ بھی پکڑنے ضروری ہیں، ملک کی دولت پر ڈاکا مارنے والوں کا راستہ روکنا بھی ضروری ہے، جس جس نے بھی چوری یا ڈکیتی کی ہے ان سب کو قانون کے شکنجے میں کسنا بھی لازمی ہے، بدعنوانیوں پر بھی بند باندھنا ہے اور ملک میں امن و امان کو بھی بحال رکھنا ہے لیکن یہ سب کام بلاواسطہ حکومت کے تحت نہیں آیا کرتے یا حکمران رات دن ان ہی کاموں میں مصروف نہیں رہا کرتے۔ ان کے پاس ایسی محبت کے سوا بھی ہزاروں غم ہوا کرتے ہیں۔ کونسا ایسا ملک ہے جہاں ہر قسم کے ادارے موجود نہیں ہوتے۔ ہر قسم کی غیرقانونی، غیر اخلاقی اور عوام دشمن سرگرمیوں کی روک تھام کرنے کیلئے ادارے، محکمے اور قانون پر عمل درآمد کرانے کیلئے انتظامیہ موجدد ہوتی ہے۔ حاکم وقت کا کام ان اداروں کو حرکت میں لانا اور ان پر شیر کی نظر رکھنا ہوتا ہے۔
پاکستان میں ساری خرابیوں کا سبب یہی بات ہے کہ کوئی ادارہ بھی اپنے حصے کا کام نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کی نظر دورے کے نوالے پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ ہر محکمہ اور ادارہ وہ کام کرتا ہوا نظر آتا ہے جس سے اس کا کسی بھی قسم کا کوئی تعلق ہوتا ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان کا ہر شعبہ زندگی بہت ابتری کا شکار ہو کرہ گیا۔ اگر آج کے دن سے بھی یہ عہد کر لیا جائے کہ ہر فرد، ہر محکمہ اور ہر ادارہ صرف اور صرف اپنے حصے کا کام کرے گا تو ممکن ہے پاکستان کے حالات بدل جائیں ورنہ ہمیں تباہی و بربادی سے شاید کوئی بھی نہ بچا سکے۔