کسی بھی عمل کو اللہ کے لئے خالص کرنا اس کی قبولیت کی بنیاد ہے، جو کام اللہ کے لئے اخلاص سے نہ کیا جائے، وہ اس کے ہاں قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا، گویا وہ ایسا عمل ہے جس پر اجر نہ ملے، ایک ایسی نماز جس کا ثواب نہ ہو، اور ایسا صدقہ جس کی قدر و قیمت عدم اخلاص نے ختم کر دی ہو، اور عامل کی مراد پوری نہ ہوئی ہو۔
دین ِ اسلام میں اعمال اللہ کے لئے خالص ہونے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اللہ کے لئے اخلاص برتنا ایک وسیع مضمون ہے اور یہ تمام اعمال پر حاوی ہے، اور اخلاق کا اعلی مرتبہ ہے، اخلاص میں کمی یا اس سے محرومی کی صفات میں ریا، لوگوں میں شہرت، اور تذکرہ حاصل کرنے کی نیت اور کوشش ہے۔
ایک دل میں اللہ سے اخلاص اور مدح اور ستائش سے محبت اور طمع جمع نہیں ہو سکتے، بالکل اس طرح جیسے آگ اور پانی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔
اخلاص کا مادہ ’’خ ل ص‘‘ ہے، جس کے معنی ’’پاک صاف اور خالص ہونے ‘‘ کے ہیں۔ ایسی محبت جس میں سچائی ہو، اور جو خالص ہو۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
’’اخلاص یہ ہے کہ ہر ما سوا اللہ سے دل کو پاک کر لیا جائے‘‘۔ (مفردات القرآن، امام راغب، ص۱۳۳)
لسان العرب میں ہے: ’’اخلاص ریا کو ترک کر دینے کا نام ہے، جبکہ دین کو اللہ ہی کے لئے خالص کر لیا گیا ہو‘‘۔
ابراہیم بن ادھم کہتے ہیں: یہ اللہ تعالی کے ساتھ صدق ِ نیت برتنا ہے۔ (الاحیاء، ج۴، ص۴۷۴)
یعقوب المکفوف کا قول ہے: ’’مخلص اپنی نیکیوں کو اس طرح چھپاتا ہے جیسے وہ اپنی برائیاں چھپاتا ہے‘‘۔
جنیدؒ کا قول ہے: ’’اخلاص اللہ اور بندے کے درمیان رازہے، نہ فرشتہ اسے جانتا ہے کہ اسے لکھے، اور نہ شیطان اس تک پہنچ سکتا ہے کہ اسے خراب کرے، اور نہ ہوائے نفس، کہ اس کی جانب مائل ہو‘‘۔
سہل سے کہا گیا: نفس پر سب سے زیادہ بھاری کیا چیز ہے؟ کہا: اخلاص، کیونکہ نفس کی اس تک رسائی نہیں۔
مکحول کہتے ہیں: ’’اگر انسان چالیس دن اخلاص کے ساتھ گزار لے تو اسکے قلب کی حکمت کے چشمے اس کی زبان پر رواں ہو جاتے ہیں‘‘۔
ابو سلمان الدارانی کا قول ہے: ’’اگر انسان اخلاص اختیار کر لے تو وسوسے اور ریا اس سے دور بھاگ جاتے ہیں‘‘۔ (مدارج السالکین، ج۲، ص۹۲)
مخلِص اور مخلص میں فرق
مخلِص: وہ ہے جس نے اپنی عبادت کو اللہ کے لئے خالص کر لیا، جس نے اپنے نفس کو اللہ کے لئے خالص کر لیا اور اپنا سر اسکے سامنے جھکا دیا۔۔
مخلص (لام پر زبر کے ساتھ): وہ ہے جسے اللہ اپنے لئے خالص کر لے، اسے رسالت اور کتاب عطا کرے، یعنی انبیاء علیھم السلام کو اللہ نے اپنے لئے خالص کر لیا۔ معبود کا بندے کو اپنے تقرب کے لئے خالص کر لینا۔
قرآن کریم میں ہے:
{الا عبادک منھم المخلصین} (الحجر، ۴۰)
’’سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے خالص کر لیا ہو۔‘‘
قرآن کریم میں اخلاص اور اس کے مشتقات کا استعمال اکتیس (۳۱) مرتبہ ہوا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کے لئے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر‘‘۔ (سورۃ البیّنۃ، ۵)
یعنی ہر زمانے میں صحیح اور درست دین یہی رہا ہے کہ خالص اللہ کی بندگی کی جائے، اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی کی آمیزش نہ کی جائے، ہر طرف سے رخ پھیر کر انسان صرف ایک اللہ کا پرستار اور تابع فرمان بن جائے۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص۴۱۵)
اور فرمایا:
’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں‘‘۔ (الانعام، ۱۶۲۔۱۶۳)
اعمال میں اخلاص کی حیثیت ایک خوشبودار پھول کی ہے، جس کی خوشبو چاروں جانب پھیلتی ہے، بلکہ اس کی خوشبو ہی اس کی موجودگی کی خبر دیتی ہے۔ اللہ تعالی کا مخلص بندہ سعادت کی راہوں پر آگے آگے چلتا ہے، وہ بندوں کی خوشنودی سے بالکل پاک ہو جاتا ہے، اس پر اللہ کی رضا حاصل کرنے کی دھن سوار ہو جاتی ہے، جو اسے آگے لے کر جاتی ہے، اعمال میں اللہ سے اخلاص برتنا ہی دین کی اصل ہے، اور یہی عمل کا تاج بھی ہے۔اخلاصِ عمل بندے کے وقار کو بڑھاتا ہے، اس میں بلند ہمتی پیدا کرتا ہے، یہ راہ سعادت کی راہ ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو اخلاص کا حکم دیا:
’’تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار، دینِ خالص اللہ کا حق ہے‘‘۔ (الزمر، ۲۔۳)
پس عمل کی اصلاح نیت کی درستی سے ہے، اور نیت کی درستی دل کی اصلاح سے ہوتی ہے۔ اس آیت میں دو نکات بیان کئے گئے ہیں، ایک مطالبہ اللہ کی عبادت کا ہے، اور دوسرا ایسی عبادت کا جو دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے کی جائے، یعنی آدمی اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے، بلکہ اسی کی پرستش، اسی کی ہدایت کا اتباع اور اسی کے احکام و اوامر کی اطاعت کرے۔اس کی تشریح درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے جو ابنِ مردویہؒ نے رشید الرّقاشی سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: ہم اپنا مال دیتے ہیں اس لئے کہ ہمارا نام بلند ہو، کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا؟ حضورؐ نے فرمایا: نہیں۔ اس نے پوچھا: اگر اللہ سے اجر اور دنیا کی ناموری دونوں کی نیت ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی کوئی عمل بھی قبول نہیں کرتا جب تک وہ خالص اسی کے لئے نہ ہو‘‘۔ (دیکھئے: نفہیم القرآن ، ج۴، ص۳۵۶۔۳۵۷)
سورۃ الاعراف میں فرمایا:
’’اور اسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لئے خالص رکھ کر۔‘‘ (سورۃ الاعراف، ۲۹)
یعنی رہنمائی اور تائید و نصرت و حفاظت کے لئے خدا ہی سے دعا مانگے، مگر شرط یہ ہے کہ اس چیز کی دعا مانگنے والاآدمی پہلے اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر چکا ہو۔ یہ نہ ہو کہ زندگی کا سارا نظام تو کفر و شرک اور معصیت اور بندگیِ اغیار پر چل رہا ہو اور مدد خدا سے مانگی جائے، کہ اے خدا، یہ بغاوت جو ہم تجھ سے کر رہے ہیں، اس میں ہماری مدد فرما۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۲۱۔۲۲)
اخلاص سعادت کی راہ ہے
بندہ صدق ِ دل سے اللہ کی بندگی میں لگ جائے، اور اس کے پیش ِ نظر صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو، اور لوگوں کی ملامت یا ستائش کی پرواہ نہ کرتا ہو، تو حقیقتاً اس نے سعادت کی راہ پا لی، نیک کام کی تکمیل اور اس کی برکت کا حصول اخلاص ِ نیت کے ساتھ وابستہ ہے۔اللہ تعالی نے اپنے نبی ؐ کو بھی اخلاص کی تلقین صرف ایک سورہ میں تین مرتبہ کی:
’’تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لئے خالص کرتے ہوے‘‘۔ (الزمر، ۲)
’’اے نبیؐ، ان سے کہو: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کو اللہ کے لئے خالص کر کے اس کی بندگی کروں‘‘۔ (الزمر، ۱۱)
’’کہہ دو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر کے اسی کی بندگی کروںگا‘‘۔ (الزمر، ۱۴)
پس عمل کی درستی نیت کے درست اور خالص ہونے سے ہے، اور نیت کا خالص ہونے دل کے خالص ہونے سے ہے۔
اللہ تعالی کے ہاں اعمال کی قبولیت میں دو چیزیں شامل ہے، ۱۔ اس عمل کا اللہ کے لئے خالص ہونا، ۲۔ اس کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہونا۔
’’محض ریا کا ظہور فرض نماز اور روزے کی ادائیگی میں نہیں ہوتا، البتہ صدقاتِ واجبہ (زکوۃ) اور حج یا ان جیسے ظاہری اعمال میں اس کا صدور ہو جاتا ہے، جن سے نفع ملنے کی توقع ہوتی ہے، اور ان میں اخلاص ہی مطلوب ہے،اور مسلمان کو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح ان کا عمل نیچے چلا جائے گا، اور اس ریا کار کو اللہ کی جانب سے سزا اور عقوبت ملے گی۔
محدیثین علماء کی اکثریت نے جن میں امام بخاریؒ نے اپنی’’ صحیح‘‘ میں، مقدسیؒ نے ’’عمدہ الاحکام‘‘ میں، بغویؒ نے ’’شرح السنہ‘‘ اور ’’مصابیح السنہ‘‘ میں، امام نوویؒ نے ’’اربعین النووی‘‘ میں،کتاب کا آغاز ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ سے کیا ہے، جو اعمال میں نیت کے اخلاص کی اہمیت کا ثبوت ہے۔ سفیان ثوریؒ کہتے ہیں: ’’میں نے اپنی نیت سے بڑھ کر کسی چیز کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ یہ بار بار مجھے پچھاڑ دیتی ہے‘‘، اور اللہ کی رضا کے حصول کی نیت کے بغیر طاقت بے مصرف ہے، یہ ایک رائیگاں کوشش ہے، اور ایسا عمل ہے جو لوٹا دیا جاتا ہے، اللہ تعالی غنی و حمید ہے، جو عمل خالص اس کے لئے نہ ہو وہ اسے قبول ہی نہیں کرتا۔ ابو امامہ الباھلی ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا، اور کہنے لگا: یا رسول اللہ ﷺ ایک شخص اللہ کی رضا اور ناموری کے لئے جہاد کرتا ہے تو اسے کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔ اس نے تین مرتبہ اپنا سوال دہرایا، اور آپ ﷺ نے ہر بار یہی فرمایا کہ اس کے لئے کچھ نہیں ہے، پھر فرمایا: اللہ تعالی اس کے سوا کسی عمل کو قبول نہیں کرتا جو خالصتاً اسی کے لئے ہو، اور اس کی رضا مندی کی طلب میں ہو‘‘۔ (رواہ ابو داود والنسائی)
فضیل بن عیاضؒ دنیا کی امتحان گاہ میں اعمال کی درستی کا معیار بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’کہ وہ عمل خالص ہو اور درست ہو، ان سے پوچھا گیا: اے ابو علی، خالص اور درست ہونے سے کیا مراد ہے، انہوں نے کہا: اگر عمل خالص ہو لیکن درست نہ ہو تو وہ قبول نہیں کیا جا تا، اور اگر وہ درست طریقے پر ہو مگر خالصتاً اللہ کی خاطر نہ ہو تو بھی قبول نہیں ہوتا، خالص ہونا یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کی خاطر ہو، اور درست ہونا یہ ہے کہ وہ کام رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہو۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا، لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے‘‘۔ (رواہ مسلم، ۴۷۷۹)
کن کاموں میں اخلاص برتنا ضروری ہے؟
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اخلاص کا تعلق عبادات سے ہیں، ہمیں خالصتاً للہ عبادت کرنی چاہئے، نماز، روزے اور تلاوت ِ قرآن اور دیگر عبادات اور دعوت الی اللہ کے کام کرتے وقت اپنی نیت میں کھوٹ کا جائزہ لے لینا چاہئے، یہ خیال درست نہیں، ہر بھلائی کرتے ہوئے نیت کو خالص کر لینا ضروری ہے، خواہ وہ ہمسائے کی خبر گیری ہو،یا صلہ رحمی، یا والدین سے احسان، کیونکہ یہ سب بھی عبادت ہیں۔ ہر وہ کام جو اللہ کی محبت میں اور اس کی رضا پانے کے لئے کیا جائے اس میں اخلاص کا ہونا ضروری ہے، حتی کہ باہمی معاملات میں خیر کا ہر رویہ بھی اخلاص کا تقاضا کرتا ہے، جیسے تجارت میں سچ کو اختیار کرنا، بیوی سے حسن سلوک، اولاد کی تربیت میں محاسبہ، اور ہر وہ کام جو بظاہر دنیا کے معاملات کہلاتا ہے، اس میں بھی اخلاص برتنا ضروری ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم جو خرچ بھی اللہ کی رضا کے حصول کے لئے کرتے ہو، تمہیں اس پر اجر ملتا ہے، حتی کہ اس نوالے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو‘‘۔ (متفق علیہ؛ الریاض الصالحین، ۲۹۴)
ہر عمل جو اللہ کی محبت اور اس کی رضا کے لئے کیا جائے وہ قول ہو یا فعل،ظاہری یا باطنی، تو وہ عبادت ہے، اور اس میں اخلاص کا وجود ضروری ہے، خواہ وہ کوئی معمولی عمل ہی کیوں نہ ہو۔
اخلاص کیا ہے؟
عمل کرتے ہوئے نیت کو اللہ کے لئے خالص کر لینا، کہ آپ کو اللہ کی رضا ہی مقصود ہے، نہ دکھاوا ہے نہ شہرت ، تعریف کی تمنا ہے نہ اونچا منصب درکار ہے، اور نہ کسی کی ہم نشینی۔ آپ کو اس عمل پر کسی کی مدح سرائی چاہئے ، نہ کسی کی ملامت کا خوف لاحق ہو، اور پھر جب آپ کی نیت اللہ کے لئے خالص ہو گی اور آپ اسے بندوں کے لئے مزین بنانے کی کوشش نہیں کریں گے، تو آپ نے اخلاص کے تقاضے کو پورا کر دیا۔
فضیل بن عیاضؒ کہتے ہیں: ’’کسی عمل کو لوگوں کے لئے کرنا شرک ہے، اور لوگوں کی خاطر کسی عمل کو ترک کرنا ریا ہے، اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کو ان دونوں سے بچا دے‘‘۔
تمام اعمال میں اخلاص کے لئے ضروری ہے کہ بندہ اس فرمان ِ الہی کو نگاہ میں رکھے: ’’کہہ دیجئے، میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں ‘‘۔ (الانعام، ۱۶۲۔۱۶۳)
اخلاص کا اثر
اللہ سے اخلاص برتنا ایک ایسا وصف ہے جو بندے کو اعلی درجات تک پہنچا دیتا ہے، ابو بکر بن عیاش کہتے ہیں: ’’ابو بکر صدیقؓ کو یہ فضیلت نماز اور روزوں کی کثرت کی بنا پر نہیں ملی، بلکہ اس چیز کی بنا پر ملی جو انکے دل میں تھی، (یعنی اخلاص للہ)‘‘۔
عبد اللہ بن مبارکؒ کا قول ہے: ’’بہت سے چھوٹے اعمال کو ان کی نیت بڑا بنا دیتی ہے، اور کتنے ہی بڑے اعمال کو ان کی نیت چھوٹا کر دیتی ہے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، کہ رسول کریم ﷺ نے( پر خلوص چھوٹے عمل کی بڑائی بیان کرتے ہوئے )فرمایا: ’’کوئی شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور صدقہ کرتا ہے، تو اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے، اور اس کی ایسے پرورش کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی اونٹنی کے بچے کو پالتا ہے، حتی کہ وہ پہاڑ جتنا یا اس سے بھی بڑا ہو جاتا ہے۔ (رواہ مسلم، ۱۷۵۹)
’’اور اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے‘‘۔ (البقرۃ، ۲۶۱)
یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہو گا۔ جو خدا ایک دانے پر اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اگ سکتے ہیں، اس کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو اس طرح نشو نما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گنا ہو کر تمہاری طرف پلٹے۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص۲۰۳)
جب بندے کا اخلاص قوی ہو جائے، اور اس کی نیت خالصتاً لوجہ اللہ ہو، اور وہ اپنے عمل کا اخفاء بھی کرے (یعنی اسے پوشیدہ رکھے)، تو اسے اپنے رب کا قرب حاصل ہو جاتا ہے، اور وہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا، رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق : سات قسم کے لوگ اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوں گے ۔۔ اور ان میں ذکر کیا، ایک شخص کا، جس نے صدقہ کیا تو اسے اس قدر چھپا کے دیا کہ اس کے دائیں ہاتھ کے دینے کو بایاں ہاتھ بھی نہ جان پایا۔(متفق علیہ)
تھوڑے عمل کی کثیر برکت
جب بندہ خالص نیت کے ساتھ عمل ِ صالح کرتا ہے، اگرچہ وہ کوئی آسان سا عمل ہو، تو اللہ اسے قبول کرتا ہے، اور اسے بڑھا دیتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے جنت میں ایک شخص کو پھرتے دیکھا، جس نے ایک ایسے درخت کو کاٹ دیا تھا، جو راستے میں چلنے والے لوگوں کو تکلیف دیتا تھا۔ (رواہ مسلم، ۴۷۸۴)
خالص نیت کا اجر
اللہ تعالی اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے، یہ اس کا کرم ہی ہے کہ بندہ نیک عمل کا ارادہ باندھتا ہے، اور اسے کرنے کے وسائل نہیں پاتا تو وہ اسے اس کی نیت ہی پر اجر سے نواز دیتا ہے۔حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک غزوے پر جا رہے تھے، راستے میں آپؐ نے فرمایا: ’’مدینہ میں ایسے کچھ لوگ موجود ہیں، کہ تم نے کوئی راستہ یا وادی ایسی پار نہیں کی، مگر وہ (اجر میں) تمہارے ساتھ تھے، ان کو مرض نے روک لیا تھا۔(رواہ مسلم، ۱۹۱۱) ایک روایت کے مطابق ’’وہ اجر میں تمہارے شریک ہیں ‘‘۔
حضرت انسؓ کی روایت ہے، کہ ہم رسول ِ کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک سے واپس لوٹ رہے تھے، جب آپؐ نے فرمایا: ’’ہم نے مدینہ میں کچھ ایسے لوگ چھوڑے ہیں، ہم نے کوئی درہ یا وادی طے نہیں کی جس میں وہ ہمارے ساتھ نہ ہوں، ان کو عذر نے روک لیا تھا‘‘۔ (رواہ البخاری، ۲۶۸۴)
حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رب اللہ تبارک وتعالی سے بیان کرتے ہیں(حدیث قدسی): ’’اللہ تعالی نے نیکیاں اور برائیاں لکھ رکھی ہیں، اور انہیں بیان کر دیا ہے، پس جس نے نیکی کا ارادہ کیا، اور اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ اس کی ایک کامل نیکی لکھ لیتا ہے، اور جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ کے ہاں اس کی دس سے سات سو گنا تک بڑھا چڑھا کر نیکیاں لکھی جاتی ہیں‘‘۔(متفق علیہ)
داود الطائی کا قول ہے: ’’میں نے تمام بھلائیوں کو حسن ِ نیت میں جمع دیکھا ہے‘‘۔
یحیی بن کثیر کہتے ہیں: ’’نیت کرنا سیکھو، کیونکہ یہ عمل سے زیادہ وقعت رکھتی ہے‘‘۔
اخلاص کے ثمرات
کوئی نیک عمل اخلاص کے بغیر قبول نہیں ہوتا، اور اخلاص نہ ہو تو بڑے سے بڑا نیک عمل بھی رد کر دیا جاتا ہے، خواہ وہ عالم کا علم اور اس کی اشاعت ہو، یا مالدار کا راہِ خدا میں خرچ، حتی کہ شہید کی شہادت بھی رائیگاں چلی جاتی ہے۔مخلص شخص پر اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہے، وہ شیطان کے تسلط اور اغوا سے محفوظ رہتا ہے، اللہ تعالی نے شیطان کا قول ذکر فرمایا ہے:
’’اس نے کہا: تیری عزت کی قسم! میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا، بجز تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص کر لیا ہے‘‘۔ (ص، ۸۲۔۸۳)
اللہ تعالی اپنے مخلص بندوں کو نافرمانوں اور ان کی مکاریوں سے محفوظ رکھتا ہے:
’’ایسا ہوا، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں، درحقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا‘‘۔ (یوسف، ۲۴)
اخلاص سے خیر کے دروازے کھلتے ہیں؛ سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم جو بھی کام اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرو گے، تمہارا ایک درجہ بلند اور رفیع ہو جائے گا‘‘۔(رواہ البخاری،۲۲۵۶)
اخلاص قلب و شعور کو طمانیت عطا کرتا ہے، رحمن کا خالص بندہ ایسی راحت اور سرور محسوس کرتا ہے جو کسی اور کو نہیں ملتی، کیا یہ راحت کم ہے کہ تمام انسان اس کے لئے نیچے ہو گئے، اور ایک رب ہے جس کی رضا کے حصول کے لئے وہ بھاگ دوڑ کر رہا ہے، اور اس کی راحت کا کیا بیان جب اسے معلوم ہو جائے کہ انسانوں میں سے کوئی بھی اسے نفع اور نفصان پہنچانے پر قادر نہیں ہے۔
مخلص کیسے بنا جائے؟
شیطان بندے پر نظریں لگائے بیٹھا ہے، وہ اس کے نیک اعمال کو کسی طرح ضائع کروا دینا چاہتا ہے، اگر بندے سے نیک عمل نہیں چھڑوا سکتا تو وہ اس میں کجی اور کوتاہی کروانے کی کوشش کرتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اعمال ِ صالح کے صدور کے ساتھ انکی حفاظت کا خصوصی اہتمام بھی بندے پر لازم ہے، اور اخلاص کو قائم رکھنے کے عوامل درج ذیل ہیں:
٭۔ دعا
ہدایت اللہ کی جانب سے ملتی ہے، بندے کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے، وہ جس جانب چاہے اسے موڑ دے، پس بندے کو اللہ سے ہدایت کی دعا مانگنے کا اہتمام کرنا چاہئے، اور اس پر دوام کا بھی۔ اس سلسلے میں رب سے دعا مانگنی چاہئے:
۔ اللھمّ مصرّف القلوب صرّف قلوبنا علی طاعتک۔اے اللہ، دلوں کو پھیرنے والے، ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی جانب پھیر دے۔)
۔ یا مصرّف القلوب ثبّت قلبی علی دینک۔ (اے دلوں کو پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما۔)
حضرت عمر بن خطابؓ کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے:
’’اللھم اجعل عملی کلہ صالحاً، واجعلہ لوجھک خالصاً، ولا تجعل لاحدٍ فیہ شیئاً‘‘۔
(اے اللہ، میرے تمام اعمال کو نیک بنا دیتا، اور انہیں اپنے لئے خالص بنا دے، اور کسی کا اس میں کوئی حصّہ نہ رکھنا‘‘۔
٭اخفائِ عمل
ہر نیک عمل کی تشہیر اخلاص کو خطرے میں ڈال دیتی ہے، فرائض اعلانیہ ادا کئے جائیں، تاکہ نیکی کی فضا بنے، لیکن نوافل کو اخفاء میں رکھنا بھی اخلاص برقرار رکھنے کی ایک تدبیر ہے، جس طرح برے اعمال کی تشہیر نہیں کرنی چاہئیے، اسی طرح نیکیوں کا بھی اشتہار نہیں لگانا چاہئے، کہ ریا، شہرت اور تذکرہ اخلاص کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
٭۔ نیکی میں اوپر والوں پر نگاہ
اعمال ِ صالحہ میں ہمیشہ اپنے سے اوپر والوں پر نگاہ رہنی چاہئے، نیکی کا معیار اپنے زمانے کے لوگ نہیں بلکہ قرون ِ اولی کے صالحین، صدیقین،
شہداء اور انبیاء علیھم السلام کو بنائیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہیں کے راستے پر تم چلو‘‘۔ (الانعام، ۹۰)
٭۔ عدم قبولیت کا خوف
عمل ِ صالح کے ہر مرحلے پر اس بات کا خوف رہے کہ کہیں یہ عمل ضائع نہ ہو جائے، سلف صالحین اللہ تعالی سے نیک اعمال کی توفیق کے ساتھ اس کی حفاظت کی دعا مانگا کرتے تھے، اللہ تعالی نے بھی متنبہ کیا:
’’تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔‘‘ (النحل، ۹۰)
حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہﷺ، (قرآن کی آیت) ’’اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور ان کے دل اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف پلٹنا ہے‘‘ (المؤمنون، ۶۰) اس شخص کے بارے میں ہے جو چوری کرتا ہے، زنا کرتا ہے اور شراب پیتا ہے، اور اسے اللہ عزو جل کا خوف لاحق ہوتا ہے؟ فرمایا: نہیں اے بنتِ ابوبکر صدیقؓ، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جونماز پڑھتے، روزے رکھتے، اور صدقہ دیتے ہیں،اور وہ ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ ان کے اعمال قبولیت کے درجے پر نہ پہنچیں‘‘۔ (رواہ الترمذی و امام احمد)
اخلاص یہ ہے کہ بندہ عمل سے پہلے، اس کے دوران اور اسکے بعد بھی اپنی نیت کو خالص رکھے۔
٭۔ بندوں کی پزیرائی سے بے پرواہ
مخلص شخص اپنے نیک اعمال کی بندوں سے پزیرائی سے پھولتا نہیں، بلکہ اسے یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ یہ عمل ضائع نہ ہو جائے، وہ پہلے سے بڑھ کر اللہ کی بندگی میں لگ جاتا ہے، اور اس میں اللہ کی خشیت بڑھ جاتی ہے، وہ یقین رکھتا ہے کہ بندوں کی مدح بھی ایک فتنہ ہے۔وہ رب سے اس فتنے سے بچنے کی دعا مانگتا ہے۔
؎ دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
٭٭٭
اہم بلاگز
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
مایوسی ایک ایجنڈا
مشہور کہاوت ہے کہ دنیا امید پر قائم ہے، دنیا میں انسان امیدوں کے سہارے زندگی گزار تاہے۔ اُمید خواہشات کے پورے ہونے کی توقع یا صورت کے پیدا ہونے کو کہتے ہیں۔ اسی لیے اُمید کے مترادف الفاظ آرزو، جستجو، خواہش اور توقع ہیں۔ اگر اس لفظ کے متضاد الفاظ دیکھیں تومایوسی، قنوط اور ناامیدی ہیں۔ امید تبدیلیوں کے در وا کرتی ہے ۔ ایک کسان جب ایک بنجر زمیں پر محنت کرتاہے اور اس زمین کو کاشت کاری کے قابل بناتاہے ۔اس کی محنت اورجدوجہد کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کے پیچھے یہی امید ہوتی ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا کہ یہ زمین پیداوار لائے گی یہی وہ محرک ہے جس کی وجہ سے کسان اپنے آرام کو ترک کردیتاہے اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتں لگا تاہےاور پھر ایک دن اس کی امیدیں بر آتی ہیں کہ غلّہ وہ منڈی میں فروخت کرکے پیسے وصول کرتاہے۔ انسان جاگتے ہوئے خواب تو نہیں دیکھتاہے مگر یہی وہ اُمیدیں ہوتی ہیں جس کو وہ بطور خواب اپنے مستقبل کے لیے سجاتاہے اور جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتی تویہی وہ خواب ہیں جو چکنا چور ہوجاتے ہیں گویا وہ ناامیدی کے دلدل میں دھنسنا شروع ہوتاہے۔ ناامیدی انسان کے حوصلوں کے لیے سم قاتل ہے یہ انسان کو کچھ کرنے سے پہلے ہی کچھ نہ کرسکنے کا پیغام سنا کر بٹھا دیتی ہے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے کے لیے انسان کو دین اسلام نے یہ پیغام دیا ہے کہ اللہ کی رحمت سےمایوس نہ ہو۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کا مشاہد یہ بتارہا ہے کہ حکمران اور ادارے قوم کے اندر مایوسی پھیلانے کے ایجنڈے پرکاربند ہیں اور اس میں بھی ان کا ہدف نوجوان ہیں حکمران اور تمام ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ مایوسی اور نا اُمیدی کے سائے جتنے زیادہ گہرے ہوں گے ان کا کام اتنا آسان ہوگا۔ پاکستانی قوم جس وقت آزادی کی دولت سے سرفراز ہوئی اس وقت معیشت کمزور تھی، فوج کمزور تھی بمعنی جدید ہتھیار، سرکاری دفاتر میں کاغذ اور فرنیچر بھی پورے نہ تھےمسائل کا ایک جنگل تھا مگراس وقت اُمیدوں کے ساتھ قوم آگے بڑھ رہی تھی مگر انگریزوں کے شاگردوں نے جب اقتدار پر ایوّب خان کی صورت میں قبضہ کیا تو ان شاگردوں نے اپنے استادوں کے اصول کو اپنایا اور وہ یہ تھا کہ قوم کو مایوس کردیا جائے۔ پاکستان کے اندر مایوسی کی وہ کیفیت پیدا ہوچکی ہے کہ لوگ خود کشیوں پر اتر آئے ہیں وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ فوج کی سیاست میں مداخلت کے تقریباً ستّر سال ہوچکے ہیں۔ ایسے میں عوام کا کسی جماعت پراعتماد کرنا آسان نہیں ہیں۔ عوام صحرا کے اس مسافر کی طرح جو راستہ بھٹک چکا ہے سفر کرتے کرتے کسی جگہ سوجائے کہ اب موت ہی آنی ہے۔
ایک مسلمان جس کے دل میں ایمان کی شمع جل رہی ہو وہ کبھی بھی مایوس ہوکر نہیں بیٹھے گا کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا رب اللہ ہےاس کی رحمت بڑی وسیع ہےاس کی رحمت سے مایوس ہونا گویا کفر ہے۔...
