لوٹ سیل

            موسم گرما کی تعطیلات سے کوئی ایک ماہ قبل قطر کے ہر بڑے سٹور اور شاپنگ  مال میں آپ  کو ایک ہی بورڈ آویزاں نظر آئے گا جس پر لکھا ہوگا ’’خصم%50۔عربی میں ڈسکاؤنٹ کو خصم کہا جاتا ہے۔دوحہ آمد کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب پہلی بار میرا واسطہ خصم سے ہوا (پنجابی والے نہیں عربی والے سے) یعنی ہر اسٹور پر خصم % 50کے بورڈ نظر آئے ، چند لمحے حیران وششدر امن بورڈز کو تکتا رہا  کہ کیا واقعی دنیا نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب ’’خصم‘‘بھی برائے فروخت ہوگا وہ بھی اچھے خاصے ڈسکاؤنٹ پر۔وہ تو بھلا ہو میرے دوست کا جس نے میری پریشانی بھانپتے ہوئے ’’خصم‘‘ کا اردو ترجمہ کردیا۔قطر میں اگر کلیئرنس سیل کا بورڈ آپ کو نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ وہ مال چند دنوں میں ہی کلیئر ہو جائے گا، یعنی واقعتا ہر شے سستی ہی ملے گی، پاکستان میں اگر کسی مال پرلوٹ سیل کا بورڈ نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ آٓپ واقعی لٹنے والے ہیں۔اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب دوحہ سے دو ماہ کی تعطیلات گرما گزارنے پاکستان گیا ،چند روز بعد ہی بیگم نے فرمائش کی کہ ساہیوال چلتے ہیں، وہاں سارے برانڈز پر سیل لگی ہوئی ہے،کس وناکس سیل پوائنٹ کا رخ کیا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بہت سے شاپنگ مالز پر واقعی جلی حروف میں لکھا ہوا تھا کہ لوٹ سیل۔ ایک برانڈ میں ہم بھی گھس گئے، روشنیوں کی چکا چوند میں ہر سوٹ ہی پرکشش لگنے کی بنا پر بیگم نے بھی کوئی ستر ہزار کو چونا لگا دیا، گھر پہنچے تو سوٹ کی چمک سے زیادہ بیگم کا چہرہ دمک اور چمک رہا تھا۔ مارے خوشی کے اپنی بھانجیوں کو نمائشی نظر کے لیے یونہی پہلا سوٹ کھول کر دکھایا تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ مراد میاں واقعی لوٹ سیل میں ہم لٹ چکے ہیں۔وہ جو جلی حروف میں’’لوٹ سیل‘‘لکھا ہوا تھا اب جعلی سا لگنے لگا۔اس روز میرا ایمان اس بات پر اور بھی پختہ ہو گیا کہ لوٹ سیل محض لوٹنے کے لیے ہی لگائی جاتی ہے۔لوٹ سیل میں لٹنے کے بعد دوتجربات میرے علم میں اضافے کا باعث بنے،ایک یہ کہ لوٹ سیل کا سامان چائنہ کے مال کی طرح ہوتا ہے’’چلے تو چاند تک وگرنہ رات تک‘‘دوسرا یہ کہ لوٹ سیل میں خواتین کے لٹنے کا چانس سو فیصد ہوتا ہے۔

عورت کے لٹنے کی خبریں اکثر اوقات آٓپ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں مگر مرد کے لٹنے کی کبھی کوئی خبر کسی اخبارمیں شائع نہیں کی جاتی حالانکہ مرد بے چارہ ہر لوٹ سیل پر اپنی بیوی اور دوکاندار کے ہاتھوں لٹتا ہے، عورت لٹتے سے شور مچا دے تو پوری قوم یک آواز سراپا احتجاج بن جاتی ہے اور تو اور منہنی جسم کے متحم چاچا ،ماجھا بھی حسب استطاعت ’’چھیڑو‘‘کے منہ پر طمانچہ دے مارنے کو تیار ہوتے ہیں، بلکہ ایک آدھ کو تو  ان کی ہمت کی داد بھی دینا پڑتی ہے ، لیکن لوٹ سیل مرد کے ’’لٹنے‘‘کا ایسا ذریعہ ہے جس پر قوم تو کجا اپنی ذاتی بیوی خاوند کو دوکاندار کے سامنے ہی کہہ رہی ہوتی ہے کہ دیکھا اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے، یہ سنتے ہی دوکاندار بھی زیر لب مسکرارہا ہوتا ہے کہ دیکھنے میں تو یہ بندہ اونٹ نہیں لگ رہا۔

