آزادی مارچ اورحکومتی پھرتیاں

جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے آزادی مارچ کااعلان کررکھاہے،اکثر اپوزیشن جماعتیں جو  پہلے’ تیل دیکھو،تیل کی دھار دیکھو‘کے اصول پرعمل پیراتھیں، اور آزادی مارچ کے حوالے سے کسی قسم کی حمایت یا مخالفت کی پالیسی وضع کرنے سے گریزاں تھیں، اب مولاناکی ہم نوا ہوچکی ہیں۔شایداس لیے کہ اب ان کوآزادی مارچ کے ممکنہ ثمرات نظرآنا شروع ہوچکے ہیں، اور ان ثمرات میں اپنا حصہ پانے کے لیے ان کامخمصے کی کیفیت سے نکل کردوٹوک موقف اپنانا ضروری تھا۔ مزید جماعتیں بھی مولاناکی ہم نوا بن سکتی ہیں۔

حکومت بھی پہلے اس مارچ کومحض ایک سیاسی چال اور روایتی دھمکی کے طور پرلیتی رہی، کہ’ ’ نہ نومن تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی‘‘۔لیکن اب اسے بھی صاف نظرآرہاہے کہ اگر یہ لاکھوں افرادسڑکوں پرآگئے، تواس عوامی ریلے کوروکنا اس کے لیے ناممکن ہوجائے گا۔اس لیے ماضی قریب میں کنٹینرفراہم کرنے کی آفردیتے وزیراعظم اب طاقت استعمال کرنے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ایک طرف مذاکرات کا ڈول ڈالا جارہا ہے تو دوسری طرف طاقت استعمال کرنے کی دھمکیاں اورمدارس وعلما کو مارچ سے روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ حکومت کوبھی اس مارچ کی طاقت کااندازہ اب ہونے لگاہے۔وہ اس سیل رواں کو بہرصورت روکنا سچاہتی ہے، ورنہ اسے ڈرہے کہ کہیں وہ خود اس سیلاب میں خس وخاشاک کی طرح بہہ نہ جائے۔

سینئرسیاست دان میرحاصل بزنجونے ایک موقع پر کہاتھا : اس حکومت کوکسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں، اس کے وزرا و مشیرانِ بے تدبیرخود اس کی بدنامی کے لیے کافی ہیں۔ وزرا و مشیران، بلکہ خود کپتان کے بیانات بھی اس بات کی تصدیق کرتے نظرآتے ہیں۔

آزادی مارچ کے ناخداؤں نے مذاکرات کے لیے’ مائنس عمران‘ کی شرط لگادی ہے، جس کے لیے نہ حکومت تیار ہوسکتی ہے اورنہ مقتدرہ، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن مذاکرات کرنا ہی نھیں  چاہتی۔اس کے خیال میں اب فائنل راؤنڈ کا وقت ہے،اورحکومت کے پلوں کے نیچے سے کافی بلکہ بہت سارا پانی بہہ چکاہے۔اب ’ہتھیلی پرسرسوں جمانے‘ کی حکومتی خواہش کی کسی طرح حوصلہ افزائی نھیں کی جاسکتی۔

اندریں حالات مولانافضل الرحمن کا’ یہودی ایجنٹ‘ والا بیانیہ بھی زورپکڑتا جارہا ہے،اور وہ کافی حد تک اس مارچ کوحق وباطل کامعرکہ باورکرانے میں کام یاب ہوچکے ہیں۔کئی غیر جانب دار علما کی طرف سے بھی اس مارچ کی کام یابی کے لیے روزے رکھنے، اعتکاف کرنے اوردعائیں مانگنے کی ہدایات اس کابین ثبوت ہیں۔مولانافضل الرحمن مذہبی حلقوں کویہ بھی باورکرانے میں کام یاب ہوچکے ہیں کہ اس مارچ کی ناکامی کانتیجہ خاکم بدہن مذہب کودیس نکالادینے کی خواہش رکھنے والے عناصرکی کام یابی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔دوسری جانب تاجروں اورمیڈیا کے برز جمہروں کی حمایت سے بھی آزادی مارچ کونئی توانائی ملتی نظرآرہی ہے۔

حکومت نے اس مارچ کو روکنے کے لیے کئی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے ۔اپنے مقرب علما سے اس کے خلاف بیانات دلوائے ۔ وفاق المدارس وتنظیمات مدارس دینیہ کے راہ نماؤں کواستعمال کرنے کی کوشش کی۔مدارس کے اربابِ اہتمام اوانصرام کی تھانوں میں طلبی اورانھیں اپنے طلبہ کومارچ میں نہ بھیجنے کامطالبہ بھی اب کوئی سربستہ رازنھیں  رہا۔اس کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کوگم راہ کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈابھی عروج پر ہے کہ مولانا کے ساتھ کون ہے ؟صرف مدارس کے طلبہ وعلما، یہ راگنی کبھی کسی سمت سے، تو کبھی کسی سمت سے چھیڑی جاتی ہے۔آئیے! اس تاثرکوحقائق کی میزان میں پرکھیں۔

مولانافضل الرحمن کی جماعت کانام جمعیت علمائے اسلام ہے،اس کی صف اول کی قیادت ایک خاص مسلک ومکتبہ فکرسے تعلق رکھتی ہے،عہدے داروں میں اکثریت کاتعلق مدارس سے ہے۔یہ تمام باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔بایں ہمہ مولانا کی جماعت ایک بڑی سیاسی جماعت ہے،جس کے کارکنوں میں صرف علما وطلبہ ہی شامل نہیں،عوام کی بہت بڑی تعداد اِس جماعت سے وابستہ ہے۔جمعیت کے رجسٹرڈ کارکنوں کی تعداد 15لاکھ بتائی جاتی ہے۔یہ سب علما وطلبہ نہیں۔بلکہ اس میں غالب اکثریت جمہوریت پسندعوام کی ہے۔مرکزی قیادت میں سینیٹر طلحہ محمود، اکرم خان درانی سمیت کئی عہد ے دارایسے ہیں، جوعصری تعلیم یافتہ ہیں۔جمعیت کا وکلا ونگ بھی ہے، خواتین ونگ بھی ہے،منارٹی ونگ بھی ہے۔غرض یہ جماعت کسی بھی سیاسی جماعت کی طرح لاکھوں کارکنوں پرمشتمل جماعت ہے،جس کی مرکز،سینیٹ اوردوصوبوں میں واضح نمائندگی ہے۔جس کا ووٹ بینک ایک ناقابل ِتردید حقیقت ہے۔جس کی جڑیں عوام میں ہیں۔

یہ محض اورمحض پروپیگنڈاہے کہ مدارس اپنے طلبہ کو مارچ میں بھیج رہے ہیں۔پروپیگنڈا کرنے والے عناصرکو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مدارس کے طلبہ کے بغیربھی مارچ کام یابی سے ہم کنار ہوگا۔ اگر مدارس اپنے طلبہ کو اس مارچ میں شرکت سے روک بھی دیتے  ہیں، تو اس سے کوئی فرق نھیں  پڑتا۔15 لاکھ تو بہت بڑی تعداد ہے،اگر 2لاکھ افرادبھی اسلام آبادپہنچنے میں کام یاب ہوگئے، تو حکومتی مشینری کو بریک لگانے کے لیے کافی ہوجائیں گے۔

رہی یہ بات، کہ شرکا کی اکثریت علما پرمشتمل ہوگی، جو مدارس کے تعلیم یافتہ  ہیں،تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔جس طرح کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن کو اِس زاویے سے ہدف ِتنقیدنھیں  بنایا جاسکتا، کہ اس نے کسی اسکول، کالج یایونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے، اسی طرح کسی مدرسے سے تعلیم حاصل کرنا بھی کوئی قابل اعتراض بات نھیں ۔پھر مدارس کی سند کی قانونی حیثیت تسلیم شدہ ہے،اورہرعالم صرف ایک عالم دین نہیں، ایم اے عربی واسلامیات کا ڈگری ہولڈرہے۔علما کا باقاعدہ عصری تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنا اس پرمستزاد۔آپ کسی بھی مدرسے کا سروے کیجیے، آپ کو طلبہ کا ایک بڑاطبقہ میٹرک، انٹرسے ماسٹرز و ڈاکٹریٹ تک کا ڈگری ہولڈرنظرآئے گا۔

دانش مندی یہ نھیں کہ منفی پروپیگنڈے کیے جائیں، یہ حکومتی شکست کا اعتراف ہے۔حکومت کوچاہیے کہ بامقصد مذاکرات کرے،اپوزیشن کے مطالبات کو سنے، ان کے تحفظات پر کان دھرے۔کاش! عمران خان اور ان کے وزرا و مشیران اس بات کوسجھ سکتے کہ مولانا کو تمام دینی جماعتوں کا متفقہ لیڈر بنانے اورتمام اپوزیشن جماعتوں کومتحدکرنے کابنیادی سبب آپ خود ہیں۔آپ کی پالیسیاں،طاقت کے نشے میں مست تعلی آمیزبیانات،آئی ایم ایف کے ایما پر کمرتوڑ مہنگائی،ٹیکس کے عفریت کوبے مہارچھوڑ دینا۔اللہ نہ کرے، ملک رول بیک ہوا، تو مارچ کی وجہ سے نہیں،آپ کی ان ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہوگا۔

جواب چھوڑ دیں