کسی بھی عمل کو اللہ کے لئے خالص کرنا اس کی قبولیت کی بنیاد ہے، جو کام اللہ کے لئے اخلاص سے نہ کیا جائے، وہ اس کے ہاں قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا، گویا وہ ایسا عمل ہے جس پر اجر نہ ملے، ایک ایسی نماز جس کا ثواب نہ ہو، اور ایسا صدقہ جس کی قدر و قیمت عدم اخلاص نے ختم کر دی ہو، اور عامل کی مراد پوری نہ ہوئی ہو۔
دین ِ اسلام میں اعمال اللہ کے لئے خالص ہونے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اللہ کے لئے اخلاص برتنا ایک وسیع مضمون ہے اور یہ تمام اعمال پر حاوی ہے، اور اخلاق کا اعلی مرتبہ ہے، اخلاص میں کمی یا اس سے محرومی کی صفات میں ریا، لوگوں میں شہرت، اور تذکرہ حاصل کرنے کی نیت اور کوشش ہے۔
ایک دل میں اللہ سے اخلاص اور مدح اور ستائش سے محبت اور طمع جمع نہیں ہو سکتے، بالکل اس طرح جیسے آگ اور پانی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔
اخلاص کا مادہ ’’خ ل ص‘‘ ہے، جس کے معنی ’’پاک صاف اور خالص ہونے ‘‘ کے ہیں۔ ایسی محبت جس میں سچائی ہو، اور جو خالص ہو۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
’’اخلاص یہ ہے کہ ہر ما سوا اللہ سے دل کو پاک کر لیا جائے‘‘۔ (مفردات القرآن، امام راغب، ص۱۳۳)
لسان العرب میں ہے: ’’اخلاص ریا کو ترک کر دینے کا نام ہے، جبکہ دین کو اللہ ہی کے لئے خالص کر لیا گیا ہو‘‘۔
ابراہیم بن ادھم کہتے ہیں: یہ اللہ تعالی کے ساتھ صدق ِ نیت برتنا ہے۔ (الاحیاء، ج۴، ص۴۷۴)
یعقوب المکفوف کا قول ہے: ’’مخلص اپنی نیکیوں کو اس طرح چھپاتا ہے جیسے وہ اپنی برائیاں چھپاتا ہے‘‘۔
جنیدؒ کا قول ہے: ’’اخلاص اللہ اور بندے کے درمیان رازہے، نہ فرشتہ اسے جانتا ہے کہ اسے لکھے، اور نہ شیطان اس تک پہنچ سکتا ہے کہ اسے خراب کرے، اور نہ ہوائے نفس، کہ اس کی جانب مائل ہو‘‘۔
سہل سے کہا گیا: نفس پر سب سے زیادہ بھاری کیا چیز ہے؟ کہا: اخلاص، کیونکہ نفس کی اس تک رسائی نہیں۔
مکحول کہتے ہیں: ’’اگر انسان چالیس دن اخلاص کے ساتھ گزار لے تو اسکے قلب کی حکمت کے چشمے اس کی زبان پر رواں ہو جاتے ہیں‘‘۔
ابو سلمان الدارانی کا قول ہے: ’’اگر انسان اخلاص اختیار کر لے تو وسوسے اور ریا اس سے دور بھاگ جاتے ہیں‘‘۔ (مدارج السالکین، ج۲، ص۹۲)
مخلِص اور مخلص میں فرق
مخلِص: وہ ہے جس نے اپنی عبادت کو اللہ کے لئے خالص کر لیا، جس نے اپنے نفس کو اللہ کے لئے خالص کر لیا اور اپنا سر اسکے سامنے جھکا دیا۔۔
مخلص (لام پر زبر کے ساتھ): وہ ہے جسے اللہ اپنے لئے خالص کر لے، اسے رسالت اور کتاب عطا کرے، یعنی انبیاء علیھم السلام کو اللہ نے اپنے لئے خالص کر لیا۔ معبود کا بندے کو اپنے تقرب کے لئے خالص کر لینا۔
قرآن کریم میں ہے:
{الا عبادک منھم المخلصین} (الحجر، ۴۰)
’’سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے خالص کر لیا ہو۔‘‘
قرآن کریم میں اخلاص اور اس کے مشتقات کا استعمال اکتیس (۳۱) مرتبہ ہوا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کے لئے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر‘‘۔ (سورۃ البیّنۃ، ۵)
یعنی ہر زمانے میں صحیح اور درست دین یہی رہا ہے کہ خالص اللہ کی بندگی کی جائے، اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی کی آمیزش نہ کی جائے، ہر طرف سے رخ پھیر کر انسان صرف ایک اللہ کا پرستار اور تابع فرمان بن جائے۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص۴۱۵)
اور فرمایا:
’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں‘‘۔ (الانعام، ۱۶۲۔۱۶۳)
