دنیا کی سب سے بڑی سچائی اسلام ہے ، جو کہ دین فطرت، فلاح کا مذہب اورنجات کا واحد راستہ ہے ۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا انبیاء علیہم السلام اور علمائے ربانین کا طریقہ ہے، جوکہ سب سے بڑی نیکی، اور سب سے بہترین کام ہے ۔ ظاہر ہے جو لوگ اسلام کی دعوت دیں گے ان کی پہلی ذمہ داری ہوگی کہ وہ خود اس پر عمل بھی کریں، نیک بنیں اور اپنے اعمال وکردار سے اس سچائی کو ثابت کریں ۔ قرآن مجید فرقان حمید میں اسی بات کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا میں مسلمان ہوں‘‘ ( حم السجدہ33 )۔ اللہ تعالیٰ نے دین حق کی تبلیغ کے لئے انبیاء کرام کو بھیجا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھروں کے جواب میں پتھر نہیں برسائے اور گالیوں کا جواب گالم گلوچ سے نہیں دیا ، بلکہ حکمت سے کام لیتے ہوئے بڑے احسن انداز سے فریضہ تبلیغ سر انجام دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال رکھا کہ جہاں جس انداز میں سمجھانے کی ضرورت ہوتی وہی انداز اختیار فرماتے ، اور احساس رکھتے کہ دعوت کا ایسا انداز نہ ہو کہ جس سے مدعوئین اکتاہٹ محسوس کرنے لگیں۔ اور اب خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ، اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی کتاب قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی بطور نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد دین اسلام کی تبلیغ آپ کے اور ہمارے بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذمہ ہے۔ تبلیغی جماعت اس ضمن میں احسن خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ دنیا بھر میں دین اسلام کی تبلیغ کی محنت کے لیے عالم اسلام کے مسلمانوں کا سالانہ اجتماع ہر سال رائے ونڈ میں منعقد ہوتا ہے ۔ بلاشبہ حج کے بعد یہ عالم اسلام کا دوسرا بڑا اجتماع ہے ، جس میں لاکھوں فرزندان اسلام ذہن میں تبلیغ اسلام کی فکرلیے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے شہروں ، قصبوں، دیہاتوں اور بیابانوں سے شرکت کرتے ہیں۔ منتظمین تبلیغی جماعت نے پاکستان بھر کے تبلیغی حلقوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ، اور ہر سال عوام کے بڑھتے ہوئے رش کے پیش نظر ایک حصے کا اجتماع ہوتاہے تاکہ پاکستان اور دنیا بھر سے شرکت کرنے والے مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مبلغین اسلام کے اجتماع رائے ونڈ میں ملکی، سرحدی، صوبائی امتیازات، قومی لسانی تعصبات اور گروہ بندیاں سب خاک میں مل جاتے ہیں۔ یہاں سب بحیثیت مسلمان، امیر و غریب، حاکم و محکوم، پنجابی و پٹھان، بلوچی و سندھی، گورا ہو یا کالا، عربی ہو یاعجمی، رنگ و نسل کے اختلافات سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور سجدہ ریز ہو کر پوری دنیا کے انسانوں کی ہدایت کے لئے دعا، اور تبلیغ کے موثر طریقہ کار پر حکمت عملی مرتب کرتے ہیں۔
بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری، عقائد کی خرابی، اور اعمال کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ جہالت و گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں ، تو وہ اس سلسلے میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے، آپ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی ، اب ختم ہوتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، پہلے یہ دینداری خواص تک اور مسلمانوں کی ایک خاص تعداد میں رہ گئی تھی ، پھر اس کا دائرہ اس سے بھی تنگ ہوا اور ’’اخص الخواص‘‘ میں یہ دینداری باقی رہ گئی ہے ، جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں اب وہ بے نورتھیں، دوسری بات انہوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے اس لیے آپ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس میں پھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرے، اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا ، کیوں کہ ان سے وہی فیضیاب ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے دین کی طلب ہواور وہ اس کے طالب بن کر خود مدارس و مکاتب اور خانقاہوں میں آئیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں، اس لیے مولانا الیاس ضروری سمجھتے تھے کہ اس ’’دعوت و تبلیغ‘‘ کے ذریعہ ایک ایک دروزاہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کی طلب پیدا کی جائے کہ وہ اپنے گھروں اور ماحول سے نکل کر تھوڑا سا وقت علمی و دینی ماحول میں گزاریں تاکہ ان کے دل میں بھی سچی لگن اور دین سیکھنے کی تڑپ پیدا ہو، اور یہ کام اسی دعوت والے طریقہ سے ہوگا جو طریقہ اور راستہ انبیاء کرام علیہم السلام کاتھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرامؓ کو پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر جب اس دعوت و تبلیغ سے عام فضا دینی بنے گی تو لوگوں میں دین کی رغبت اور اس کی طلب پیدا ہوگی ۔ اور پھر مولانا محمد الیاس خود سراپا دعوت بن کر ’’دعوت و تبلیغ ‘‘ والے کام کو لے کر بڑی دلسوزی کے ساتھ ’’میوات‘‘ کے ہر علاقہ میں پھرے ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازہ پر دستک دی ، دین کے لئے محنت کی اور فاقے برداشت کئے، گرمی و سردی سے بے پرواہ ہو کر تبلیغی گشت کئے اور بے چین و بے قرار ہو کر راتوں کواللہ ربّ العزت کے حضور روتے گڑگڑاتے اور دعا کرتے اور پھر اپنی ہمت و طاقت ، مال ودولت سب کچھ ان میواتیوں پر اور ان کے ذریعے اس تبلیغی کام پر لگا دیا۔ مولانا الیاس کی یہ عالمگیراحیائے اسلام کی تحریک کوئی معمولی کام اور تحریک نہیں بلکہ یہ پورے دین کو عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک تھی۔ مولانا الیاس نے اس دعوت و تبلیغ والے کام کے طریقہ کار کے طور پر چھ اصولوں کے علاوہ کچھ مطالبے اور دینی تقاضے بھی رکھے ہیں جس کے تحت اس دعوت و تبلیغ والے کام کی محنت و ترتیب اور مشورہ کے لیے روزانہ کچھ وقت دینا، ذکر و اذکار اور اعمال و افعال میں دین اسلام کی پابندی کرنا، ہفتہ میں ایک بار گشت سے علاقہ کے لوگوں سے ملنا، اور انہیں اس دعوت و تبلیغ والے کام پر نکلنے کیلئے آمادہ اور تیار کرنا، سال میں چالیس دن اللہ کے راستے میں دعوت و تبلیغ کیلئے لگانا، اور پھر چار مہینے کے لئے اللہ کے راستے میں نکل کردین اور اس دعوت و تبلیغ والے کام کو سیکھنے اور پھر ساری زندگی اسی کام میں صرف کرنا۔ مولانا محمد الیاس نے اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے ایام کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جس کے تحت یہ تبلیغی جماعتیں اپنا وقت گزارتی ہیں ایک وقت میں گشت، ایک وقت میں اجتماع، ایک وقت میں تعلیم، ایک وقت میں حوائج ضروری کا پورا کرنا اور پھر ان سارے کاموں کی ترتیب و تنظیم ، گویا کہ یہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے ۔ مولانا الیاس فرماتے ہیں کہ ہمارے طریقہ کار میں دین کے واسطے جماعتوں کی شکل میں گھروں سے دور نکلنے کو بہت زیادہ اہمیّت حاصل ہے، اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ آدمی اس کے ذریعے اپنے دائمی اور جامد ماحول سے نکل کر ایک نئے صالح اور متحرک دینی ماحول میں آجاتا ہے اور پھر اس دعوت و تبلیغ والے سفر اور ہجرت کی وجہ سے جو طرح طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں پیش آتی ہیں اور در بدر پھرنے میں جو ذلتیں اللہ کے لیے برداشت کرنا ہوتی ہیں ان کی وجہ سے اللہ کی رحمت خاص طور پر متوجہ ہوتی ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ سے خاص الخاص تعلق جب بنتا ہے جبکہ عزیز و رشتہ داورں کی نسبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ آج تبلیغی جماعت کی محنت کی بدولت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے افراد تہجد گزار، متقی، پرہیز گار اور دین کے داعی بنتے نظر آرہے ہیں۔ تبلیغی جماعت مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکال کرخالق کی بندگی و غلامی میں لانے، صحابہ کرامؓ جیسی پاکیزہ صفات و عادات کو اپنانے اور پیدا کرنے، صبح جاگنے سے لے کر رات سونے تک، کھانے پینے سے لے کر حاجات تک، گویا کہ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک پوری زندگی میں دین لانے کی کوشش اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے اور خالق ہی سے سب کچھ ہونے کا یقین دلوں میں پیدا کرنے میں مصروف عمل ہے۔ ہماری اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ اور سربلندی کے لئے بڑھ چڑھ کر خدمات سرانجام دیں تاکہ اللہ ربّ العزت کی رضا حاصل ہو، آمین ۔