فواد چوہدری اور’’ بے شعور طبقہ‘‘

فواد چوہدری بھی نجانے کیا ’’عجب ‘‘چیز ہے،جو نجانے قدرت نے تحریک انصاف کوہی کیوں تفویض کی ہے ۔دوسروں کو اِس ’’نعمت ربی‘‘سے نجانے کن مصلحتوں کے باعث محروم رکھا یا شایدکہ اپوزیشن کی کسی نیکی کے طفیل اِن کو عطا نھیں ہوئے، اور یہ کہ تحریک انصاف کے نجانے کن خراب کرموں کا عمل دخل ہے کہ ان کے حصے میں آگئے ۔میرا تو یہی کہناہے کہ شاید خداجن سے ناراض ہوتا ہے یا جنھیں ذلیل کروانا ہو،انھیں فواد چوہدری دے دیتا ہے اِس لیے کہ فواد چوہدری کا ہر کام، طریقہ، اندازِ گفتگو باعث شرمندگی وندامت اور سر جھکانے کا سبب بنتا ہے،فواد چوہدری جتنے قابل ہیں اتنے نظر نھیں آتے ،ان کا طرزعمل اور گفتگو کسی بھی طرح یہ ثابت نھیں کرتا کہ یہ پڑھے  لکھے، سنجیدہ یا جہاندیدہ شخص ہیں، (وہ الگ بات ہے کہ تعلیمی ڈگریاں بہت رکھتے اور شاید قانون دان بھی ہیں) اکثر سمجھ دار اور حکومتی اعلیٰ منصب پر بیٹھے ہونے کے باوجود بات ایک بھی ڈھنگ کی نھیں کرتے،گفتگو میں پائیداری اور پختگی نام کو بھی نہیں، جب بھی کوئی بات اورمثال دیتے ہیں تو احمق و بے وقوف کاسا گمان ہونے لگتا ہے ،اِن کی طرف سے کہی گئی کسی بھی بات کے نہ ہاتھ ہوتے ہیں نہ پیراور نہ ہی کوئی قانونی وشرعی حیثیت ۔بس اپنی منتشر سوچوں اور خیالی پلاؤ میں پکے خیالوں کوہی اپنی کل دنیا سمجھتے ہیں ـاپنے غلط نظریات وافکار کا پر چار کرنا خوب جانتے ہیں ،اپنی غلط و صحیح سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر سطح تک چلے جاتے ہیں ،بلکہ غلط کو درست اور درست کو غلط بنانے کے لیے ایڑھی چوٹی تک کازور لگادینے میں اپنا کوئی ثانی نھیں رکھتے ،اکثر اپنی ’’ذہانت و ومتانت ‘‘کے باعث ’’آسمان سے گراکھجور میں اٹکا‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں ، مگر بچ جانے پر’’میں نہ مانوں‘‘کی پھراُسی فضول بحث ومباحثہ کی غلط روش پر واپس آجاتے ہیں ، اکثر غلط ہی سوچتے اور بغیر دلائل احمقانہ باتیں ہی کرتے ہیں جو خود کوتو نقصان پہنچاتی ہی ہیں ،اِن سے منسلک دوسروں کوبھی لے ڈوبتی ہیں ، اور یہ کہ اپنی وزارت میں ہر’’ ایرے غیرے نتھو کھیرے‘‘کوبھی نوازنا اپنا فرض اولین جانتے ہیں ، اِن کے دور میں کام کرنے والے اپنے کام سے گئے اور کام نہ کرنے والوں کی چاندی ہوئی پڑی ہے ، اپنی وزارت میں نجانے کہاں کہاں سے اکٹھا کیا گیا ’’کچرا‘‘ سائنس وٹیکنالوجی میں دے مارا اور اپنی اِس حرکت پر پھولے نھیں سماتے، کمال کے ایکٹرمعروف سیاستدانوں میں بہت جلد نمایاں حیثیت سے اپنا مقام بنانے جارہے ہیں، حماقتوں اور بیوقوفیوں کا ایوارڈ بھی حاصل کرنے والے ہیں ،اِن کے ایسے کاموں میں بڑتے رہنے کی شرح اگر یہی رہی تو بہت جلد ممکن ہے کہ جہالت کا عالمی ایوارڈ بھی اِن کے نام ہوجائے ، ویسے عقل وخردسے عاری ہونے کا ایوارڈ پہلے ہی اپنے نام کرچکے ہیں ، پتا نھیں اِن کے اندر انعامات حاصل کرنے اور ایوارڈ پانے کی اتنی ہوس وحرص کیوں چھپی ہوئی ہے کہ کسی جگہ بھی اپنا سفر تمام نھیں کرتے ،شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں اکثر اپنی حکومت میں بھی ایک وزارت سے دوسری وزارت میں دھکیلے جانے کی خواری سے بھی دوچار ہوچکے ہیں،  اب جب کہ وہ پچھلے دنوں ندیم افضل چن کے استعفیٰ کے بعد معاون خصوصی وزیراعظم کے طور پر بھی جانے جاتے تھے ،وہ الگ بات ہے کہ شاید قدرت کو عمران خان کی کسی ادا پر پیار آگیا کہ اب تک انھیں فواد چوہدری سے بچائے ہوئے ہیں، فواد چوہدری کی ناکامی اور اِدھر اُدھربھٹکنے میں اِ ن کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ’’خوداعتمادی‘‘ اور’’ میں‘‘سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اِن کا بس ایک ہی کہناہے کہ صرف میری بات سنو، کیوں کہ میں وزیر ہوں ، اِس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ معاملہ قادیانی ماہر معاشیات عاطف میاں کی 18 رکنی اکنامک ایڈوائزری کونسل میں بطور ممبر پرائیویٹ سیکٹرتقرری کا ہو یا رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے بقول اِن کے صفر کے چاند کی غلط اطلاع کامعاملہ یا کوئی اور معاملہ،یہ ہر معاملے میں ٹانگ اُڑانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ،اور کچھ نہ جانتے ہوئے بھی سب جانتا ہوں  کی کیفیت سے دوچار ہیں ،جب قادیانی عاطف میاں کی اکنامک ایڈوائزری کونسل میں تقرری کا معاملہ تھا تو اِن کی تقرری واپس لینے کے لیے عوامی ردعمل پربھی انھوں نے عاطف میاں کی مخالفت کرنے والے افراد کی خوب کلاس لیتے ہوئے انہیں’’چند انتہاء پسند‘‘ مخالفت کرتے ہیں کہہ کر اپنی کم علمی ،کم فہمی ،جہالت اور فتنہ قادیانیت سے لاعلمی پر خود کو چار چاند لگائے تھے ، اِسی طرح ایک تازہ معاملے پر بھی جوکہ صفر کے چاند پر پیدا ہوا، فواد چوہدری صرف اور صرف اپنی ہی ہانکے جارہے ہیں ،اور رویت ہلال کمیٹی والوں سے کہہ رہے ہیں کہ آپ نے صفر کے چاند کی غلط اطلاع دی معافی مانگیں ، اور انھیں’’بے شعور طبقہ سے نوازا، قرآن مجید میں ہے کہ ’’کیا علم والے اور جاہل برابر ہوسکتے ہیں‘‘اس آیت کا شکار ہوئے ،اپنی کم علمی اور جہالت پر ماتم اور سوگ مناتے دوسروں پر کوتاہی کے الزامات کی بوچھاڑ کرتے چاند کی اسلامی وشرعی حیثیت اور اِس کودیکھنے کے متعلق  رویت بارے یکسر نابلد  پائے گئے، نبی پاکﷺ کے بتائے گئے طریقے  ٍ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو، چاند دیکھ کر افطار کرو ‘‘سے مکمل لاعلم نکلے، فواد چوہدری آپ کی ساری کہی گئی باتیں اپنی جگہ ،مگرسند کہاں ہے کہ آپ کی کہی گئی باتیں ٹھیک اور درست ہیں ،اور یہ کہ سائنس کی کہی گئی باتوں، کیے گئے مشاہدات میں دم ہے، حتیٰ کہ بہت بار ہوچکا کہ سائنسی باتیں دم توڑ جاتیں ہیں،مگر شریعیت کی رو سے کی گئی باتیں اپنی جگہ حقیقت اور مسلمہ ہوتی ہیں، بالکل ٹھیک کہلاتی ہیں، پھر یہ کہ اگر چاند دیکھنے میں کوئی غلطی ہوبھی جائے تو اُس کا حل موجود ہے کہ’’اگر روزہ نہیں رکھا تواِس کی قضاء ہوگی یعنی دوبارہ روزہ رکھاجائے ‘‘اور یہ کہ انسان خطا کا پتلا ہے، غلطی ہو ہی جاتی ہے اور اللہ معاف کرنے والا ہے ،اور یہ کہ آپ کیسے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کاکہا اور سائنس کا بتایا ہوا ہی ٹھیک  کام کررہا ہے، شریعت میں بتائی گئی باتیں اور نشانیاں اب کسی کام کی نہ رہی ہیں، فواد چوہدری صاحب آپ سے صرف اتنا ہی کہناہے کہ اپنی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی انجوائے کریں، اور اِ س وزارت میں ہر غیر مستحق فرد کو خوب نوازیں ،اپنی منسٹری اور اِس میں موجود سکون اور راحتوں کا مزہ لیں ،یہ کیا چاند کے پیچھے پڑگئے ہیں ،یہ کام آپ کا نھیں ہے یہ رویت ہلال کمیٹی کا ہے، جو ازل سے چل رہااور ابدتک جاری رہے گا ،اِسے کوئی روک نھیں سکتااور اِس کے سامنے ساری دنیاکی ٹیکنالوجی فیل ہے، چاند کب نکلا اور کب غروب ہواکی حتمی صورت حال بتانے سے بے بہرہ،نجانے آپ کس علم اور فہم کے غرور میں اتنے بہکے جارہے ہیں کہ نہ خود کا خیا ل نہ خیال یاراں ،اور یہ جو آپ بار بار اسلام کی بنیادی اساس جیسے اہم اور احساس ایشوز پرصحیح بات کہنے والوں کو ’’چند انتہاء پسند‘‘اور بے شعور طبقہ‘‘ جیسے القابات سے نوازتے ہیں اس  سے باز آجائیں ،خدانخواستہ کہیں آپ ایک گورنرکے بعد دوسرے وزیر نہ بن جائیں جو کسی سانحے سے دوچار ہوگئے ہو،قوم ممتاز قادری کے ہاتھوں اسلامی اشعار کا مذاق اڑانے والے گورنر سلمان تاثیر کا انجام ابھی بھولی نھیں ، اور یاد رکھیں کہ آپ کے مرنے کے بعد آپ کا نمازجنازہ پڑھانے کے لیے انہی علماء  اکرام میں سے ہی کسی سے درخواست کی جائے گی جنہیں آپ بے شعور طبقہ سمجھتے ہیں، اور یہ بھی یاد رکھیے گا کہ رویت ہلال کمیٹی میں ہر مسلک کے جید علماء شامل ہیں اور اِس کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان صاحب کا احترام ہر طبقہ فکر کے اندر موجود ہے اور وہ ایک مستند عالم دین ہیں۔

جواب چھوڑ دیں