یہ سرینگر کی کربناک شام تھی ہر طرف اداسی چھائی ہوئی تھی۔محلے میں موجود ہندو اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔شیریں کی طبعیت کب سے تلخ ہو چکی تھی, اب تو اس کا احساس بھی جاتا رہا۔یہ سب دیکھتے ہوئے اسے ٩٠ کی دہائی یاد آنے لگی جب انڈین فوجیوں نے اس کے محلے میں دھاوا بول دیا تھا۔ تب ان درجنوں کشمیریوں میں اس کے سر کا تاج بھی ایک تھا جسے زدوکوب کرنے کے بعد گاڑی میں ڈالا گیا اور اس دن کے بعد سے وہ لاپتہ تھا۔ زندگی کی گاڑی کا پہیہ گھومتا رہا اور ہر گذرتے لمحے نے اس کے کرب میں اضافہ ہی کیا ، اسے وہ دن بھی یاد تھا جب اس کے محلے میں خوشیاں منائی گئیں ، جب پاکستان نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے ، کشمیریوں کے دلوں میں امنگ جاگی کہ اب کشمیر ضرور آزاد ہوگا۔
اماں۔۔اماں۔۔۔انعم اور کرن کی آواز نے شیریں کو ماضی کے سمندر سے نکالا” اماں ! مرغیوں کا دانہ ختم ہو گیا اور گھر کا راشن بھی ختم ہے۔“ سب کچھ سننے کے باوجود شیریں پر خوف وہراس کی فضا چھائی رہی ایک عجیب سا خوف جسے اس کے جسم کا رواں رواں محسوس کررہا تھا ، شام ڈھل چکی تھی مگر وہ اب بھی سوچوں میں گم تھی۔اب اسے اپنے بیٹے یاد آنے لگے ،کیسے ان فوجی وردی والوں نے یکے بعد دیگرے ایک ہی ماہ میں اس کے دونوں جواں سال بیٹے گھر سے اٹھا لیے تھے جو کبھی لوٹ کر نہ آئے۔ پہلے اباجی کے ہونے سے بڑا آسرا تھا لیکن اب تو وہ بھی برسوں ہوئے چل بسے۔انہی سوچوں میں گم وہ اٹھی اور جائےنماز پر کھڑی ہوگئی اور گریہ وزاری میں مشغول رہی اور نجانے کب صبح ہوگئی۔
انعم اور کرن نے ناشتے پر شیریں کو بلایا اور آپس میں سرگوشی کرنے لگیں” آج اماں ساری رات نہیں سوئی ، نجانے کیا بات ہے“۔شیریں کو ایک انجانہ ساخوف کل سے کھائے جارہا تھا۔ابھی ان تینوں نے ناشتا بھی نہیں کیا تھا کہ فوجی گاڑیوں کا شور ہر طرف سنائی دینے لگا۔ مائیک سے آوازیں آنے لگیں کہ کرفیو لگ چکا ہے اس لیے کوئی گھر سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کرے۔فوجی گاڑیاں ، سائرن اور انکا شور۔۔ دونوں خوف و ہراس کے عالم میں اماں کے پہلو میں آبیٹھیں۔ شیریں نے گھر کے دروازوں پر اندر سے تالے لگائے اور مٹی کا تیل اور ماچس لاکر سرہانے رکھ دی۔ پاس بیٹھی انعم کے سر میں ہاتھ پھیر کر بولیں ”آزادی کی جدوجہد میں ماؤں نے اپنے بیٹے قربان کیے تو بیویوں نے اپنے سر کے تاج کھو دیے۔ مجھےیہ دونوں اعزاز نصیب ہوئے لیکن مجھے تم دونوں کے ساتھ ہونے والی انہونی سے ڈرلگتا ہے ۔۴۷ میں ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دےکر پاکستان حاصل کیا۔ لیکن انگریزوں اور ہندوؤں کی چال بازیوں نے کشمیر کا معاملہ لٹکائے رکھا۔