نوازشریف کی رہائی اورسانحہ ساہیوال

روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے صاحبزادے روزگار کی تلاش میں عراق گئے اور ایک سال بعد واپس آئے تومال سے لدے اونٹ ان کے ہمراہ تھے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا’’ بیٹا اتناما ل کہاں سے ملا‘‘
بیٹے نے جواب دیا ’’ تجارت کی‘‘حضرت عمرؓنے پوچھا’’ تجارت کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟‘‘بیٹے نے جواب دیا ’’ چچا نے قرض دیا‘‘۔ چچا سے مراد کوفہ کاگورنر تھا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً گورنر کو مدینہ طلب کیا، جو صحابی رسول پاکﷺ بھی تھے۔ ان سے حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’کیا وہاں بیت المال میں اتنی دولت آگئی ہے کہ ہرشہری کو قرضہ دے سکتے ہو؟‘‘گورنر نے جواب دیا : ’’نہیں ، ایسا تو نہیں‘‘۔حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’پھر تم نے میرے بیٹے کو قرض کیوں دیا، اس لئے کہ وہ میرا بیٹا ہے؟ میں تمہیں معزول کرتا ہوں کیونکہ تم امانت داری کے اہل نہیں ہو۔‘‘پھر حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے کو حکم دیا ’’سارا مال بیت المال میں جمع کرادو، اس پر تمہارا کوئی حق نہیں‘‘۔دیکھنا ہوگا کہ کیا امت مسلمہ میں اس کردار کا کوئی حکمران موجود ہے جو عشق نبیﷺ اور عدل فاروقی کا نعرہ تو لگاتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے؟
ہرملک کا ایک قانون ہے جس پر علمدرآمد ہر شہری پر واجب ہے ،قانون ہر شہری کو بنیادی حقوق کی فراہمی کی بات کرتا ہے اور اگر کوئی ادارہ ایسا نہیں کرتا تو قانون حرکت میں آکر اس ادارے سے جواب طلبی کرتا ہے۔ مہذب معاشرے میں قانون کی اہمیت سے انکار نہیں ،اس کی اہم وجہ انصاف کی فراہمی ہے۔
نوازشریف کی رہائی کی خبر سن کر حیرت نہیں ہوئی ،اور ہونی بھی نہیں چاہیے جو لوگ کہتے ہیں انصاف ہوا ،وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں اور جو لوگ کہتے ہیں انصاف نہیں ہوا وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں۔ قانون کی باتیں قانون دان زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اس سے ایک دن پہلے بھی ایسی ایک خبر سننے کو ملی جس نے چند ماہ قبل پورے پاکستان کو غمگین کردیاتھا۔ سانحہ ساہیوال کے تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیاگیا۔ اس طرح کے فیصلوں نے پہلے بھی عدالتی نظام اورانصاف کی فراہمی کے جھوٹے دعوئوں پر کئی سوالات چھوڑ رکھے ہیں جن کے جواب آج تک کبھی کسی نے نہیں دیے۔ سانحہ ساہیوال کیس اور نواز شریف کی رہائی کے معاملے پر اسی عدالتی نظام پر مزید سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اورامید یہ ہی ہے کہ ان کا بھی کوئی جواب نہیں ملے گا۔
سانحہ ساہیوال میں عدالت نے ملزمان کو شک کافائدہ دے کر بری تو کردیا مگر یہ نہیں بتایا کہ اگر یہ ملزمان نہیں تو پھر کون ہے؟ کیا وہ بچے ذمے دار ہیں جو فائرنگ کی زد میں آنے سے بچ گئے تھے ؟ اگر پولیس نے فائرنگ نہیں کی تو پھر یقینا ان بچوں نے ہی اپنے والدین کو قتل کیاہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ایس ٹی ڈی کے اہلکار اوریہ بچے ہی جائے وقوعہ پر موجود تھے۔ اس کے علاوہ تو کوئی موجود ہی نہیں تھا۔ عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے مان لیتے ہیں کہ وہ اہلکار بے گناہ ہیں تو پھر ان بچوں کو پکڑا جائے جنہوں نے فائرنگ کرکے اپنے والدین کا قتل عام کیا۔
اس ملک کو چلانے اور اسے سنوارنے اور اسے بگاڑنے میں دو ہی شعبوں کا عمل دخل زیادہ ہے ،ایک سیاست ہے جس میں بے پناہ طاقت ہے ،اور اسی طاقت کے بل بوتے پر پورے ملک کی قسمت کا فیصلہ صرف چند منٹوں میں کیاجاسکتا ہے۔ اس فیصلے کو روکنے اورٹوکنے کی طاقت رکھنے والا شعبہ قانون ہے جو ہر غلط سیاسی فیصلے کے خلاف دیوار بن جاتا ہے۔ تاہم پاکستان میں یہ دونوں محکموں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک طاقت کے بل بوتے پر فیصلہ کرتا ہے اور دوسرا اسے اپنی طاقت سے ختم کردیتا ہے۔ ان دونوں محکموں کے بیچ میں عوام سینڈویچ بنی ہوئی ہے ۔ ان دونوں محکموں کے فیصلوں کا اثر عوام پر پڑتا ہے اور عوام پرلازم کیاجاتا ہے کہ وہ ان کے فیصلوں کو تسلیم کریں ورنہ انجام سے سب ہی واقف ہیں۔ لہذا عوام ناچاہ کر بھی دونوں محکموں کے فیصلے کو تسلیم کرلیتی ہے۔
عدالتی نظام کی بہتری اورانصاف کی فراہمی کی باتیں یہ دونوں محکمے ہر وقت کرتے رہتے ہیں تاہم اگر ماضی میں جھانکا جائے تو قیام پاکستان سے لے کر اب تک کئی ایسے فیصلے ہمارے سامنے موجود ہیں جن میں ان دونوں محکموں کی بے پناہ طاقت نے عوام کو اذیت میں ہی مبتلا کیا۔ ہمارا قانون کہتا ہے کہ جو کیس عدالت میں زیر سماعت ہو اس پر میڈیا میں کوئی بحث نہ کی جائے ،لیکن فیصلہ آنے کے بعد بھی اس پر بحث توہین عدالت کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ بڑا ہی عجیب قانون ہے اس ملک کا جہاں امیر اورغریب کا فرق واضح رکھا ہوا ہے۔ نوازشریف طبی بنیادوں پر رہائی کی خبر سن کر اس لیے بھی حیرت نہیں ہوئی کہ جیلوں میں قید ہزاروں قیدی ایسے ہیں جنہیں سخت طبی ضمانتوں کی ضرورت ہے مگر افسوس کے ا نہیں علاج تک میسر نہیں۔ دوسری طرف میاں صاحب کی رہائی طبی بنیادوں پر کرکے عدالت نے اپنے اوپر مزید ایک سوالیہ نشان کا اضافہ ہی کیا ہے ، پہلا سوال تو یہ ہے کہ قانون یہ واضح کرے کہ آیا طبی بنیادوں پر ضمانت تمام قیدیوں کو دی جاتی ہے یا آفر صرف آمراء کے لیے ہیں؟ دوسرا سوال بنتا ہے کہ آیا شک کا فائدہ دے کر تمام ملزمان بری کیے جاتے ہیں یا یہ رعایت صرف ایس ٹی ڈی کے اہلکاروں پر لاگو ہوتی ہے؟
نچلے درجے کی بات کی جائے تو ایک موٹر سائیکل سوار صرف ہیلمنٹ نہ پہنے تو اسے 500روپے چالان ادا کرنا پڑتا ہے مگر یہ ہی خلاف ورزی اگر کوئی پراڈو گاڑی میں بیٹھ کر سیٹ بیلٹ نہ باندھے تو یہاں قانون سرے سے اندھا ہوجاتا ہے۔ غریب کے لیے بیت المال سے بھی کوئی امداد نہیں ،مگر امیر کے لیے خزانوں کے منہ تک کھول دیے جاتے ہیں۔ غریب کے لیے اسپتالوں میں کوئی علاج نہیں ،مگر امیر کے لیے سرکاری خزانے سے باہر ممالک تک علاج فراہم کیاجاتا ہے۔ غریب کو سیکورٹی ٹھریٹس پر کوئی تحفظ نہیں ،امیر کے لیے افسران بالا تک کی ڈیوٹیاں لگا دی جاتی ہیں۔ ایمبولینس میں پڑے مریض کے لیے کبھی راستہ کلیئر نہیں کیاگیا،امیر کے لیے سڑکیں تک سننان کردی جاتی ہیں۔
پاکستان صرف ان سیاسی افراد اورقانون پر راج کرنے والوں کا ہے۔ اس کے علاوہ اس ملک میں کسی کے لیے کچھ نہیں رکھا۔ قانون کی باتیں بھی اب مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ۔ جہاں سے انصاف کی توقع ہو اوروہیں پر ایک سو روپے والا اسٹامپ پیپر 300روپے میں دستیاب ہو تو عوام کیسے انصاف کی فراہمی کو تسلیم کرے؟ عدالتی نظام اس قدر پیچیدہ ہے کہ غریب تو ہمت نہیں کرسکتا یہاں تک آنے کی ۔ ایک ان پڑھ شخض اگر کبھی عدالتی چکروں میں پڑ جائے تو وہاں سے اس کی روح بھی باہر نہیں نکل سکتی۔ اس کی نسلیں بھی اس کیس کو بھگتی رہتی ہیں۔
سانحہ ساہیوال کیس کا فیصلہ قانون نے دے دیا، مگر اب دوسرا شعبہ سیاست اسے تسلیم نہیں کررہا اور اب وہ اسے دوبارہ ری اوپن کرانے کے چکر میں عوام کو آسرے دیے جارہا ہے تاکہ مشتعل عوام کو لولی پاپ دیاجاسکے۔ معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں یہاں پر یہ اصول رائج ہے کہ ایک تھپڑ مارتا ہے تو دوسرا گال سہلاکر تسلی دیتا ہے لیکن اندر سے یہ دونوں ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کے امیر اورغریب کے چکر والے قانون کو صرف غریب نے ہی تسلیم کرنا ہے،امیرپر اس کی کوئی پابندی نہیں۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں