جنرل پرویز مشرف کے دور میں جنگ کی ہواؤں کا رخ موڑ تو دیا گیا تھا لیکن ایک عارضی مشکل کو ٹال دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مستقل جنگ ہم پر مسلط ہو گئی جس کا تسلسل تا دم تحریر جاری ہے۔ ممکن ہے جس سونامی کو ٹالنے کے لیے ہم (مسلمانوں) نے بزدلی کا مظاہرہ کیا ، وہ سونامی ہمارے لیے سمندر کے اس طوفان کی طرح ثابت ہوتا جو جھاگ کی طرح بیٹھ جایا کرتا ہے۔ امکان اسی بات کا ہے کہ اس وقت کی امریکی بہادر سرکار نے ہم سے دو ٹوک جواب مانگا ،کہ تم اپنی زمین، سمندر، ایئر بیسز اور اپنی فضائیں ہمیں استعمال کرنے دو گے یا ہم زبر دستی کریں۔ کہاں امریکہ اور کہاں پاکستان، یہ دھمکی پاکستان کے لیے بہت دہلا دینے والی تھی۔ یہاں اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اصل میں دھمکانے والا کبھی بہادر نھیں ہوا کرتا ، بلکہ وہ اپنے بہادر، طاقتور، ظالم اور جابر ہونے کی دھونس دے کر ہماری ہمت کو آزمانا چاہ رہا ہوتا ہے۔ پاکستان کے سامنے جس انداز میں امریکہ نے اپنی بات دو ٹوک انداز میں رکھی ٹھیک اسی طرح ایران اور ترکی کے سامنے بھی رکھی ہوگی۔ یہ تین ممالک ہی ایسے تھے جہاں پیر جمانے کے بعد ہی امریکہ افغانستان کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کر سکتا تھا۔ اگر یہ دونوں ممالک، جو کہ ایٹمی قوت بھی نھیں تھے، امریکی دھمکی آمیز پیشکش کو ٹھکرا سکتے تھے تو پاکستان کے لیے یہ کام ان سے کہیں زیادہ آسان تھا، لیکن پاکستان نے اس کے برعکس رد عمل کا اظہار کیا اور سمندر، زمین، ایئر بیسز اور اپنی پاک فضا، ناپاک امریکہ کے حوالے کر کے، فہم و فراست کا نھیں نہایت بزدلی کا ثبوت دیا اور ان تمام خونریزیوں کے عوض، جو افغانستان میں اپنے ہی مسلم بھائیوں کے خلاف ہونے والی تھیں، چند ڈالر لینا قبول کر لیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ، جس سونامی (تباہی) سے بچنے کے لیے پاکستان نے اپنی مسلمانانہ غیرت و حمیت کو فروخت کیا تھا، کیا پاکستان اس تباہی و بربادی سے بچ سکا؟۔
ایک جانب یہ تباہی کیا کم تھی ، کہ ایک ایسا مسلمان ملک جو دنیا ئے اسلام کی واحد ایٹمی قوت تھا اور ہے، وہ امریکہ کے آگے خس کی ٹٹی بھی ثابت نھیں ہو سکا ، اور دوسری تباہی یہ ہوئی کہ پورے ملک میں امن و امان کی صورت حال اس بری طرح ابتر ہو کر رہ گئی ، جگہ جگہ خوفناک خودکش حملے ہوئے اور پورے پاکستان کی مساجد، بارگاہیں، مزارات، بازار، سڑکیں اور گلیاں خون سے لت پت ہوکر رہ گئی ، اور گھروں کے اندر تک زندگی غیر محفوظ بن گئی۔ جن 70 ہزار سے ذیادہ انسانی جانوں کے ضیاع کی باتیں ہر جانب سے کی جاتی ہیں وہ اسی غلط فیصلے کا شاخسانہ نھیں تو کیا ہے۔
دوسری جانب ایک اور بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم نے اپنے ہی برادر ملک، افغانستان سے ایک ایسی دشمنی مول لے لی جس کو شاید قیامت تک بھگتنا پڑے۔ افغانستان ہی کیا، دنیا کا کوئی بھی ملک، جس کے خلاف غیروں کے ساتھ مل کر ہم کسی در اندازی کا مظاہرہ کریں، ایسا ملک کسی بھی صورت ہماری ایسی در اندازی کو قیامت تک فراموش نھیں کر سکتا۔
ایک اور بڑی خرابی یہ ہوئی کہ پاکستان، جو اس جنگ یا اس جنگ کا حصہ بننے سے پہلے معاشی اعتبار سے استحکام کی جانب گامزن ہو چلا تھا اور یہاں تک پہنچ چکا تھا کہ بیرونی ممالک کے تمام قرضے اتار کر مزید قرضہ نہ لینے کی پوزیشن میں آگیا تھا، اس کی ساری معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگا ، اور وہ وقتی اقدامات جو فہم و فراست سمجھ کر بزدلانہ انداز میں اٹھا لیے گئے تھے ، ان سب کے منفی پہلو اس شدت سے ہمارے سامنے آنا شروع ہو گئے کہ کہیں بھی پاؤں جمتے دکھائی نھیں دے رہے ہیں۔
اگر اس وقت کا “دانشمندانہ” فیصلہ آج ایک عذاب کی صورت میں ہمارے سامنے ہے تو پھر مجھے یہ کہنے میں کوئی ڈر، خوف اور جھجک نھیں کہ ، مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں جس “احتیاط” کو اپنا یا جارہا ہے وہ پاکستان کے حق میں کبھی اور کسی صورت میں بھی نھیں جا سکتی ، بلکہ اس کے نقصانات اتنے خوفناک ہوں گے کہ (خدا نخواستہ) یہ پہچاننا ہی مشکل ہو جائے گا کہ آزاد کشمیر مقبوضہ ہے یا مقبوضہ کشمیر آزاد ہے ، اور بعید نھیں کہ ہمارے اپنے پاکستان کے بہت سارے علاقے بھی واقعی ہمارے ہیں یا “طاقت” نے انھیں ہمارا بنا یا ہوا ہے۔
مقبوضہ کشمیر جس کے متعلق گزشتہ تین چوتھائی صدی سے ہم یہی کہتے چلے آئے تھے کہ وہ نہ صرف پاکستان کا حصہ ہے، بلکہ وہ پاکستان کی شہ رگ ہے، 5 اگست 2019 کی بھارتی جارحیت کے بعد سے ہم نے اسے ایک مرتبہ بھی پاکستان کا حصہ قرار نھیں دیا، بلکہ اس کے برعکس جو راگ مسلسل الاپا جارہا ہے وہ یہی ہے کہ “اگر ہماری سر حدوں کی جانب بری نیت سے دیکھا گیا تو اس کا جواب بہت بھر پور انداز میں دیا جائے گا”۔ ہمارا مسلسل اسی ایک راگ کو الاپنے کا واضح مقصد یہ ہوا کہ جو تمہارے پاس تھا وہ کبھی بھی ہمارا نھیں تھا ، اور جو ہمارے پاس ہے اس کی حفاظت ہم ہر قیمت پر کریں گے۔ یہ پالیسی بے شک کسی بھی خوفنا ک جنگ کے دائرے کو محدود رکھنے کے لیے ایک احسن قدم دکھائی دیتی ہے ، لیکن کیا بھارت اپنے کشمیر پر مکمل دسترس حاصل کر لینے کے بعد اس کشمیر کی جانب بالکل بھی نھیں دیکھے گا ، جس کو وہ گزشتہ 72 برسوں سے اپنا اٹوٹ انگ کہتا چلا آیا ہے؟۔
افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دینے کے نتیجے میں ہم اس سے کہیں زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں جو امریکہ کا ساتھ نہ دینے کی صورت میں توقع کیا جارہا تھا ، بلکہ ہمیں اندازہ ہی نھیں کہ اس نقصان کا اختتام کہیں ہوگا بھی یا نھیں ، تو کیا ہم مقبوضہ کشمیر میں ہندو جنونیوں کے ہاتھوں مسلمان کے قتل عام پر خاموش تماشائی بن کر اس تباہی کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو مسلسل جنگ کی صورت میں بادلوں کی طرح پاکستان کے سر پر منڈلا رہی ہے؟۔ کیا ہم مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو اپنے خلاف نھیں کر لیں گے ، اور کیا وہ کشمیری جو پاکستان میں رہتے ہیں، ان کی ہمدردیوں کو کھونا شروع نھیں کر دیں گے۔ کیا اسی قسم کی صورت حال کا سامنا ہمیں افغانیوں اور اسی نسبت سے پاکستان میں موجود ان کے خونی رشتوں میں محسوس نھیں ہو رہی ہے؟۔ بظاہرمقبوضہ کشمیر میں بھارتی سرکار کی خوریزی کو ان کا اندرونی مسئلہ جان کر خاموش رہنے کی حکمت عملی میں پاکستان کو اپنی بھلائی نظر آرہی ہے ،لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس کے نتائج آنے والی کل میں بہت منفی ثابت ہوں گے ،اور ممکن ہے کہ دونوں جانب کے کشمیری کوئی اور فیصلہ کر بیٹھیں۔
یہ سمجھ لینا کہ بھارت پاکستان کے کشمیر کی جانب مڑ کر بھی نھیں دیکھے گا، یہ بھی کوئی حتمی بات نھیں، اور لگتا ہے کہ جس جنگ سے ہم بچنا چاہ رہے ہیں وہ شاید اس سے بھی کہیں شدت کے ساتھ پاکستان پر تھوپ دی جائے۔
یہاں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان خالصتان تحریک کو مہمیز دیتا رہا ہے ،جس کا مقصد بھارتی پنجاب میں ایسی اکثریت حاصل کر نا ہے جو خالصتان کے حق میں ہو ، اور جو پاکستان سے ذیادہ قربت رکھتے ہوں، ان کی مدد حاصل کرکے بھارت کو زک پہنچائی جائے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کشمیری ، جو مسلمان بھی ہیں اور پاکستان کا نعرہ لگا کر بھارت کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے میدان عمل میں کود چکے ہیں، تو کیا ان کا یہ بغاوتی عمل پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع نھیں ، جب کہ بین الاقوامی قانون بھی اس بات کی اجازت دے رہا ہو کہ ایسے حالات میں دنیا کا کوئی بھی ملک بھی افواج ایسے پُرآشوب وقت میں مدد کے لیے دنیا کے کسی بھی ملک میں اتار سکتا ہے۔
جب خالصتان والے یہ محسوس کریں گے کہ ایک مسلمان ملک مسلمانوں کی مدد کے لیے تیار نھیں ہوا جب کہ وہاں کے مسلمان پاکستان پاکستان پکار رہے تھے ، تو وہ ان کی “خالصتان” تحریک کی کیا مدد کرے گا، کیا یہ بات پاکستان کے حق میں اچھی ثابت ہوگی؟۔
پاکستان جس جنگ سے بھاگ رہا ہے وہ شاید مقدر بن کر ہی رہے گی۔ ایل او سی کی مسلسل خلاف ورزیاں، جوانوں اور معصوم شہریوں کی مسلسل شہادتیں، بھارت کی پاکستان کے خلاف ہرزاسرائیاں اور الزمات کی بارش ہر آنے والے دن کو کشیدہ سے کشیدہ تر بناتی جا رہی ہے۔ یہی موقعہ ہے کہ پاکستان کوئی جارح قدم اٹھائے ورنہ وہ وادی جو پاکستان پاکستان کے نعروں سے گونج رہی ہے ، مایوسی میں بدل کر کسی ایسی ریاست کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے جہاں کی سرحدیں پاکستان کو مزید غیر محفوظ بنا جائیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ وقت کے تقاضوں کو سمجھا جائے اور اس سنہری موقعے سے جتنا بھی ممکن ہو فائدہ اٹھایا جائے، ورنہ آنے والا کل کوئی خوشخبریوں بھرا نظر نھیں آرہاـ