اعمال میں اخلاص کی حیثیت ایک خوشبودار پھول کی ہے، جس کی خوشبو چاروں جانب پھیلتی ہے، بلکہ اس کی خوشبو ہی اس کی موجودگی کی خبر دیتی ہے۔ اللہ تعالی کا مخلص بندہ سعادت کی راہوں پر آگے آگے چلتا ہے، وہ بندوں کی خوشنودی سے بالکل پاک ہو جاتا ہے، اس پر اللہ کی رضا حاصل کرنے کی دھن سوار ہو جاتی ہے، جو اسے آگے لے کر جاتی ہے، اعمال میں اللہ سے اخلاص برتنا ہی دین کی اصل ہے، اور یہی عمل کا تاج بھی ہے۔اخلاصِ عمل بندے کے وقار کو بڑھاتا ہے، اس میں بلند ہمتی پیدا کرتا ہے، یہ راہ سعادت کی راہ ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو اخلاص کا حکم دیا:
’’تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار، دینِ خالص اللہ کا حق ہے‘‘۔ (الزمر، ۲۔۳)
پس عمل کی اصلاح نیت کی درستی سے ہے، اور نیت کی درستی دل کی اصلاح سے ہوتی ہے۔ اس آیت میں دو نکات بیان کئے گئے ہیں، ایک مطالبہ اللہ کی عبادت کا ہے، اور دوسرا ایسی عبادت کا جو دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے کی جائے، یعنی آدمی اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے، بلکہ اسی کی پرستش، اسی کی ہدایت کا اتباع اور اسی کے احکام و اوامر کی اطاعت کرے۔اس کی تشریح درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے جو ابنِ مردویہؒ نے رشید الرّقاشی سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: ہم اپنا مال دیتے ہیں اس لئے کہ ہمارا نام بلند ہو، کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا؟ حضورؐ نے فرمایا: نہیں۔ اس نے پوچھا: اگر اللہ سے اجر اور دنیا کی ناموری دونوں کی نیت ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی کوئی عمل بھی قبول نہیں کرتا جب تک وہ خالص اسی کے لئے نہ ہو‘‘۔ (دیکھئے: نفہیم القرآن ، ج۴، ص۳۵۶۔۳۵۷)
سورۃ الاعراف میں فرمایا:
’’اور اسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لئے خالص رکھ کر۔‘‘ (سورۃ الاعراف، ۲۹)
یعنی رہنمائی اور تائید و نصرت و حفاظت کے لئے خدا ہی سے دعا مانگے، مگر شرط یہ ہے کہ اس چیز کی دعا مانگنے والاآدمی پہلے اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر چکا ہو۔ یہ نہ ہو کہ زندگی کا سارا نظام تو کفر و شرک اور معصیت اور بندگیِ اغیار پر چل رہا ہو اور مدد خدا سے مانگی جائے، کہ اے خدا، یہ بغاوت جو ہم تجھ سے کر رہے ہیں، اس میں ہماری مدد فرما۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۲۱۔۲۲)
اخلاص سعادت کی راہ ہے
بندہ صدق ِ دل سے اللہ کی بندگی میں لگ جائے، اور اس کے پیش ِ نظر صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو، اور لوگوں کی ملامت یا ستائش کی پرواہ نہ کرتا ہو، تو حقیقتاً اس نے سعادت کی راہ پا لی، نیک کام کی تکمیل اور اس کی برکت کا حصول اخلاص ِ نیت کے ساتھ وابستہ ہے۔اللہ تعالی نے اپنے نبی ؐ کو بھی اخلاص کی تلقین صرف ایک سورہ میں تین مرتبہ کی:
’’تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لئے خالص کرتے ہوے‘‘۔ (الزمر، ۲)
’’اے نبیؐ، ان سے کہو: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کو اللہ کے لئے خالص کر کے اس کی بندگی کروں‘‘۔ (الزمر، ۱۱)
’’کہہ دو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر کے اسی کی بندگی کروںگا‘‘۔ (الزمر، ۱۴)
پس عمل کی درستی نیت کے درست اور خالص ہونے سے ہے، اور نیت کا خالص ہونے دل کے خالص ہونے سے ہے۔
اللہ تعالی کے ہاں اعمال کی قبولیت میں دو چیزیں شامل ہے، ۱۔ اس عمل کا اللہ کے لئے خالص ہونا، ۲۔ اس کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہونا۔
’’محض ریا کا ظہور فرض نماز اور روزے کی ادائیگی میں نہیں ہوتا، البتہ صدقاتِ واجبہ (زکوۃ) اور حج یا ان جیسے ظاہری اعمال میں اس کا صدور ہو جاتا ہے، جن سے نفع ملنے کی توقع ہوتی ہے، اور ان میں اخلاص ہی مطلوب ہے،اور مسلمان کو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح ان کا عمل نیچے چلا جائے گا، اور اس ریا کار کو اللہ کی جانب سے سزا اور عقوبت ملے گی۔
محدیثین علماء کی اکثریت نے جن میں امام بخاریؒ نے اپنی’’ صحیح‘‘ میں، مقدسیؒ نے ’’عمدہ الاحکام‘‘ میں، بغویؒ نے ’’شرح السنہ‘‘ اور ’’مصابیح السنہ‘‘ میں، امام نوویؒ نے ’’اربعین النووی‘‘ میں،کتاب کا آغاز ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ سے کیا ہے، جو اعمال میں نیت کے اخلاص کی اہمیت کا ثبوت ہے۔ سفیان ثوریؒ کہتے ہیں: ’’میں نے اپنی نیت سے بڑھ کر کسی چیز کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ یہ بار بار مجھے پچھاڑ دیتی ہے‘‘، اور اللہ کی رضا کے حصول کی نیت کے بغیر طاقت بے مصرف ہے، یہ ایک رائیگاں کوشش ہے، اور ایسا عمل ہے جو لوٹا دیا جاتا ہے، اللہ تعالی غنی و حمید ہے، جو عمل خالص اس کے لئے نہ ہو وہ اسے قبول ہی نہیں کرتا۔ ابو امامہ الباھلی ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا، اور کہنے لگا: یا رسول اللہ ﷺ ایک شخص اللہ کی رضا اور ناموری کے لئے جہاد کرتا ہے تو اسے کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔ اس نے تین مرتبہ اپنا سوال دہرایا، اور آپ ﷺ نے ہر بار یہی فرمایا کہ اس کے لئے کچھ نہیں ہے، پھر فرمایا: اللہ تعالی اس کے سوا کسی عمل کو قبول نہیں کرتا جو خالصتاً اسی کے لئے ہو، اور اس کی رضا مندی کی طلب میں ہو‘‘۔ (رواہ ابو داود والنسائی)
فضیل بن عیاضؒ دنیا کی امتحان گاہ میں اعمال کی درستی کا معیار بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’کہ وہ عمل خالص ہو اور درست ہو، ان سے پوچھا گیا: اے ابو علی، خالص اور درست ہونے سے کیا مراد ہے، انہوں نے کہا: اگر عمل خالص ہو لیکن درست نہ ہو تو وہ قبول نہیں کیا جا تا، اور اگر وہ درست طریقے پر ہو مگر خالصتاً اللہ کی خاطر نہ ہو تو بھی قبول نہیں ہوتا، خالص ہونا یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کی خاطر ہو، اور درست ہونا یہ ہے کہ وہ کام رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہو۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا، لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے‘‘۔ (رواہ مسلم، ۴۷۷۹)
کن کاموں میں اخلاص برتنا ضروری ہے؟
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اخلاص کا تعلق عبادات سے ہیں، ہمیں خالصتاً للہ عبادت کرنی چاہئے، نماز، روزے اور تلاوت ِ قرآن اور دیگر عبادات اور دعوت الی اللہ کے کام کرتے وقت اپنی نیت میں کھوٹ کا جائزہ لے لینا چاہئے، یہ خیال درست نہیں، ہر بھلائی کرتے ہوئے نیت کو خالص کر لینا ضروری ہے، خواہ وہ ہمسائے کی خبر گیری ہو،یا صلہ رحمی، یا والدین سے احسان، کیونکہ یہ سب بھی عبادت ہیں۔ ہر وہ کام جو اللہ کی محبت میں اور اس کی رضا پانے کے لئے کیا جائے اس میں اخلاص کا ہونا ضروری ہے، حتی کہ باہمی معاملات میں خیر کا ہر رویہ بھی اخلاص کا تقاضا کرتا ہے، جیسے تجارت میں سچ کو اختیار کرنا، بیوی سے حسن سلوک، اولاد کی تربیت میں محاسبہ، اور ہر وہ کام جو بظاہر دنیا کے معاملات کہلاتا ہے، اس میں بھی اخلاص برتنا ضروری ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم جو خرچ بھی اللہ کی رضا کے حصول کے لئے کرتے ہو، تمہیں اس پر اجر ملتا ہے، حتی کہ اس نوالے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو‘‘۔ (متفق علیہ؛ الریاض الصالحین، ۲۹۴)
