مارچ کی بھینٹ چڑھتا کشمیر

آج ہم سینسرز کے دور میں زندہ ہیں، کہیں جائیں تو حفاظتی دروازوں سے گزرتے ہیں، بغیر دربانوں کے دروازے خودبخود سینسرز کی مدد سے کھل جاتے ہیں ،سینسرز کی بدولت برقی قمقمے روشنی کم ہونے کی صورت میں خودبخود جل جاتے ہیں ، ایسے بہت سارے نظام و آلات انہیں سینسرز کی مدد سے اہم ترین ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ سینسر کے لفظی معنی اردو میں موجود بھی ہیں یا نہیں  ، اس لاعلمی پر معذرت ، بس  یوں سمجھ لیجئے کہ ہم اسے سینسر کو محسوس کرنے والا آلہ کہہ کر پکار سکتے ہیں ۔  انسان کو سینسرز کا یا  اس محسوس کرنے والے آلے کا خیال کیوں آیا؟ اس کے پیچھے انسان کو قدرت کی عطاء کی جانے والی محسوس کرنے کی صلاحیتیں ہیں۔انسان کو کسی چیز کے چھونے سے اس کے گرم یا سردہونے اور   چکھنے سے مختلف ذائقوں کا پتہ چل جاتا ہے ،اسی طرح انسان آوازوں کو سن کر پہچان سکتا ہے ، انسان قدرت کے گلشن سے اٹھنے والی خوشبوؤں سے محضوظ ہوسکتا ہے اسی طرح قوس قزح میں نمایاں ہوتے رنگوں کو دیکھ کر نام بتا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر قدرت کی دی گئی ہر نعمت کا شکر کرتے ہوئے دوسروں کو بتا بھی سکتا ہے۔  یہ قدرت کی جانب سے انسان میں نصب کیے گئے وہ سینسرز (محسوس کرنے والے آلات ) ہیں جنہیں ہم طبعی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان آلات سے ہٹ کر ایک ایسا بھی آلہ ہے جو بغیر چھوئے ، بغیر دیکھے ، بغیر چکھے ، بغیر بولے اور سنے بھی محسوس کرلیتا ہے اور بہت شدت سے محسوس کرتا ہے ۔ اس آلے کو دل کہتے ہیں جس کاطبعی کام پورے جسم کو خون کی ترسیل ہوتا ہے۔

 برتاؤ اور عمل بھی احساس کے محسوس کرنے والے آلے (سینسر)سے ہوکر ردعمل کے منتظر ہوجاتے ہیں۔  مفاد کی دوڑ میں ، ضرورتوں کے جنگل میں احساس کے آلات بے اثر ہوتے جا رہے ہیں یا پھر کوئی بائی پاس نظریہ متحرک ہوگیا ہے ۔ اگر کوئی مشین خراب ہوجاتی ہے تو اس کی مرمت کی جاسکتی ہے لیکن قدرت کے نسب کردہ محسوس کرنے والے آلات اگر کام کرناچھوڑ دیں تو وقت ، حالات اور کسی حد تک مکافات عمل انہیں درست کرسکتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور عمل ان آلات پر اپنا تاثر نہیں چھوڑتا۔

عمل کو بغیر رد عمل کے نہیں پہچانا جاتا ،کوئی کتنا حساس ہے یہ اسی وقت پتہ چلتا ہے جب کوئی بے وجہ ہی کسی کے لیے اپنی خدمات پیش کردے، اس کے رد عمل کے طور پر جو چیز قدرت نے انسان کو دی اسے ہم اناکے نام سے جانتے ہیں۔ یہ انسان کی قابلیت اور اہلیت ہوتی ہے کہ وہ انا کے ساتھ کس طرح سے نبھا کرتے ہوئے اپنی زندگی کو آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔یہ ایک ایسا مرض ہے جو اگر جڑیں پکڑ لے یا انسان اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے تو پھر یہ اس انسان کو صرف اور صرف اپنا قیدی بنا کر رکھ لیتی ہے عام لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ جیسے کوئی سرطان کا مریض ہو ۔  یہ انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو اپنے تک محدود کرلیتی ہے اور عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ انسان تنہائی کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے اور مقدر میں سوائے آنسو بہانے کے اور کچھ بھی نہیں بچ پاتا۔

انا کی بھینٹ چرھنے والوں کے لیے ان کا علم اور ان کی سمجھ کافی ہوتی ہے یہ محصور و مقید ہوتے ہیں ، ان لوگوں نے اپنے گرد نا دیکھائی دیے جانے والا آہنی حصار بنا رکھا ہوتا ہے ، یہ لوگ خدا سے ڈرتے ضرور ہیں لیکن کہیں نا کہیں خدا ہونے کے دعویدار بھی ہوتے ہیں ۔لیکن کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ایک دن تو اسے بھی چھری کے نیچے ہی آنا ہے، یہ مثال بھی ہر وقت “میں میں” کرنے والوں کے لیے دی جاتی ہے۔

یہ احساس کے ناپید ہونے یا بستر مرگ پر پڑے ہونے کی دلیلیں ہی تو ہیں جو ہم اسپتالوں میں مسیحاؤں کی آئے دن کی ہڑتالوں کی صورت دیکھ رہے ہیں،  جہاں ان کے منتظر مریض جان سے گزر جاتے ہیں لیکن یہ ہڑتالیں ختم نہیں ہوتیں، سرعام کوئی کسی کو گولی ماردیتا ہے اور بھیڑ میں سے کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہوتا، سڑکوں پر سسکتی بلکتی زندگیاں دم توڑ دیتی ہیں کوئی نہیں دیکھتا کہ کیا ہوا ہے۔ سب نے اپنے آپ کو مخصوص مفادات کی نظر کردیا ہے اور ان کے حصول کے لیے سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں آگے بڑھ رہے یہ دیکھے بغیر کہ کس کو روندتے ہوئے جا رہے ہیں۔

معلوم نہیں کیوں لیکن ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے کچھ بیٹھتا ہوں اور لکھنے کچھ لگ جاتا ہوں پھر موضوع پر لوٹنا تھوڑا مشکل ضرور ہوتا ہے لیکن اللہ کے فضل سے یہ ممکن ہوہی جاتا ہے ۔ آئیں تھوڑا سا موضوع کی طرف:  الزام تراشیاں کرنا ایک دوسرے پر خراب الفاظ کی صورت میں کیچڑ اچھالنا ہماری سیاست کا وتیرہ ہے ، یہی سیاسی کھلاڑی کہیں ایک دوسرے کو ایسے ایسے القابات سے یاد کر رہے ہوتے ہیں جن کو یہاں لکھا نہیں جاسکتا اور کہیں ایسے بغل گیر دیکھائی دیتے ہیں کہ جیسے یہ وہ دونوں نا ہوں بلکہ کوئی اور ہوں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہم پاکستانی عرصہ دراز سے جھیلتے ہوئے آرہے ہیں۔ پاکستان کی آج جو حالت ہے کیاہمیں نہیں پتہ کہ یہ سب کن لوگوں کی وجہ سے ہوئی ہے ، کیا ہم نہیں جانتے کہ ہمارے حکمران زمین پر پیر صرف اور صرف انتخابات کے دنوں میں رکھتے ہیں ، کیا ہم نہیں جانتے کہ ان کے اخراجات سرکاری خزانے سے پورے کیے جاتے ہیں جو کہ اصولی طور پر قطعی غلط ہے۔ احتجاج کسی بھی جمہوری معاشرے میں رہنے والے کا حق ہے ، یہ حق وہ قانون کے دائر ے میں رہتے ہوئے اور اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ جس بات کے لیے احتجاج کیا جا رہا ہے کیا واقعی وہ مسئلہ ہے ، مسئلہ انفرادی ہے تو نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن مسئلہ اجتماعی ہوگا تو افراد کا سڑکوں پر نکلنا بنتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا بدعنوانی کے خلاف تھا اور ایک منظم طریقے سے چلتے ہوئے اس نے ۱۲۶ دن پورے کیے (آرمی پبلک اسکول واقع کی وجہ سے وسیع قومی مفاد میں اس دھرنے کو ختم کیا گیا)۔یعنی مسئلے کی وضاحت موجود تھی ۔تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کا حصہ تھیں اور سیاسی جماعتوں کا ایسا اتحاد خدا دوبارہ نا دکھائے گو کہ اب وہیں ساری جماعتیں حکومت مخالف ہیں ۔ پھر بھی ایسا کیا ہے کہ حکومت کو اس طرح سے دباؤ میں لینے سے قاصر ہے کیوں کہ آپ لوگ تو مسلسل مشاور ت کے عمل تھے۔

ہمارے ملک کے انتہائی قابل احترام مولانا فضل الرحمن صاحب جوکہ سیاسی و مذہبی و معاشرتی بصیرت کو بہت اچھی طرح سے سمجھنے والے سمجھے جاتے ہیں جوکہ گواہی ہے کہ مولانا ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں اور ہر بار کشمیر کمیٹی کے کرتا دھرتا رہے ہیں۔مولانا صاحب نے حکومت گراؤ تحریک کا آغاز کر دیا اس کے جو محرکات سامنے آرہے ہیں اور حرف عام ہوئے ہیں وہ یہ کہ مولانا صاحب گزشتہ بائیس سالوں سے ان ایوان کی زینت بنے ہوئے تھے اور انہوں نے یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوگا کہ وہ ایوان کے رکن نہیں ہوں گے اور ایسا ہوگیا اب ان کادل کہیں لگ ہی نہیں رہا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ رہوں گا تو اسلام آباد میں چاہے ڈی چوک پر ہی کیوں نا رہوں۔مولانا صاحب اس بات کی وضاحت بھی ٹھیک طرح سے نہیں کر پا رہے ہیں کہ وہ یہ دھرنا یا آزادی مارچ کیوں کر نا چاہ رہے ہیں ۔ یا پھر واقعی کوئی مولانا صاحب سے ایسا کروانا چاہ رہا ہے ، کیا مولانا صاحب اپنے پرانے دوستوں سے ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت اور کھایا ہوا کھانا حلال کرنا چاہتے ہیں، چاہے ملک کی سالمیت کو کتنا بڑا دھچکا ہی کیوں نا لگ جائے۔ مولانا صاحب حساسیت سے محروم کر دیے گئے ہیں اور انا کی سولی پر لٹک چکے ہیں انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا کہ ان کے ان اقدامات سے ملک کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے ان کے ان عملی اقدامات سے کرفیو زدہ کشمیر کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مولانا کیساتھ چلنے والوں خصوصا عوام اس سارے مسئلے کو جذبات کی عینک اتار کر دیکھے کیا پاکستان اس وقت کسی بھی دھرنے کا محتمل ہوسکتا ہے ۔ فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں کہیں ایسا نا ہوکہ آپ پاکستان کو کسی نئی مشکل میں دھکیل دیں۔ لوگوں نے مولانا کی اس اکتوبر میں ہونے والے مارچ کو مختلف نام دیے ہیں لیکن ہمیں جو سمجھ آرہی ہے وہ انا مارچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں