کعبہ کی رونق اور اور کعبہ کے مناظر پر بہت سے لکھنے والوں نے لکھا اور خوب لکھا، کچھ مناظر جو میری آنکھ نے دیکھے اور دل انھیں تحریر کرنے کو بےچین ہوا ، لوگوں کا ایک ازدھام ، ایک سیلاب جو اس سیاہ عمارت کے گرد لوہے کے زروں کی مانند چکر لگاتے، اس سے چمٹنے کو بے چین، پہلا چکر، پھر دوسرا ،پھر تیسرا اسی طرح پورے سات چکر،
ان سات چکروں کےسحرسے نکلے تودو پہاڑوں کے درمیاں کفن پوش لباس میں ملبوس سروں کا ٹھاٹیں مارتا سمندر، جو ایک خاتون کے نقش قدم پر دیوانہ وار دوڑے چلا جا رہا ہے، یہاں بھی سات کی گنتی،جس کو پوری کرنے کی تگ و دو۔۔۔۔۔
پھر ایک عمرے کے بعد دوسرے کی فکر ، جتنے دن کا قیام اس میں دو، تین اور چار ، جتنے ممکن ہوں کر لیں ، بالکل ویسے جیسے رمضان میں ہماری ختم قرآن کی گنتیاں۔۔۔۔
ان پھیروں اور گنتیوں کے چکر سے نکلے تو حرم کی پر سوز آذان نے اپنے سحر میں لے لیا ، آسمان کی بلندیوں کو چھوتی “حي علي الصلوة””حي علي الفلاح”کی سدا اور پھر سدا کی طرف دوڑتے لپکتے نفوس —
نماز میں کی جانے والی قرأت اور تلاوت ، ایسا سما باندھتی جیسے فرش سے عرش تک جاتی اور رب کے عرش کو چھو کر آتی محسوس ہو،پھر سورہ فاتحہ کے اختتام پر با آواز بلند “آمین”کی سدا ، جس سے حرم کے دور دیوار گونجتے محسوس ہوتےہیں،
صراط مستقیم کی فریاد ” أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “کا راستہ ” غَيرِ ٱلمَغضُوبِ عَلَيهِم وَلَا ٱلضَّآلِّينَ “کے انجام سے پناہ اور اس پر لاکھوں کی مشترکہ “آمین”
کون ” أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “،، وہی جنہوں نے صراط مستقیم پا لیا ،تو پھر کتنے عمرے کتنے حج اور کتنے ختم قرآن گن گن کے رب کوپہنچائے ،یا رب کے حضور ان کی سعی و جہد پھر کہیں اور نظر آئی ان کی دوڑ پھر کچھ دوسرے میدانوں میں دیکھی گئی۔۔۔۔۔۔
انہی سوچوں میں گم اور انہی خیالوں میں کھوئے حرم کو تکتے ہوئے دل ایسا مچلا ، ایسا تڑپا ، جی چاہا دوڑکے جاؤں اورجا کےاس کا دامن پکڑ لوں ، جو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے”وہ” جس کا دامن رحمت دکھتا نہیں لیکن اس کا وجود تو ہے ،جس میں پناہ لینے والے پناہ لیتے ہیں، یہاں صحن حرم میں ، حرم کا غلاف اس کا دامن ہی محسوس ہوتا ہے ، وہ دامن رحمت جس کا سنتے تھے ،آج اس تک پہنچ گئے ،اس کو تھام لیا اورشاید یہ اس کی کشش ہے کے دیوانے اس سے چمٹنے کو بے چین ہوتے ہیں، میں بھی اس لمحے ایسے ہی بے چین ہوئی کے جا کے لپٹ جاؤںاور فریاد کروں
اے رب کریم! یہاں لاکھوں سر سجدوں میں ، لاکھوں قدم آپ کی پکار پر دوڑتےاورسدائیں بلند کرتے۔۔۔۔۔
اور وہاں میرابیت المقدس چھن گیا،انہی ٱلمَغضُوبِ عَلَيهِم کے ہاتھوں میں چلاگیا جن سے ان لاکھوں نفوس نے ابھی پناہ مانگی۔۔۔۔”
“یا رب رحمان!میراشام اپنوں کےہی ہاتھوں بربادہوگیا۔۔۔۔”
یا رب رحیم! میرا کشمیر لہو لہان ہے ،میری مائیں بہنیں بیٹیاں بے چین و منتظر۔۔۔۔
اتنی آہیں،اتنی سسکیاں،اتنی فریادیں،اتنا لہو اور رب رحمان کی مہربان ذات خاموش۔۔۔۔۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تو ناراض ہے ،ہماری خاموشی پر خاموش ہے،یقینا تو ناراض ہے۔۔۔۔
مان جا میرے مہرباں رب ، تجھے ناراض کر کے ہم کہاں جائیں گے ،ہمارے پاس تو تیرے در اور تیرے دامن کے سوا کوئی در اور کوئی دامن نہیں
ہم سے ناراض نہ ہو،ہم سے جتنے چاہے چکر اور پھیرےلگوا لے،ہم سے جتنے چاہے سجدے کروالے،ہم سے گنتیاں پوری کروالے ، اس سے بڑھ کر ہم سے کچھ نہ مانگ ،ہم اس سے بڑھ کے کچھ کرنے کی سکت سے عاری ہیں میرے رب۔۔۔۔
اے ستر ماؤں سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرنے والے رب !تو خود ہی ان کے لیے کافی ہو جا، تو خود ہی ان کا حامی و مددگار ہوجا، تو خود ہی ان کی فریادوں کا فریاد رس ہوجا۔۔۔۔۔۔