نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

میڈم! نماز کا وقت ہو گیا ہے، میں نماز پڑھنے جاؤں؟ لیکچر کے دوران ایک طالبعلم نے کھڑے ہو کر اجازت مانگی۔ اس کی نظریں گھڑی پر تھیں یوں لگ رہا تھا کہ ایک لمحہ کی بھی دیر اس کا بہت بڑا نقصان کر دے گی۔ میں نے اسے اجازت دی اور طلبہ کا پورا گروپ اللہ کے حضور حاضری کو چل دیا۔ پڑھنے میں یہ کوئی برسوں پرانی بات لگ رہی ہوگی لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے، پچھلے ہی برس کا واقعہ ہے جب میری تعیناتی ملک کی ایک نامور یونیورسٹی میں تھی۔ طالب علم کے اس ایک سوال نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔
ہم ہمیشہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہمارے بچے کچھ اچھا نہیں کررہے۔ ہمارے بچے بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ہماری نسلیں تباہ و بربادی کے دہانے پر ہیں، بڑوں کا ادب نہیں کرتے، بچوں کو بات کرنے کی تمیز نہیں ہے وغیرہ وغیرہ مگر! ایک سیکنڈ رکیے اور اپنی سوچ کو ایک نیا زاویہ دیجیے۔ آپ بینک جاتی ہیں تو آج بھی آپ کو خاتون ہونے کے ناتے ترجیح دی جاتی ہے۔ آپ کسی مال میں جاتے ہیں تو بچے، بوڑھوں کو رستہ دینے میں دیر نہیں کرتے، بڑوں کا احترام آج بھی بچے کرتے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ ہم غلط تجزیہ کررہے ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہم 20 فیصد برائی کو 80 فیصد اچھائی پر حاوی سمجھ لیتے ہیں اور ناامیدی کی عینک کو اپنی آنکھوں سے اتارنا ہی نہیں چاہتے۔
ہمارے بچے ہماری قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں اور یہی تو ہیں ہمارا مستقبل۔ آپ یونیورسٹی میں جائیں گے تو آپ کو جہاں جدید تراش خراش میں ملبوس طالبات نظر آئیں گی وہیں آپ کو باپردہ بھی ملیں گی۔ آپ کو حی علی الفلاح کی آواز پر لبیک کہتے طلبہ سے یونیورسٹی کے پرئیر ہال اور مسجدبھری ملے گی۔ ایسے دیانتدار طلبہ بھی دکھائی دیں گے جو ٹیسٹ میں کوئی سوال نہ آنے پر وہ سوال تو چھوڑ دیتے ہیں مگر نقل نہیں کرتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی اچھائیوں کی تعریف کریں ان کی حوصلہ افزائی کریں لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ تعریف کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں مگر تنقید کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں