ہمارے گاؤں میں ایک اونچی جگہ ہوتی تھی، جوغالباً آج بھی ہے ۔اس کے ڈھلوان پرچڑھ کر گاؤں کے اکثرنوجوان اور بچے اکٹھے کبڈی، کرکٹ، گلی ڈنڈا اور آنکھ مچولی سمیت دیگرچھوٹے موٹے گیم کھیل کرانجوائے کرتے۔ایک دن ہم اس ڈھلوان پر چنددوستوں کے ساتھ بیٹھ کرگپ شپ لگارہے تھے کہ پاس ایک بچے نے دوسرے کوکان سے پکڑتے ہوئے کہا کہ اس طرح کان سے پکڑ کر پہلے میں آپ کوتھپڑماروں گا پھر اس طرح تم مجھے کان سے پکڑ کرتھپڑ مارنا ۔ اس نے کہاٹھیک ہے ۔ ہمیں بھی ایک تماشاملا اس لیے ہم نے اپنی نظروں کے ساتھ ساری توجہ بھی ان دونوں بچوں کی طرف مرکوزکردی۔جس بچے نے یہ کھیل شروع کیاتھا اس نے دوسرے بچے کے کان کوپکڑتے ہوئے پوری طاقت سے اس کے چہرے پرایک تھپڑمارا ۔ اس کے بعدچہرے کوملتے ملتے دوسرے بچے نے پہلے والے کے کان کوہاتھ میں پکڑتے ہوئے اس کے چہرے پر ایسے زور کا تھپڑ رسید کیا کہ وہ دردسے بلبلانے ، چیخنے اورچلانے لگا ۔ نہیں نہیں ۔میں نے اتنے زورسے تھپڑمارنے کانہیں کہاتھا ۔ اپنے چہرے کوملتے ہوئے وہ روتے جارہاتھا اور دوسرے بچے کوگالیوں پرگالیاں دیے جارہاتھا ۔پھرکیاہوا ۔۔؟ یہ توہمیں یادنہیں لیکن آج مولانافضل الرحمن کے آزادی مارچ اورممکنہ احتجاجی دھرنے پرجب 126دن ڈی چوک میں دھرنادے کراسلام آبادکویرغمال بنانے والوں کی چیخ وپکار ، آہ وبکا ، رونادھونا اور گالم گلوچ ہم دیکھتے ہیں تو فوراً وہ گالیاں دینے والا ، چیختا چلاتا بچہ یادآجاتاہے۔مارچ اوردھرنے کاکھیل پہلے کس نے شروع کیا۔۔؟ایک منتخب اورجمہوری حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں اپنے لاؤلشکرسمیت 126دن کا تاریخی دھرناکس نے دیا۔۔؟اپنے تعلیم یافتہ اورقوم کادرددل رکھنے والے پارٹی عہدیداروں اورکارکنوں کے ہمراہ پی ٹی وی سنٹرپردھاواکس نے بولا۔۔؟ ڈی چوک میں دھرناسجاکرقوم کوبجلی اورگیس کے بل جلانے کی تعلیم کس نے دی ۔۔؟ قوم کوظالم حکمرانوں سے اپنے حقوق چھین کر لینے کے لیے گھروں سے نکلنے ، احتجاج، مارچ اوردھرنادینے کادرس کس نے دیا۔۔؟ سادہ لوح عوام کوجلاؤ اور گھیراؤ کے مفت مشورے کس نے دیے۔۔؟ گستاخی معاف۔اس وقت ملک میں جوکچھ ہورہاہے یہ سنت عمرانی پرمن وعن عمل ہی توہے۔ ہماری اس سادہ لوح قوم کواحتجاج ، مارچ اوردھرنوں کا کیاپتہ تھا۔۔؟انہوں نے تو آج تک کسی حکمران کے سامنے زبان بھی نہیں کھولی ۔سابق وزیراعظم نوازشریف سے ہماراکوئی لینا دینا تھا نہ ہی اب مولانا ہمارے کوئی رشتہ دارہیں ۔ نوازشریف جب اقتدارسے دوپاؤں اورخالی ہاتھ جیل گئے تو ہم نے بھی کہا کہ اچھاہوا ۔ نوازشریف کے اقتدار سے جانے پرجتنی خوشی تمہیں ہوئی اس سے کہیں زیادہ خوش ہم بھی ہوئے ۔ حکمران اگر رعایا کو گھرکی لونڈی سمجھے،غریبوں کے حقوق ہڑپ کریں۔جعلی پولیس مقابلوں اوربے انصافیوں کو ہوا دیں ۔اللہ کوبھول کرظلم وستم کو اپنا شعار بنائے تو انہیں پھرجیل ہی جانا چاہیے ۔ نوازشریف یوں جیل نہیں گئے ۔بطورحکمران ان سے ایسی کوئی غلطی ، گستاخی ، گناہ ، جرم اورظلم ضرورسرزد ہوا جن کی وجہ سے وہ اس مقام تک پہنچے۔کسی ظالم ، گناہ گار اور مجرم کو اگر ان کے کالے کرتوتوں کی سزا ملے تو ہمیں اس پربھلا کیا اعتراض۔۔؟لیکن ہاں ایک منتخب حکومت اورجمہوریت کے خلاف مولانا کے احتجاج ، مارچ اوردھرنے پر ماضی کی طرح ہمیں اعتراض ضرورہے مگر انتہائی معذرت کے ساتھ اس احتجاج ، مارچ اور دھرنے کے جدامجدبھی وزیراعظم عمران خان اور ان کی تحریک انصاف خودہے۔عوام کواپنے حقوق اورظلم کے خلاف باہرنکلنے کادرس وزیراعظم عمران خان نے ہی دیاکسی اورنے نہیں ۔عوام اگر ایک منتخب وزیراعظم نوازشریف کی فرعونیت اور ظلم کے خلاف گھروں سے نکلے تو پھر وہ آج کے ان فرعونوں کے خلاف کیونکرنہیں نکلیں گے۔۔؟ملک وقوم کے مفاد میں اٹھائے جانے والے ہراقدام اورحق وسچ کی ہم نے ہمیشہ حمایت کی لیکن اپنے کرتوت چھپا کر دوسروں کی طرف انگلی اٹھانے کو نہ ہم نے پہلے اچھا سمجھا اور نہ ہی اس حرکت کو ہم آج اچھی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔جمہوریت سے ہمیں بھی حدسے زیادہ محبت ہے لیکن مولاناکے آزادی مارچ کو جو لوگ آج جمہوریت پر حملہ قرار دے کر آسمان سرپر اٹھارہے ہیں یہ محب وطن اورجمہوریت کے علمبردار تحریک انصاف کی اسلام آباد پر یلغارکے وقت کہاں سوئے ہوئے تھے۔۔؟ جو لوگ آج مولانا کو اتحاد و اتفاق اورسیاسی مصلحت کی تعلیم دے رہے ہیں ان کی زبانیں پی ٹی آئی دھرنے کے وقت کیوں خاموش رہیں ۔۔؟ہم نہ پہلے کبھی جمہوریت کے خلاف رہے اورنہ ہی آج ہماری جمہوریت سے کوئی دشمنی ہے ۔ اوروں کی طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت پلے پھولے مگر،، جیسا کرو گے ویسا بھرو گے،، سے تو ہمیں کیا۔۔؟کسی کالے کافر کوبھی انکارنہیں ۔یہ تو قانون فطرت ہے کہ انسان جوبوتاہے وہی پھرکاٹتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ڈی چوک میں 126دن کا تاریخی دھرنا دے کر جو بیج بویا تھا آج اسی کو کاٹنے کاوقت آگیا ہے۔ایک منتخب جمہوری حکومت کے خلاف اگر وزیراعظم عمران خان احتجاج اور آزادی مارچ کر کے دھرنا نہ دیتے تو آج مولانا کوبھی آزادی مارچ کا خیال کبھی نہ آتا۔مولانا کا مارچ آج اگر غلط ہے توپھرتحریک انصاف کے دھرنے اورمارچ کوبھی کسی طرح ٹھیک نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ہم روز اول سے ہی یہی کہتے آرہے ہیں کہ جو چیزتم اپنے لیے پسندنہیں کرتے وہ دوسروں کے لیے بھی پسند نہ کرو مگر افسوس اقتدارکی رنگینیوں میں مدہوش ہو کر ہمارے یہ نادان حکمران دوسروں کے لیے ایسے ایسے کھڈے کودجاتے ہیں جس میں یہ پھر خودمنہ کے بل گرتے ہیں ۔