ایک بار اخبار میں لوٹ سیل کا اشتہار دیکھ کر کہیں میرے منہ سے نکل گیا کہ بیگم سیل اور تمہارا رشتہ ایسے ہی ہے جیسے سانپ کا زہر سے،شیرنی(بیوی)ایک دم غرائی اور میری طرف اپنی دانست میں سینڈل پھینکتے ہوئے کہنے لگی کہ کیا میں تمہیں زہر لگتی ہوں۔ مارے ندامت جھوٹ بولنا پڑا کہ نہیں بیگم تم کیوں زہر لگنے لگی مجھے ،ابھی فقرہ مکمل نہیں ہوپایا تھا کہ دوسرا سینڈل بھی کان کو چھوتا ہوا گزر ا بیگم کی اس صدائے احتجاج کے ساتھ کہ اچھا تو پھر اس کا مطلب ہے کہ میں سانپ ہوں۔ بیگم آٓہستہ کہیں سانپ سن ہی نہ لے،اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ بندہ جائے تو جائے کہاں؟سانپ کو سانپ اور زہر کو زہر نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔

ویسے کیا مزہ ہو اگر سانپ کے زہر اور خواتین کی زہر بھری باتوں پر بھی سیل لگائی جائے ،آپ کے خیال میں کس دوکان پہ ہجوم ہوگا، یقینا خواتین کا پلڑا ہی بھاری ہوگا بلکہ عین ممکن ہے اور  مجھے تو یقین واثق ہے کہ سانپوں کی ایک کثیر تعداد زہر مانگنے کے لیے خواتین کے درآستانہ پر سجدہ ریز ہوں۔سیل میلہ واحد میلہ ہے جس میں نہ سیل ہوتی ہے نہ میلہ ہوتا ہے بلکہ ’’میل ملاپ‘‘ہی ہوتا ہے۔کہتے ہیں خواتین کبھی دھوکہ نہیں کھاتیں ماسوائے ’’سیل ‘‘کے۔سیل خواتین کی ذہانت ناپنے کا وہ آلہ ہے جس میں ان کا نہیں خاوند کا ٹمپریچر نقطہ عروج پر رہتا ہے۔لان سیل میلہ خواتین کا پسندیدہ میلہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں سہیلیوں سے میل ملاپ کے چانس زیادہ ہوتے ہیں۔سب سے زیادہ خریداری لان سیل میلہ میں ہی کی جاتی ہے،خریداری کے بعد گھر آکر اپنے ہی خاوند کو یہ باور کرانے میں مشغول ہوتی ہیں کہ شکر ہے لان پر اس بار 50 % ڈسکاؤنٹ تھا ،میں نے کمال عقل مندی سے ایک لاکھ کی شاپنگ سے پورا پچاس ہزار آپ کا بچایا ہے۔یہ بھی خام خیالی ہے ، آپ کبھی بھی مارکیٹ میں ریٹ چیک کر لیجئے سیل سے قبل بھی ان سوٹوں کے دام وہی ہوتے ہیں جو سیل پر ہوتے ہیں گویا سیل میں دام کر کے خواتین کو دام میں پھنسایا جانا ہوتا ہے۔خاوند من ہی من میں پچاس ہزار کے بارے میں باعث تشویش ہوتا ہے کہ خاوند کا اترا چہرہ دیکھتے ہی محترمہ جھوٹ موٹ کی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہہ رہی ہوتی ہیں’’آپ تو کبھی بھی میری بچت اور شاپنگ سے خوش نہیں ہوتے‘‘اب آپ خود ہی بتائیں جہاں شاپنگ ہوتی ہے وہاں بچت کہاں ہوتی ہے۔

کاروباری لوگوں کا خیال ہے کہ عورتیں نہ ہوں تو کاروبار اور کاروبارِزندگی دونوں ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں۔یہ خیال صرف مردوں کا نہیں خواتین بھی مردوں کے بارے میں یہی رائے رکھتی ہیں،کہ مرد اگر عقل کے ناخن لے لیں تو عورت اپنے ناخن کبھی نہ بڑھائیں۔ میرے خیال میں گھر،ملک اور کاروبار بغیر’’لوٹ سیل ‘‘کے اب نہیں چلتے۔

لان کے بعد سب سے زیادہ سیل جوتوں کے برانڈ پر لگائی جاتی ہے،سال گذشتہ میں بھی قطر واپس جاتے ہوئے ایک جوڑا جوتوں کا سیل سے  پندرہ صد میں خرید کر لے گیا جو کہ قبل از سیل تین ہزار کا تھا۔ پورے تیس دن میرے پاؤں کو فرحت وراحت پہنچانے کے بعد ایک دم سے خیر باد کہہ گیا، اگلے سال اسی دکاندار سے گلہ کیا تو کہنے لگا سر آپ جوتے لے آتے میں یہاں سے سلوشن لگوا دیتا، اس کے اس عقلمندانہ مشورہ پر میرے منہ سے بے اختیار یہ جملہ نکلا کہ ’’چونا لگاتے سلوشن نہیں لگاتے‘‘ جوتوں کی دوکان کیا ،ملکی اداروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پورا ملک ہی ’’چونے اور سلوشن‘‘ پر چل رہا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں