ایک زمانے میں کراچی شہر کی کوئی بھی چھوٹی یا بڑی شاہراہ ایسی نہیں تھی جہاں بسیں رواں دواں نہ ہوں ۔ بے شک چند سال قبل تک سڑکوں پر بھاگتی دوڑتی بسوں میں اگر پرانی یا عوامی زبان میں “کھٹارا” بسیں بھی تھیں لیکن اچھی ، نئی اور آرام دہ بسیوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی ۔ ان شاہراہوں پر بسوں سے بھی کہیں زیادہ منی بسیں ہوا کرتی تھیں جو بسوں سے زیادہ بھی تھیں اور “اسمارٹ” ہونے کی وجہ سے اپنے مسافروں کو ان کی منزل پر بسوں کی نسبت جلد پہنچا دیا کرتی تھیں۔ بسیں ہوں یا منی بسیں، ان میں مشترک بات یہ تھی کہ ان میں بہت سارے روزی کمانے والے ، دیانتدار اور دھوکے باز بھی آیا کرتے تھے جو خاص بیماریوں کی ادوات بیچا کرتے تھے ۔ کچھ عطر فروش، منجن فروش اور چورن بیچنے والے بھی ہوا کرتے تھے ۔ یہ سب اتنے چرب زبان تھے کہ اپنی لچھے دار باتوں سے لوگوں کو اپنی پروڈکٹس کے مفید اور عام بازاروں میں فروخت ہونے والی اسی قسم کی باقی تمام اشیا سے سستی ہونے کا دعویٰ بھی کیا کرتے تھے۔ مجھ سمیت کراچی کا کوئی بھی ایسا فرد جو ان بسوں میں سفر کیا کرتا تھا وہ ایک بار تو ضرور ان کے فسوں میں آجاتا تھا۔ لیکن کیا کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا کہ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آجانے میں کیا عوامل ہوا کرتے تھے ، جن کی وجہ سے ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوجایا کرتا تھا کہ آخر دوا، عطر یا منجن کو خرید کر آزمانے میں حرج ہی کیا ہے؟۔ بات بہت سادہ سی ہے ۔ جو شخص بھی کسی ایسی بیماری کا شکار ہو جس کی وجہ سے اس کی زندگی ایک عذاب بن کر رہ گئی ہو وہ بالکل اس فرد کی طرح ہوتا ہے جو گہرے پانی میں ڈوب رہا ہو۔ ڈوبنے والا کبھی یہ نہیں سوچا کرتا کہ اس کی مدد کو آنے والا کون ہے، وہ اسے دکھکا دینے والوں میں تو شامل نہیں تھا۔ اس کا کردار کیا ہے ۔ اس کا کس مذہب سے تعلق ہے ۔ وہ کالا ہے یا گورا ۔ حد یہ ہے کہ اگر اسے کوئی تنکا بھی دکھائی دے رہا ہو تو وہ اسے پکڑ کر باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ چناچہ اگر کہیں سے جوڑوں کا درد، بواسیر کا علاج، قبض سے نجات، مردانہ یا زنانہ بیماریوں اور کمزوریوں کے خاتمے یا دانتوں کی تکلیف میں آرام آجانے کی صدائیں سنائی دے رہی ہوں تو ایسی بیماریوں کے حامل افراد کا اس جانب متوجہ ہوجانا کسی بھی صورت خلاف فطرت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر میں بیماریوں کو بھی ایک غم کہہ دوں تو برصغیر انڈ و پاک میں بسنے والے سارے مسلمانوں کو بھی ایک ایسا غم لگا ہوا ہے جس کے معالج کی تلاش ان کی روح کی جستجو کا ایک جزوِ لاینفک بن چکی ہے۔ اس غم کا غمِ جہاں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ غم خدا اور بندے کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جس کی تلاش صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر بشر کو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی اور جب تک وہ اصل تعلق سے رستگاری حاصل نہیں کر لے گا اس وقت تک بظاہر پر سکون رہنے والا انسان کبھی اطمنانِ قلب حاصل نہیں کر سکتا۔ اس تعلق کا نام “مذہب” ہے اور مذہب ہی ایک ایسا رشتہ ہے جو بندے کو خالق کی تلاش میں ہر آن مصروف رکھتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہم سب مسلمان ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ خواہ ہم کتنے ہی گمراہ ہو چکے ہوں، اسلام سے کتنی ہی دوری پر چلے گئے ہوں اور اپنی اصل راہ سے کتنا ہی بھٹک گئے ہوں پھر بھی وہ چنگاری جو اب دل و دماغ کے کسی گوشے میں دبی رہ گئی ہے، اُسے جب بھی کسی جانب سے یہ صدا آتی ہے کہ اٹھو، اللہ کے نظام کو دنیا میں نافذ کرنا ہے تو وہ گونجنے والی آواز اس کی سرد ہوتی ہوئی چنگاری کو شعلہ بنا دیتی ہے اور پھر ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو لمحے بھر کے لیے یہ سوچے کہ صدا لگانے والا کون ہے اور وہ کتنا سچا ہے۔ ہم اپنی آنکھیں بند کرکے اس کی اقتدا میں روانہ ہوجاتےہیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم بر صغیر انڈ و پاک کے مسلمان کئی صدیوں سے ایک نعرے کو سن کر، نعرہ بلند کرنے والوں کے ہاتھوں بری طرح فریب کھاتے رہے ہیں لیکن اللہ جانے اس نعرے میں کیا تاثیر ہے کہ جب کبھی ہمارے کانوں میں اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہونے کی آواز گھونجتی ہے ہمارے سوچنے اور سمجھنے کی ساری صلاحیتیں بس یہی کہہ رہی ہوتی ہیں کہ چلو، اٹھو اور بڑھتے چلے جاؤ اور اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کے بعد ہی اپنی اپنی کمریں سیدھی کرو۔
جنگ آزادی کے لیے نکلو ۔ مسلمانوں کی خلافت اسلامیہ خطرے میں ہے، اٹھ کھڑے ہو ۔ پاکستان کا مطلب لا الٰہ الا اللہ ہے اس کے لیے کٹ مرو۔ پاکستان میں انگریزوں کے قانون کا خاتمہ کرنا ہے، نفاذ مصطفیٰ کی تحریک میں شامل ہو جاؤ۔ کھڑے ہو جاؤ اور اس بات کی بھی پرواہ مت کرو کہ سامنے والے بھی مسلمان ہیں۔ اسلام کے نام پر نو ستارے بن جاؤ۔ افغانستان میں روسیوں نے قبضہ کر لیا ہے، جہاد کے لیے نکل کھڑے ہو۔ ایسی نہ جانے کتنی تحریکیں گزشتہ 200 برس سے دیکھتے چلے آرہے ہیں اور اللہ کے بندے اللہ کے دین کا نام سن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر جب بھی پلٹ کر دیکھتے ہیں ان کو اس راہ پر ڈالنے والے دور دور تک کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے لیکن یہ پاکستان کے مسلمانوں کا ایک ایسا غم ہے جس کو دور کرنے کا جو بھی دعویدار سامنے آتا ہے سب اس کی جانب لبیک لبیک کہتے ہوئے دوڑ پڑ تے ہیں اور شاید اس وقت تک دوڑتے رہیں گے جب تک ان کے غم کا مداوا نہیں ہوجاتا اور ان کو کوئی ایک رہبر و رہنما ایسا نہیں مل جاتا جو اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ نہ کردے۔