مسلمانوں کی حکمرانی اور زوال
اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی حکمرانی کو ایک سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جب علمی، سائنسی، ثقافتی، اور سیاسی ترقی اپنے عروج پر تھی۔ ابتدائی اسلامی خلافتیں، جیسے خلافت راشدہ، اموی خلافت، عباسی خلافت، اور بعد ازاں عثمانی سلطنت، اسلامی دنیا کی طاقت اور عظمت کی علامت رہی ہیں۔ ان حکمرانوں نے نہ صرف اپنے علاقوں کو وسیع کیا بلکہ علمی اور فکری میدانوں میں بھی دنیا کی قیادت کی۔ تاہم، تاریخ کے ساتھ ساتھ، یہ عظیم سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں، اور مسلمانوں کی حکمرانی رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔ یہ زوال محض کسی ایک وجہ کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ مختلف عوامل اس کی بنیادی وجوہات بنے۔
مسلمانوں کی ابتدائی کامیابیوں کے پیچھے چند بنیادی عوامل کارفرما تھے۔ اسلامی تعلیمات نے مسلمانوں کو علم، انصاف، مساوات، اور اتحاد کی طرف راغب کیا۔ خلافت راشدہ کا دور خاص طور پر ایک مثالی دور سمجھا جاتا ہے، جہاں خلیفہ اور عوام کے درمیان مضبوط تعلقات تھے اور انصاف کا بول بالا تھا۔ علم و تحقیق کو فروغ دیا گیا اور بغداد، دمشق، قرطبہ اور دیگر شہروں میں علمی و سائنسی مراکز قائم کیے گئے۔
اسلام نے نہ صرف مذہبی اعتبار سے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا بلکہ مسلمانوں کو ایک متحد امت میں تبدیل کر دیا۔ اسی اتحاد اور ایک مضبوط قیادت کی بدولت مسلمان دنیا کے مختلف خطوں میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔مسلمانوں کی حکمرانی کا زوال مختلف وجوہات کی بنا پر ہوا، جن میں اندرونی اور بیرونی عوامل دونوں شامل تھے۔
مسلمان حکمرانوں میں جب قیادت کا فقدان پیدا ہوا، اور حکومتیں بدعنوانی کا شکار ہوئیں، تو ان کے درمیان آپسی اختلافات بڑھتے گئے۔ خلافت راشدہ کے بعد، اموی اور عباسی خلافتوں میں حکمرانوں کے اندرونی خلفشار نے سلطنت کو کمزور کر دیا۔ یہ خلفشار اور سیاسی تنازعات اس حد تک بڑھ گئے کہ مسلمانوں کی اجتماعی وحدت کو ٹھیس پہنچنے لگی۔
خلیفاؤں کی جگہ بادشاہت اور موروثی نظام نے لے لی، اور خاندانی مفادات قومی مفادات پر غالب آنے لگے۔ انصاف اور احتساب کی وہ روح جو خلافت راشدہ میں دیکھی گئی تھی، رفتہ رفتہ غائب ہو گئی، اور حکمران عیش و عشرت میں مبتلا ہو گئے۔
ابتدائی مسلم دور میں علم و تحقیق کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ مسلمان سائنسدانوں، فلسفیوں، اور ماہرینِ ریاضی نے دنیا کو نئے افکار دیے اور یورپ کو بھی علمی روشنی فراہم کی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ، علم کی اس جستجو میں کمی آتی گئی۔ علم و تحقیق کی جگہ قدامت پسندی اور روایت پرستی نے لے لی، اور علمی ترقی رک گئی۔
عباسی دور کے بعد، مسلمانوں میں علمی زوال تیزی سے بڑھا۔ مدارس میں صرف مذہبی علوم پر زور دیا گیا، اور دنیاوی علوم اور سائنسی تحقیق کو نظرانداز کیا گیا۔ اس علمی جمود نے مسلمانوں کو دنیا کی باقی قوموں سے پیچھے دھکیل دیا، اور یورپ میں ہونے والی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کے برعکس، اسلامی دنیا میں کوئی بڑا علمی انقلاب نہ آ سکا۔
مسلمانوں کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ اندرونی اختلافات اور فرقہ واریت تھی۔ خلافتِ عباسیہ کے بعد،...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...