ہر عمل جو اللہ کی محبت اور اس کی رضا کے لئے کیا جائے وہ قول ہو یا فعل،ظاہری یا باطنی، تو وہ عبادت ہے، اور اس میں اخلاص کا وجود ضروری ہے، خواہ وہ کوئی معمولی عمل ہی کیوں نہ ہو۔
اخلاص کیا ہے؟
عمل کرتے ہوئے نیت کو اللہ کے لئے خالص کر لینا، کہ آپ کو اللہ کی رضا ہی مقصود ہے، نہ دکھاوا ہے نہ شہرت ، تعریف کی تمنا ہے نہ اونچا منصب درکار ہے، اور نہ کسی کی ہم نشینی۔ آپ کو اس عمل پر کسی کی مدح سرائی چاہئے ، نہ کسی کی ملامت کا خوف لاحق ہو، اور پھر جب آپ کی نیت اللہ کے لئے خالص ہو گی اور آپ اسے بندوں کے لئے مزین بنانے کی کوشش نہیں کریں گے، تو آپ نے اخلاص کے تقاضے کو پورا کر دیا۔
فضیل بن عیاضؒ کہتے ہیں: ’’کسی عمل کو لوگوں کے لئے کرنا شرک ہے، اور لوگوں کی خاطر کسی عمل کو ترک کرنا ریا ہے، اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کو ان دونوں سے بچا دے‘‘۔
تمام اعمال میں اخلاص کے لئے ضروری ہے کہ بندہ اس فرمان ِ الہی کو نگاہ میں رکھے: ’’کہہ دیجئے، میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں ‘‘۔ (الانعام، ۱۶۲۔۱۶۳)
اخلاص کا اثر
اللہ سے اخلاص برتنا ایک ایسا وصف ہے جو بندے کو اعلی درجات تک پہنچا دیتا ہے، ابو بکر بن عیاش کہتے ہیں: ’’ابو بکر صدیقؓ کو یہ فضیلت نماز اور روزوں کی کثرت کی بنا پر نہیں ملی، بلکہ اس چیز کی بنا پر ملی جو انکے دل میں تھی، (یعنی اخلاص للہ)‘‘۔
عبد اللہ بن مبارکؒ کا قول ہے: ’’بہت سے چھوٹے اعمال کو ان کی نیت بڑا بنا دیتی ہے، اور کتنے ہی بڑے اعمال کو ان کی نیت چھوٹا کر دیتی ہے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، کہ رسول کریم ﷺ نے( پر خلوص چھوٹے عمل کی بڑائی بیان کرتے ہوئے )فرمایا: ’’کوئی شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور صدقہ کرتا ہے، تو اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے، اور اس کی ایسے پرورش کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی اونٹنی کے بچے کو پالتا ہے، حتی کہ وہ پہاڑ جتنا یا اس سے بھی بڑا ہو جاتا ہے۔ (رواہ مسلم، ۱۷۵۹)
’’اور اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے‘‘۔ (البقرۃ، ۲۶۱)
یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہو گا۔ جو خدا ایک دانے پر اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اگ سکتے ہیں، اس کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو اس طرح نشو نما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گنا ہو کر تمہاری طرف پلٹے۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص۲۰۳)
جب بندے کا اخلاص قوی ہو جائے، اور اس کی نیت خالصتاً لوجہ اللہ ہو، اور وہ اپنے عمل کا اخفاء بھی کرے (یعنی اسے پوشیدہ رکھے)، تو اسے اپنے رب کا قرب حاصل ہو جاتا ہے، اور وہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا، رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق : سات قسم کے لوگ اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوں گے ۔۔ اور ان میں ذکر کیا، ایک شخص کا، جس نے صدقہ کیا تو اسے اس قدر چھپا کے دیا کہ اس کے دائیں ہاتھ کے دینے کو بایاں ہاتھ بھی نہ جان پایا۔(متفق علیہ)
تھوڑے عمل کی کثیر برکت
جب بندہ خالص نیت کے ساتھ عمل ِ صالح کرتا ہے، اگرچہ وہ کوئی آسان سا عمل ہو، تو اللہ اسے قبول کرتا ہے، اور اسے بڑھا دیتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے جنت میں ایک شخص کو پھرتے دیکھا، جس نے ایک ایسے درخت کو کاٹ دیا تھا، جو راستے میں چلنے والے لوگوں کو تکلیف دیتا تھا۔ (رواہ مسلم، ۴۷۸۴)
خالص نیت کا اجر
اللہ تعالی اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے، یہ اس کا کرم ہی ہے کہ بندہ نیک عمل کا ارادہ باندھتا ہے، اور اسے کرنے کے وسائل نہیں پاتا تو وہ اسے اس کی نیت ہی پر اجر سے نواز دیتا ہے۔حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک غزوے پر جا رہے تھے، راستے میں آپؐ نے فرمایا: ’’مدینہ میں ایسے کچھ لوگ موجود ہیں، کہ تم نے کوئی راستہ یا وادی ایسی پار نہیں کی، مگر وہ (اجر میں) تمہارے ساتھ تھے، ان کو مرض نے روک لیا تھا۔(رواہ مسلم، ۱۹۱۱) ایک روایت کے مطابق ’’وہ اجر میں تمہارے شریک ہیں ‘‘۔
حضرت انسؓ کی روایت ہے، کہ ہم رسول ِ کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک سے واپس لوٹ رہے تھے، جب آپؐ نے فرمایا: ’’ہم نے مدینہ میں کچھ ایسے لوگ چھوڑے ہیں، ہم نے کوئی درہ یا وادی طے نہیں کی جس میں وہ ہمارے ساتھ نہ ہوں، ان کو عذر نے روک لیا تھا‘‘۔ (رواہ البخاری، ۲۶۸۴)
حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رب اللہ تبارک وتعالی سے بیان کرتے ہیں(حدیث قدسی): ’’اللہ تعالی نے نیکیاں اور برائیاں لکھ رکھی ہیں، اور انہیں بیان کر دیا ہے، پس جس نے نیکی کا ارادہ کیا، اور اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ اس کی ایک کامل نیکی لکھ لیتا ہے، اور جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ کے ہاں اس کی دس سے سات سو گنا تک بڑھا چڑھا کر نیکیاں لکھی جاتی ہیں‘‘۔(متفق علیہ)
داود الطائی کا قول ہے: ’’میں نے تمام بھلائیوں کو حسن ِ نیت میں جمع دیکھا ہے‘‘۔
یحیی بن کثیر کہتے ہیں: ’’نیت کرنا سیکھو، کیونکہ یہ عمل سے زیادہ وقعت رکھتی ہے‘‘۔
اخلاص کے ثمرات
کوئی نیک عمل اخلاص کے بغیر قبول نہیں ہوتا، اور اخلاص نہ ہو تو بڑے سے بڑا نیک عمل بھی رد کر دیا جاتا ہے، خواہ وہ عالم کا علم اور اس کی اشاعت ہو، یا مالدار کا راہِ خدا میں خرچ، حتی کہ شہید کی شہادت بھی رائیگاں چلی جاتی ہے۔مخلص شخص پر اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہے، وہ شیطان کے تسلط اور اغوا سے محفوظ رہتا ہے، اللہ تعالی نے شیطان کا قول ذکر فرمایا ہے:
’’اس نے کہا: تیری عزت کی قسم! میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا، بجز تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص کر لیا ہے‘‘۔ (ص، ۸۲۔۸۳)
اللہ تعالی اپنے مخلص بندوں کو نافرمانوں اور ان کی مکاریوں سے محفوظ رکھتا ہے:
’’ایسا ہوا، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں، درحقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا‘‘۔ (یوسف، ۲۴)
اخلاص سے خیر کے دروازے کھلتے ہیں؛ سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم جو بھی کام اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرو گے، تمہارا ایک درجہ بلند اور رفیع ہو جائے گا‘‘۔(رواہ البخاری،۲۲۵۶)
اخلاص قلب و شعور کو طمانیت عطا کرتا ہے، رحمن کا خالص بندہ ایسی راحت اور سرور محسوس کرتا ہے جو کسی اور کو نہیں ملتی، کیا یہ راحت کم ہے کہ تمام انسان اس کے لئے نیچے ہو گئے، اور ایک رب ہے جس کی رضا کے حصول کے لئے وہ بھاگ دوڑ کر رہا ہے، اور اس کی راحت کا کیا بیان جب اسے معلوم ہو جائے کہ انسانوں میں سے کوئی بھی اسے نفع اور نفصان پہنچانے پر قادر نہیں ہے۔
مخلص کیسے بنا جائے؟
شیطان بندے پر نظریں لگائے بیٹھا ہے، وہ اس کے نیک اعمال کو کسی طرح ضائع کروا دینا چاہتا ہے، اگر بندے سے نیک عمل نہیں چھڑوا سکتا تو وہ اس میں کجی اور کوتاہی کروانے کی کوشش کرتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اعمال ِ صالح کے صدور کے ساتھ انکی حفاظت کا خصوصی اہتمام بھی بندے پر لازم ہے، اور اخلاص کو قائم رکھنے کے عوامل درج ذیل ہیں:
٭۔ دعا
ہدایت اللہ کی جانب سے ملتی ہے، بندے کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے، وہ جس جانب چاہے اسے موڑ دے، پس بندے کو اللہ سے ہدایت کی دعا مانگنے کا اہتمام کرنا چاہئے، اور اس پر دوام کا بھی۔ اس سلسلے میں رب سے دعا مانگنی چاہئے:
۔ اللھمّ مصرّف القلوب صرّف قلوبنا علی طاعتک۔اے اللہ، دلوں کو پھیرنے والے، ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی جانب پھیر دے۔)
۔ یا مصرّف القلوب ثبّت قلبی علی دینک۔ (اے دلوں کو پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما۔)
حضرت عمر بن خطابؓ کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے:
’’اللھم اجعل عملی کلہ صالحاً، واجعلہ لوجھک خالصاً، ولا تجعل لاحدٍ فیہ شیئاً‘‘۔
(اے اللہ، میرے تمام اعمال کو نیک بنا دیتا، اور انہیں اپنے لئے خالص بنا دے، اور کسی کا اس میں کوئی حصّہ نہ رکھنا‘‘۔
٭اخفائِ عمل
ہر نیک عمل کی تشہیر اخلاص کو خطرے میں ڈال دیتی ہے، فرائض اعلانیہ ادا کئے جائیں، تاکہ نیکی کی فضا بنے، لیکن نوافل کو اخفاء میں رکھنا بھی اخلاص برقرار رکھنے کی ایک تدبیر ہے، جس طرح برے اعمال کی تشہیر نہیں کرنی چاہئیے، اسی طرح نیکیوں کا بھی اشتہار نہیں لگانا چاہئے، کہ ریا، شہرت اور تذکرہ اخلاص کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
٭۔ نیکی میں اوپر والوں پر نگاہ
اعمال ِ صالحہ میں ہمیشہ اپنے سے اوپر والوں پر نگاہ رہنی چاہئے، نیکی کا معیار اپنے زمانے کے لوگ نہیں بلکہ قرون ِ اولی کے صالحین، صدیقین،
شہداء اور انبیاء علیھم السلام کو بنائیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہیں کے راستے پر تم چلو‘‘۔ (الانعام، ۹۰)
٭۔ عدم قبولیت کا خوف
عمل ِ صالح کے ہر مرحلے پر اس بات کا خوف رہے کہ کہیں یہ عمل ضائع نہ ہو جائے، سلف صالحین اللہ تعالی سے نیک اعمال کی توفیق کے ساتھ اس کی حفاظت کی دعا مانگا کرتے تھے، اللہ تعالی نے بھی متنبہ کیا:
’’تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔‘‘ (النحل، ۹۰)
حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہﷺ، (قرآن کی آیت) ’’اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور ان کے دل اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف پلٹنا ہے‘‘ (المؤمنون، ۶۰) اس شخص کے بارے میں ہے جو چوری کرتا ہے، زنا کرتا ہے اور شراب پیتا ہے، اور اسے اللہ عزو جل کا خوف لاحق ہوتا ہے؟ فرمایا: نہیں اے بنتِ ابوبکر صدیقؓ، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جونماز پڑھتے، روزے رکھتے، اور صدقہ دیتے ہیں،اور وہ ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ ان کے اعمال قبولیت کے درجے پر نہ پہنچیں‘‘۔ (رواہ الترمذی و امام احمد)
