گزشتہ روز برطانوی شاہی جوڑے شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ مڈلٹن کا پاکستان پہنچنے پر ریڈ کارپٹ ، پرتباک استقبال کیا گیا، چترال پہنچنے پر برطانوی شہزادے اور شہزادی کو روایتی ٹوپی پہنائی گئی۔ پاک فوج کے ہیلی کاپٹر میں سوار شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ مڈلٹن نے وادیوں اور ہمالیہ کی برف پوش پربتوں کا نظارہ کیا، شاہی مہمان میٹھے پانی کے چشموں اور حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوئے ۔ روشن آنکھیں، چہرے پر مسکراہٹ، سر پر چترالی ٹوپی، کاندھے پر روایتی گرم شال، چمڑے کی جیکٹ اور لانگ شوز پہنے کیٹ مڈلٹن چترالی ثقافت میں کوہ قاف کی شہزادی نظر آئیں، جب کہ شہزادہ ولیم بھی سفید چغے میں ملبوس تھے ۔ شاہی جوڑے نے مقامی کیلاش قبیلے کے روایتی رہن سہن کا مشاہدہ بھی کیا۔ شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ مڈلٹن اپنے مختصر قیام کے دوران چترال میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات، سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں کی استعداد کار کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں کے گلیشیئرز پر اثرات کا بھی جائزہ لیتے رہے۔ صدر پاکستان عارف علوی سے ملاقات کے دوران شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ نے حکومت کے موسمیاتی تبدیلی اورغربت کے خاتمے کیلئے اقدامات کو سراہا۔ اس دوران شہزادی نے سبز اور سفید رنگ کا لباس زیب تن کر رکھا جو پاکستان کے پرچم میں موجود رنگوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے معزز مہمانوں کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا گیا ، معزز مہمان وزیراعظم ہاؤس پہنچے جہاں شہزادی کیٹ مڈلٹن مسکراتے ہوئے گاڑی سے اتریں اور وزیر اعظم عمران خان سے ہاتھ ملایا، شہزادہ ولیم بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ سفید شلوار قمیض اور سیاہ واسکٹ میں ملبوس وزیر اعظم عمران خان نے معزز مہمانوں کا استقبال کیا۔ اس موقع پر شاہی مہمانوں کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے ۔ برطانوی شاہی خاندان کے افراد ماضی میں بھی پاکستان کے دورے کر چکے ہیں، لیکن ان کے بارے میں جاننا دلچسپی سے خالی نہیں۔ برطانیہ کی بادشاہت تاش کے پتوں جیسی بے اختیار ضرور ہے مگر ہر فیصلے میں نام اسی کا ہی استعمال ہوتا ہے ۔ برطانوی ملکہ الزبتھ طویل، تجربے کی بھٹی سے کندن بن کر نکلی ہیں ، منجھی ہوئی سفارت کار ہیں ، حال ہی میں وہ امریکی صدر ٹرمپ کو بھی سمجھاتی دکھائی دیں ،پروٹوکول کیا ہیں اورمہمان صدر کوملکہ کے ساتھ کیسے چلنا ہے ۔ ملکہ برطانیہ بے شمار عالمی تبدیلیوں کی گواہ ہیں۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام ان کے دور میں ہی عروج پر پہنچ کر سمٹ گیا ۔ درجنوں چھوٹی بڑی جنگوں کی عینی شاہد ہیں، اور پاکستان کے اعلان آزادی کی دستاویزات پر بھی ان کے ہی دستخط ثبت ہیں ۔ بکنگھم پیلس میں کورنش بجا ئے بغیربرطانوی وزیراعظم 10ڈائوننگ سٹریٹ کا حکمران نہیں بن سکتا۔ہر برطانوی وزیر اعظم نے تاش کے پتوں جیسے اختیارات کی حامل ملکہ کے محل میں حاضری پہلے دی پھر کوئی اور کام کیا۔ملکہ امریکہ میں صدارتی تبدیلیوںکی گواہ ہیں۔دنیا بھر میں اعلیٰ ترین تبدیلیوں کے ماحول میں بھی بادشاہت اور اس کی نشانیاں اپنی جگہ قائم و دائم ہیں۔ ملکہ الزبتھ دوم دو مرتبہ پاکستان آ چکی ہیں،1961ء میں وہ پہلے 16 روزہ دورے پر پاکستان آئی تھیں۔وہ یکم فروری سے16 فروری 1961ء تک یہیں رہیں۔پورا پاکستان گھو م پھر کر دیکھا،شاید کوئی ایسی اہم شخصیت نہ ہو گی جسے شرف ملاقات نہ بخشا ہو۔انہوں نے 1997ء میں دوسرا دورہ کیا۔ لاہورمیں شیش محل کے دورے کے وقت سنہری لباس میں ملبوس گڑیا جیسی ملکہ سونے کی ڈلی لگ رہی تھیں۔اسلامی عقائد کے عین مطابق سفید سکارف میں ملبوس ملکہ نے بادشاہی مسجد میں اللہ کی عبادت کے مناظر دیکھے ،وہ اس وقت سر سے پاؤں تک اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھیں۔کراچی اور مری میں بھی قدم رنجا فرمایا، مری انگریز دور میں گرمائی صدر مقام بھی ہوا کرتا تھا۔یہ وہی جگہ ہے جہاں نوآبادیاتی دور کے حکمران دہلی کی گرمی سے گھبرا کر آرام کیا کرتے تھے ۔ملکہ اور ان کے شوہر فلپ نے وائسرائے کے کمرے بھی دیکھے ۔ ملکہ نے پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیا ، لاہور میں چرچ آف لاہوران کی آخری منزل تھا، انہوں نے دو مرتبہ پاکستان آنے پر شہزادی ڈیانا کو خراج تحسین پیش کیا ،ملکہ نے دکھی دل کے ساتھ اپنی آنجہانی شہزادی اور پاکستان سے محبت کو خراج تحسین پیش کیا۔وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں ، انہوں نے کئی مرتبہ آنجہانی شہزادی کا ذکر کر کے دلی لگاؤ اور د ائمی محبت کا ثبوت دیا۔ 1991ء میں شہزادی ڈیانا بھی پاکستان کے دورے پر آ چکی ہیں۔