،”باجی اللہ کے نام پر کچھ دےدو” چھ سات سالہ لڑکے نے گاڑی کی ادھ کھلی کھڑکی سے اپنی ہتھیلی میرے سامنے پھیلاتےہوئے کہا۔
میں نے جب اس کی جانب دیکھا تو اس کی ابتر حالت اور معصوم چہرہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔اتنی سی عمر میں تو شاید اسے گداگری کا مطلب بھی معلوم نہ ہوگا، پراس کے سنگدل ماں باپ نے اسے خاندانی پیشے میں لگا دیا۔دور کھڑی اس کی ماں گود میں چند ماہ کا بچہ لیے قریبی دکانوں پر کھڑےگاہکوں سے بھیک مانگنے میں مصروف تھی۔
اتفاق سے میرے پاس کھلے روپے موجود نہ تھے ،لہذا میں نے اسے بتا دیا کہ بیٹا کھلے روپے نہیں ہیں ، پر وہ بچہ کھڑکی سے چمٹ کر کھڑا رہا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے سکے سے میری گاڑی پر کھرونچ( scratch ) لگانے لگا ، یہ دیکھ میں نے زرا سختی سے اسے ایسا کرنے سے روکا پر وہ بہت ضدی تھا ، گاڑی کے سائڈ ویو شیشے میں اپنی شکل دیکھنے لگا۔
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ؟ گاڑی کے ڈیش بورڑ ٹٹولنے پر کچھ سکے ہاتھ آئے ،میں نے جلدی سے اس بچے کے حوالے کیے ،اس نے سکے لیے اور منہ چڑا کر دور بھاگ گیا ۔
میں حیرت سے اس بچے کو جا تا دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اس بے چارے بچے کا کیا قصور ہے ، وہ ایک فقیر خاندان میں پیدا ہوا اور پیدائش سے لے کر اب تک وہ انہی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پربھٹک رہا ہے ،اس جیسے ہزاروں بچے در بدر کی ٹھوکروں میں بڑے ہوتے ہیں ،اور پھر یا تو اس ماحول میں پرورش ملنے سے ان کی غیرت کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے اور وہ پکے اور پیشہ ور بھکاری بن جاتے ہیں جنہیں ہر طرح کے فریب اور مکاری کے ہتھکنڈوں کے زریعے لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کا فن آجا تا ہے ،یا پھرکسی منشیات فروش اور جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھ کر گمراہیوں کے گھڑھے میں گر جاتےہیں ۔
یہ پیشہ ور گداگر بھی ہمارے ہی مسلمان بھائی بہن ہیں ،ہمارا کچھ فرض ان کی جانب بھی بنتا ہے ،میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ جب بھی کسی ہاتھ پیر سلا مت صحت مند گداگر کو سمجھایا کہ اللہ کی ان نعمتوں کی قدر کریں ، کوئی کام کاج کر کے روزگار حاصل کریں تو انہیں بہت ناگوار لگا ۔ ایک فقیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ”باجی آپ کیا سمجھتی ہیں ، کیا بھیک مانگنا آسان کام ہے ؟یہ بہت محنت کا کام ہے ،سارا دن گرمی سردی دھکے کھانے پڑتے ہیں،ہم بھی تو محنت ہی کر رہے ہیں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰!اصل مسلۂ یہی ہے کہ جس بات کا شعوراور ادراک ہی نہ ہو اس پر قائل کرنا بہت مشکل ہو تا ہے۔
انفرادی طور پر تو اکثر افراد میری طرح ان گداگروں کو سمجھانے اور محنت میں عظمت کی ترغیب دلانے کی کوشش کرتے ہی ہیں ، مگر یہ مسئلہ ان منتشر اور غیر منظم کاوشوں سے حل ہونے والا نہیں ہے ۔ اس تیزی سے بڑھتے گداگری مافیا کو قابو میں کرنے کے لیے یا تو حکومت وقت اور یا پھر درد مند دل رکھنے والی این۔جی۔اوز (N.G.O) اپنا کردار ادا کریں ۔
سب سے پہلے ان پیشہ ور گداگروں کی تعدار اور رہائش کے مکمل کوائف(Data)کا اندراج کریں۔اس کے بعد لائحہ عمل بنا کر باقاعدہ مربوط ٹیمیں ان کی ذہنی کونسلنگ کرنے جائیں ۔ انہیں اس بات کا احساس دلائیں کے وہ بھی با عزت شہری کی زندگی گزار سکتے ہیں ۔کام کرنے کی ترغیب اور وسائل فراہم کریں ۔ان کے بچوں کو مفت تعلیم کی سہولت دیں ۔
مجھے یقین ہے کہ اگر لگن اور اسلامی اخوت کے جزبے کے ساتھ اس نوعیت کے اقدامات کیے جائیں تو دن بہ دن بڑھتے اس گداگری کے عنفریت کو قابو میں لایا جا سکتاہے ،بس کمی ہے تو ہمارے جذبوں میں ، ورنہ اگر جذبہ سچا ہو تو چٹان کاٹ کر بھی راستہ نکالا جا سکتا ہے ۔
پیارے نبیُ کا ارشاد ہے
“قسم ہےاس اللہ کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی شخص ایمان دار نہی ہو سکتا
جب تک وہ اپنےبھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے”
(بخاری و مسلم)