اخلاص یہ ہے کہ بندہ عمل سے پہلے، اس کے دوران اور اسکے بعد بھی اپنی نیت کو خالص رکھے۔
٭۔ بندوں کی پزیرائی سے بے پرواہ
مخلص شخص اپنے نیک اعمال کی بندوں سے پزیرائی سے پھولتا نہیں، بلکہ اسے یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ یہ عمل ضائع نہ ہو جائے، وہ پہلے سے بڑھ کر اللہ کی بندگی میں لگ جاتا ہے، اور اس میں اللہ کی خشیت بڑھ جاتی ہے، وہ یقین رکھتا ہے کہ بندوں کی مدح بھی ایک فتنہ ہے۔وہ رب سے اس فتنے سے بچنے کی دعا مانگتا ہے۔
؎ دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
٭٭٭
اہم بلاگز
فون کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ایک ایسی داستان بن چکا ہے جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ یہ داستان ظلم، بے حسی، اور بین الاقوامی سیاست کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک معصوم پاکستانی خاتون امریکی جیل میں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ آخر انہوں نے امریکی صدر کو فون کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال نہ صرف ہماری قیادت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ہماری اجتماعی قومی غیرت کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ امریکی صدر کو ایک فون کال کرنا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے حکمرانوں کے لیے اپنی کرسی بچانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ یہ فون کال نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے، لیکن قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ایک قوم کی بیٹی ہے؟ وہ قوم جو ان سے جواب طلب کر رہی ہے کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟
شاید مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ترجیحات میں عوام اور قومی غیرت کو شامل ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ فون کال ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اور یہی سوچ عافیہ کیس کو پسِ پشت ڈالتی رہی۔
اگر ہمارے حکمران امریکی صدر کو فون کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے، تو یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ کال نہ کی گئی، اور ڈاکٹر عافیہ آج بھی اپنے وطن واپسی کی منتظر ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہکیا ہم اپنی قیادت سے ایسے اقدامات کی امید رکھ سکتے ہیں جو قومی غیرت کے عکاس ہوں؟ یا ہمیں ہمیشہ یہی سننا پڑے گا کہ "فون کیوں نہیں کیا؟"
ہائے ایسی زبوں حالی میں میرےذہن میں آیا کہ میں تاریخ میں پلٹ کر دیکھوں میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزتوں کی حفاظتوں کے متعلق کیسی حساسیت رکھتے تھےتومجھےکسی مسلمان کی نہیں بلکہ غیرمسلم کی بیٹی عدی بن حاتم کی بیٹی قیدیوں کی قطاروں میں کھڑی نظرآئی جس کےسرپہ دوپٹہ نہ تھا میرے نبی اپنی پاک ردا سے اس کے بدن کوڈھانپااور اس کو بحفاظت اپنے پاس رکھا۔جب اس کےاہلخانہ کے متعلق معلوم ہواتو آپ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بحفاظت اس کواس کےگھرپہنچایا۔
اےمیری ملت کے حکماء و محافظو! آپ کس کے طریقے کی پیروی کرنے چل پڑےہیں؟ دیکھیں تو اسوۂ رسول کیسے انمول اسباق لیے ہمارے سامنے موجودہے یہاں سے سیکھیے۔اپنی بیٹی ،اپنی عزت،اپنادرد سمجھتےہوئےعافیہ کی حریت کےلیےاقدامات۔۔۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر !
یہ مہربانی نہیں بلکہ فرضِ عین ہےجس...
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
آگ کی دستک
کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بد ترین آگ نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہر دل رکھنے انسان کو غمگین کررہی ہے ، مکینوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک ان کے بڑے بڑے آسائشوں سے ہھرے ہوئے، ٹھنڈے ،گرم گھر جل کر خاکستر ہو جائیں گے ۔
لاس اینجلس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ نے تباہی مچادی ہے۔ جس میں اداکاروں اور امرا کے محلے بھی شامل ہیں۔
دولاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوگئے ،55 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں ایکڑ زمین پر موجود ہر چیز جل چکی ہے۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواوں کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل حد مشکل تھا، تین دن بعد بھی خراب موسم امدادی کاموں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا میں بڑی آفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ مکینوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے ،آگ بجھانے کے لئے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ 1000 سے زائد لوگ لا پتہ ہیں۔
مگردنیا ہر حکمرانی کرنے والی اے بڑی طاقت ہم انسانیت کی خاطر،کسی تعصب کے بغیر تمہاری آہوں کے ساتھ آہیں ملائیں گے ، تمہارے غم کو اپنا غم سمجھیں گے ، کھانے پینے کا انتظام کریں گے بستروں کا ڈھیر لگادیں گے،زخمیوں سے بھائی چارگی دکھائیں گے ان کے زخموں پر مرہم ہم بھی رکھیں گے کیونکہ ہم تو اس کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا،اس دین کے پیروکارہیں جو ہر انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔
مگرظالموں کا ساتھ دینے والے ظالموں!
تم اس آگ کے شعلوں اور اس تباہی کو دیکھو۔۔۔
ذرا سوچو یہ آگ تو تمہاری اپنی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔
تمہارے ہی پاس تو ایسی تباہی کے تمام ذرائع موجود ہیں۔۔۔
آگ لگانے کی ہر چنگاری تمہارے اعمال میں چھپی ہے۔۔۔
ذرا سوچوتمہارا کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان اس ایک معصوم جان کے برابر بھی نہیں جسے تم نے ناکردہ گناہ کے بدلے میں روند ڈالا۔۔۔
ایسے اربوں ڈالر تو تم لاشوں پر سیاست کرکے پھر کمالوگے۔۔۔۔
ذرا سوچو نسلوں کو مٹا دینے کی ہوس میں تم نے شہر مٹی میں ملا دیئے۔۔۔
ذرا سوچو زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسبپتالوں کو شرانگیزی کا اڈہ ہونے کا بہانہ کرکے نیست ونابود کردیا پھر خیموں کو بھی آگ کی بھینٹ چڑھادیا ۔۔۔
ذرا سوچو تمہارے شرمناک مظالم نے انسانیت کی عظمت کو ذلت میں بدل دیا ۔۔۔۔
مگر اس سب کے باوجود رحم کرنے والے نے اتنی بڑی آگ میں سے 5 سے 7 کے افراد کے علاوہ ہزاروں کو بچا لیا۔
کاش اس کے رحم کاایک حصہ ہی تم نے پایا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے دیگر انسانوں کو اپنے کتوں کے برابر ہی سمجھا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے مذہب کے تعصب میں ہزاروں بے قصوروں اور معصوموں کو قتل نہ کیا ہوتا ۔
کاش تم نے انسانوں سے محبت ہمارے دین سے سیکھی ہوتی تو آج تم بھی اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کرتے۔۔۔
کاش تم نے انصاف کا درس ہماری کتاب سے سیکھا ہوتا تو آج تم دنیا کے دلوں پرحکمرانی کرتے۔۔۔
اور شاید تمہاری دنیا بھرمیں...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