آج کل ہر جانب یہی شور سنائی دے رہا ہے کہ کسی بھی مذہبی پارٹی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ “مذہبی کارڈ” استعمال کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا مذہبی اور سیاسی پارٹیاں “مغربی” کارڈ استعمال کریں؟۔ کار ڈ تو یہی ہے جس کو کئی صدیوں سے نام بدل بدل کر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہی وہ کارڈ ہے جو عوام کو شمع رسالت کے گرد مثل پروانہ جمع ہونے اور جل مرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اس کارڈ کے استعمال کرنے پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں چاہیے البتہ پابندی ہو تو اس کارڈ کے استعمال کرنے کے بعد اس کے خلاف چلے جانے والوں پر لگائی جائے ۔ جو رہنما لوگوں کو مذہب کے نام پر جمع کریں اور لوگ ان کی آواز پر ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوجائیں لیکن اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے دعوؤں، وعدوں اور عہد و پیمان سے پھر جائیں تو ان سب کو وہی سزا دی جائے جو مرتدوں کو دی جاتی ہے۔ اسلام کے نام پر لوگوں کو اکھٹا کرنا اور پھر اس عہد سے پھر جانا ایسا ہی ہے جیسے اسلام میں داخل ہونے کے بعد مرتد ہوجانا۔
حکومت وقت اس بات کا بہت شور مچارہی ہے کہ جماعت اسلامی یا جے یو آئی مذہبی کارڈ استعمال کر رہی ہیں لیکن قائد اعظم سے لے کر اب تک آنے والا پاکستان کا کوئی ایک حکمران بھی ایسا بتایا جائے جو مذہبی کارڈ استعمال کرتا دکھائی نہ دیا ہو۔ کوئی “بسم اللہ” پڑھتا نظر آیا، کوئی “اسلامی سوشل ازم” کے فلسفے بنگھارتا رہا، کوئی پورا پورا قرآن سناکر عوام کو جہاد کے لیے اکساتا رہا، اب “ایاک نعبد و ایاک نستعین” اور ریاست مدینہ کا علمبردار سامنے آیا ہے۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ تمام کے تمام حکمران ان عطائی حکیموں کی طرح بسوں میں ادویات، پھکیاں اور عطر فروشوں کی طرح “غم خواروں” کی تکلیف اور پریشانی کا فائدہ اٹھا کر اپنی اپنی کرسیوں کے تحفظ کے لیے کسی نہ کسی صورت مسلمانوں کو لگے اس “غم” کا فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں جس کے لیے ہر مسلمان مثلِ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہوئے یہی کہتا نظر آتا ہے کہ
میں مریض عشق رسول ہوں
جو کرو تو میری دوا کرو
کوئی نام سرور دیں کا لو
کوئی ذکر شاہ ہدیٰ کرو
مجھے خوشی ہے کہ پاکستان کے عوام ایک بار پھر اسلام کے نعرے کے گرد مثل پروانہ طواف کرتے نظر آرہے ہیں۔ کئی صدیوں اور پاکستان میں 7 دہائیوں سے اسلام کے نام پر دھوکا کھاتے کھاتے پاکستان کے عوام اس نعرے سے اس حد تک بیزار ہوچکے تھے کہ گزشتہ کئی انتخابی تحریکوں کے دوران کسی میں یہ جرات نہ ہو سکی کہ وہ اللہ کے دین کا حوالہ دے کر اپنی تحریک چلا سکیں ۔ حتیٰ کہ مذہبی پارٹیاں بھی اسلام کو چھوڑ کر جمہوریت کے نام پر اپنی موومنٹ چلانے پر مجبور ہوئیں۔ موجودہ بیداری بے شک خوش کن ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اسلام کی احیا کا شاید آخری موقع ہے۔ اگر اسلام کا نام لے کر کوئی “تحریک آزادی” چل ہی پڑی ہے تو میری اس تحریک سے وابستہ ہونے والے ہر فرد اور خاص طور سے رہنمایان تحریک سے یہی گزارش ہے کہ اگر کامیابی ملنے کے بعد اللہ کے نظام کے نافذ کیے جانے کے سلسلے میں عوام کو اس بار بھی دھوکا کھانا پڑا تو شاید اس کے بعد اسلام کے ساتھ پورا پاکستان ہی دفن ہو کر جائے گا (ہزار بار خدا نخواستہ)، لہٰذا اگر یہ تحریک سچے دل کے ساتھ چلائی جارہی ہے تو اچھا ہے ورنہ پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