سابق وزیراعظم نوازشریف بھی ایک وقت میں سیاسی مخالفین اور دوسروں کے لیے انتقام کی آگ میں کودکرنت نئے جال بچھایاکرتے تھے لیکن پھردنیانے دیکھا کہ میاں صاحب ان جالوں میں خودپھنسے ، اور ایسے پھنسے کہ اب نکلنے کے آثارہی دکھائی نہیں دے رہے۔موجودہ حکمرانوں نے بھی انتقامی سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ہرسیاسی مخالف کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینے کاعمل اس وقت پورے ملک میں زور وشور کے ساتھ جاری ہے۔مولانا کا احتجاج اوردھرنا وزیراعظم عمران خان کی سنت پرعمل نہ بھی ہوتویہ قدرت کی طرف سے ان کے لیے ایک وارننگ ضرورہے۔یہ اقتدار،کرسی ،طاقت اورحکمرانی ہمیشہ کسی کے پاس نہیں رہنی ۔ آج عمران خان ملک کے وزیراعظم ہیں توکل کونوازشریف دوبارہ وزیراعظم بن سکتے ہیں۔حقیقی حکمرانی تو صرف اللہ ہی کی ہے ۔یہ زمینی حکمرانی ، اقتدار اور کرسی تو اس رب کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے جواس میں کامیاب ہوا وہ دونوں جہانوں میں سرخرو ہوجاتا ہے لیکن جوحکمران طاقت کے نشے میں خدا کو بھول جاتے ہیں وہ پھر کوٹ لکھپت ، اڈیالہ جیل اور نیب دفاترکے چکر پر چکر لگاتے پھرتے ہیں۔عوام کوکیڑے مکوڑے اوراحتجاج کرنے والوں کودوسری دنیاکی مخلوق سمجھنے والوں کوایک بات یادرکھنی چاہیے کہ کل کو کوٹ لکھپت ،اڈیالہ جیل ،ٹارچرسیل اورنیب کے حراستی مراکز ان کی بھی منزل ہوسکتی ہے۔تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے نوازشریف اگرمکافات عمل سے نہیں بچے تویہ پھرکس باغ کی مولی ہیں۔۔؟ ویسے چھاننی اگراٹھ کے کوزے کوکہے آپ میں دوسوراخ ہے تو پھر دنیا اس پرصرف ہنستی نہیں بلکہ قہقہے بھی لگاتی ہے۔ اقتدار اورکرسی کے چکر میں ایک طویل دھرنے اورناچ گانے کے ذریعے اسلام آبادکو تماشا بنا کر آسمان کوسر پراٹھانے والو کو دوسروں کو اخلاقیات کا درس دینے سے پہلے کم ازکم ایک بار اپنے گریبان میں ضروردیکھناچاہیے۔ جولوگ کل تک چوکوں اورچوراہوں پرسرعام احتجاج ، جلسے ، جلوس ، مارچ اوردھرنوں کوعوام کا بنیادی حق اورظالم حکمرانوں کے خلاف فرض قرار دیتے رہے ان لوگوں کو اب احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں ، تاجروں ، اساتذہ اورغریب عوام پر لاٹھیاں اور ڈنڈے برساتے ہوئے کچھ شرم کرنی چاہیے۔ان کواب یہ زیب نہیں دیتا کہ یہ مولانا یا کسی اور احتجاج کرنے والے کا راستہ روکیں۔عقل کے ان کوروں نے سادہ لوح عوام کو جو شعور دیا تھا یہ تو اس کی شروعات ہیں ۔ایسے ہی موقع پر تو کسی شاعر نے کہا تھا کہ
ابتدائے عشق ہے روتاہے کیا۔۔۔۔آگے آگے دیکھئے کہ ہوتاہے کیا