جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف 31اکتوبر2019 ء کو اسلام آباد پرچڑھائی کا اعلان کردیاہے،وہ عمران حکومت کو گرانے کے عزم کے اظہار کے ساتھ یہ ’’آزادی مارچ ‘‘ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی،بے روزگاری ،ملکی معیشت کی ابتر صورتحال ،حکومتی ناکامی و نااہلی و کمزور پوزیشن اورکشمیر کاز کو جواز اور بنیاد بنا کر کررہے،حتیٰ کہ حقیقت حال اِس کے برعکس ہے،
مولانا کایہ احتجاج ملک وقوم ،مہنگائی،معیشت کی خراب صورتحال ،کشمیر ایشو ز کے لیے نہیں ہے،صرف اور صرف اپنے لیے ہے،اِس لیے کہ جب سے وہ اقتدار سے دور ہیں،تب سے ہی ہوش سے بیگانہ ہوئے پڑے ہیں، الیکشن ہارنے اور اقتدار سے محرومی کے بعد سے ہی ایسی بہکی بہکی سی ،دل آزار باتیں کررہے ہیں ورنہ اِس سے پہلے ایسا معاملہ نہ تھا،کافی بہتر اورفرینڈلی صورتحال تھی، اقتدار کے دنوں میں مولانا کا ملک کے کونے کونے اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ایک طوطی بولتاتھا مگر جب سے اقتدار کی راہداریوں سے’’بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘‘ والی صورتحال ہوئی،بے حیثیت واہمیت سے ہوگئےـ
کچھ اپنے کاموں اورمذموم حرکتوں کی وجہ سے بھی کھجل خراب ہورہے ہیں،اِس ملک وملت کے کسی کام کے نہیں رہے ، ملک وقوم کے لیے کچھ نہیں کرنے والے،ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بے روزگاری، بدامنی،معیشت کی خراب صورتحال،ملک کی نازک پوزیشن،کشمیر ایشوز مولانا کی فہرست کاحصہ نہیں ہیں،،اِن’’ ہاٹ ایشوز‘‘ پر بولیں گے ضرور،مگر صرف اور صرف اپنے خطاب کو’’ مرچ مصالحہ‘‘اور’’تڑکا‘‘لگانے اور عوامی جذبات و خیالات کو اُبھارنے بلکہ بھڑکانے کے لیے ورنہ اِس بار اِن کے کچھ اور ہی ارادے ہیں(جن کو بیان کر کے میں کسی مزید بھنڈورابکس کو کھولنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، جاننے والے جانتے ہیں اور سمجھنے والے سمجھ جائیں گے)صرف اتنا ہی کہوں گا کہ مولانا جو خود کو جمہوریت،اسلام،کشمیر کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں،مناسب بات نہیں،مولانا تو اقتدار اور مفاد کے حریص ہیں اور ایسے لوگوں کا کسی سے بھی مستحکم و مضبوط تعلق سے دور کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا، جمہوریت، اسلام اور کشمیر تو دور کی بات ہے، جو لوگ فضل الرحمان کو اپنا رہبر ، رہنماء جانتے، مانتے یا سمجھتے ہیں، اُن کو افسوس کے ساتھ بتانا، کہنا پڑتا ہے کہ مولانا اِس قوم کے رہبر و رہنماء یا راستہ دکھانے والے نہیں،جو راستہ دکھا گئے وہ لوگ اور تھے،مولاناکا شمارصحیح اور درست راستہ دکھانے والوں میں کرنا ،ملک کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کے ساتھ بھی ایک دھوکا ، فریب اورناانصافی والی بات ہے،جو لوگ سمجھتے ہیں کہ مولانا کا جمہوریت ،اسلام اور کشمیر سے گہرا تعلق ہے (آخر وہ ایک سیاستدان ،مولوی اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں)اُن سے کہنا ہے کہ فضل الرحمان کا جمہوریت، اسلام ،کشمیر سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مطلب اورمقصد نکلتے ہی اپنا رستہ بدل لینے والے ہیں،صرف رستہ ہی نہیں بدلتے، اپنا ذہن وخیال ،سوچ ووچار کے دھارے بھی محض صرف اپنے ذاتی مفادات واغراض کے لیے بدل لیتے ہیں،ایسے لوگ ہمدردی اور اپنائیت کی آڑ میں ملک وقوم کو وہ ڈنگ مارتے اورنقصان پہنچاجاتے ہیں کہ جس کا ازالہ پھر مدتوں نہیں ہو پاتا،شاید کچھ لوگ میری بات سے اختلاف کریں،لاکھ زور لگالیں،حقیقتوں کو جھٹلالیں مگر سچ یہی ہے جو میں بیان کررہاہوں۔
حقیقت چھپ نہیں سکتی،بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبو آ نہیں سکتی ،کاغذ کے پھولوں سے
کہنے کو تو ہمارے عظیم لیڈر قائد اعظم بھی اپنے دور جدوجہدمیں ہندوستان میں کانگریس کے کچھ مداریوں کی لچھے دار،دل لبھا دینے والی باتوں میں آگئے تھے مگر بہت جلدحقیقت حال پاکر اُن کے پرفریب راستے سے باہر نکل آئے تھے،قائد اعظم جیسا زیرک سیاستدان رہنماء جان چکا تھا کہ مسلمانوں کی حقیقی منزل کا تعین ایک الگ وطن کا قیام ہی ہوسکتاہے، جہاں مسلمان ہندوؤں کے ظلم وجبر سے محفوظ رہیں اور مذہبی آزادی کے ساتھ اپنی پرسکون زندگی گزار سکیں،موجودہ ہندوستان میں اقلیتوں،مسلمانوں پر ہوتے مظالم اِس بات کی گواہی ہیں کہ قائد اعظم کا بتایا ہوا رستہ ٹھیک رستہ تھا اور یہی صحیح راہ، شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی اُس وقت فرمایاتھاکہ
مُلّا کو جو ہے ہِند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور شاعرمشرق علامہ اقبال کا تذکرہ کرنے اور میرااتنا یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اِس قوم کو ایسے اشخاص کی ضرورت ہے جو قوم کو صحیح راستے پر چلاسکیں،اِن کی رہنمائی کرسکیں، ملک وقوم کو ترقی کے راستے پر لے آئیں،نہ کہ اُن فسادی لوگوں کی جو ملک وقوم کے درمیان انتشار اورفساد کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہو، ہمارے جذبات وخیالات سے کھیلنا چاہتے ہو،ہمیں دشمن کی اِس خطے میں لگائی ’’نفرت وخون‘‘کی آگ میں جلانا اور جھلسانا چاہتے ہو،ہمیں اپنے ہی ملک میں ایک دوسرے کے خلاف کرکے ملک دشمن ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہو،ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے خواہشمند ہوئے ’’مارچ‘‘اور ’’دھرنوں‘‘کی سیاست کرنے چل نکلے ہو،ماضی ،حال میں جمہوریت ،اسلام ،کشمیر پر مسلسل ’’روزے کی حد تک‘‘خاموشی اختیار کرنے والے ،اب کس منہ سے احتجاج اور اسلام آباد شہر پر’’ یلغار‘‘ کی بات کررہے ہیں،اِن کی جمہوریت کے لیے جو خدمات ہیں،وہ بیان کرنے کے لائق نہیں،تیری ’’محبت‘‘کا شکوہ کروں تو یہ میری محبت کی توہین ہوگی،اور تو اِس دل میں کیا رکھا ہے،تیرا ہی ’’درد‘‘چھپا رکھاہے،اسلام کو جب نقصان پہنچ رہاتھا اور ختم نبوت کی شقوں کو آئین سے نکالا جارہاتھا ،تب کی بھی کہانی بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ آپ کے’’ لب سلے ہوئے ‘‘کیا رول تھا،
کیا عذر تراشو گے آخر
ٓ جب حشر میں پوچھا جائے گا
کیا اپنے قویٰ سے کام لیا
جب کفر کی دین سے ٹکر تھی
تو تم نے کس کا ساتھ دیا
اور پھر یہ کہ کشمیر کمیٹی میں طویل عرصے تک بطور چیئرمین تعینات رہنے پر آپ نے کیا تیر مارے اور یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر اب تک سمیت آپ کا یہ سارا ٹولہ خاموش کیوں رہا، اس پر بھی روشنی نہیں ڈالنا چاہتا ،اِس لیے کہ اگر میں اِن ’’رازوں‘‘سے پردہ کھول دوں تو یہ بات ملک وقوم کے وسیع تر نقصان میں جاتی اور میں ملک کے ایک ادنیٰ شہری کی حیثیت سے اور بطور کالم نگار ایسا’’پاپ‘‘ہرگز نہیں کرسکتا، جب میرے دیس کے بڑے چپ ہیں تو ہمیں کیا پڑی ہے کہ دنیا کو بتائیں کہ آخر آپ ہو کون؟؟؟ مگر کیا کریں ، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، چپ رہ بھی نہیں سکتے والا معاملہ ہے،بتانا ہی پڑا ’’سجنا‘‘ ظالم ہے دل کی لگی،ابھی بھی جن کو سمجھ نہیں آئی وہ اِس ٹولے کے ماضی وحال کے متعلق معلومات حاصل کرے،امید ہے کہ افاقہ ہوگااور ملک اِن کرپٹ وبے ایمان ٹولے کے ہاتھوں ایک ناقابل تلافی نقصان سے بھی قبل ازوقت بچ جائے گا اور یہ کہ ملک کی آن بان شان کا تحفظ ویسے بھی ہماری ایک ذمہ داری اور فرض اولین،جسے ہمیں نبھانا ہے،ہر صورت نبھاناہے،جان تو آنی جانی چیز ہے ،اِس کی فکر کسے،
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہیں ہم
سو بار کر چکا تو امتحان ہمارا