کچھ حصہ پاکستانی افواج اور مجاہدین کی کوششوں سے آزاد ہوا لیکن باقی ماندہ حصہ اب تک بھارت کے قبضے میں ہے اور ہم جیسے لاکھوں لوگ ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔اس وقت ہجرت کرنے والوں نے بڑی قربانیاں دیں۔لاشوں سے بھری ٹرینیں پاکستان پہنچتی رہیں۔ہمارے جوان شہید ہوئے، بچے لاپتہ ہوئے اور ہماری عورتوں نے اپنی چادر کی حفاظت کے لیے کنووں اور ندیوں میں چھلانگیں لگائیں اور جو ان وحشی درندوں کے ہتھے چڑھیں وہ کئی کئی مردوں کی درندگی کا شکار ہوتی رہیں ۔“انعم نے گفتگو میں حصہ لیا جیسے وہ ماں کی تمہید کا مدعا سمجھ گئی ہو۔ ”اماں۴۷ کے بعد اتنے سال گزر گیے ، کیا ہمارے پاکستانی فوجی بھائیوں کو ہم پر ہونے والے ظلم و ستم کی خبر نہیں پہنچ رہی ؟ کیا دنیا میں رہنے والے مسلمان بھائیوں کو معلوم نہیں کہ بھارتی فوجی ہم پر کیا ظلم وستم ڈھارہےہیں ، پچھلے ستر سالوں سے ہماری نسلیں کٹ رہی ہیں ، مررہی ہیں ، ہم گھٹ گھٹ کر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ہمارے بھائی،باپ شہید ہوچکے ہیں ، ہمارے سر پر کسی کا سایہ نہیں ۔آج ہم اپنی عزت کو بچانے کی خاطر مٹی کا تیل اور ماچس لیے بیٹھی ہیں کہ اگر انڈین آرمی درندگی پر اتر آتی ہے تو ہم جیسی بےکس کشمیری عورتوں کے پاس اس کے سوا کوئی حربہ نہیں کہ ہم اپنے آپ کو جلا ڈالیں کیونکہ وہ ہماری لاش کو بھی نہ بخشیں گے ۔
کیا روز قیامت ہم اپنے مسلمان بھائیوں کا گریبان نہیں پکڑیں گی. اے رب ،جس حجاب و چادر میں تو نے ہمیں رہنے کا حکم دیا تھا اس چادر ، اس عزت کو بچانے کےلیے ہمارے مسلمان بھائیوں میں سے کوئی آگے نہ بڑھا ، ان کی بیٹیاں گھروں میں محفوظ تھیں اس لیے انھیں ہماری عزتوں کا احساس نہ رہا کہ مجھ جیسی لاکھوں عورتیں ان بھوکے درندوں کی حوس کا نشانہ بن رہی تھیں،کتنی ہی کشمیری بیٹیوں کی عزتیں نوچی جا رہی تھیں یا وہ خودکشی کرنے پر مجبور تھیں۔“ کرن نے کہا ”ہاں اماں ہم ضرور اپنے پاکستانی فوجی بھائیوں کا گریبان پکڑینگی کہ انھوں نے اپنی شہ رگ کو درندوں کے ہاتھوں میں دے دیا کم از کم پڑوسی ہونے کا فرض نبھا لیا ہوتا۔“
کرفیو لگے آج دسواں روز تھا گھر میں تین بھوک سے نڈھال زندہ لاشیں موجود تھیں۔ دروازے کو زور زور سے پیٹا جا رہا تھا انڈین فوجی درندوں کے بوٹ دروازے پر برس رہے تھے اور پھر تین زندہ لاشیں جل کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئیں۔رب کی عدالت میں یہ مدعا کس کے حق میں دائر ہوا یہ تو روز قیامت پتہ لگے گا ۔لیکن پاکستان کو اس کی بزدلی کی سزا اس دنیا میں مل رہی ہے ۔نااہل حکمران ، مہنگائی، کرپشن ،پانی کی قلت، سیلاب و قدرتی آفات ،انڈیا کے پانی چھوڑنے سے کھڑی فصلوں کی بربادی ،اداروں کی تباہی ،عدم تعلیم، عدم تحفظ، عدم استحکام ،بےروزگاری۔کشمیری مسلمانوں کی مدد نہ کرنے کے سبب ایک عذاب کی کیفیت سے گزر رہے ہیں پاکستانی ۔۔۔۔۔۔کیا اہل علم کی نظر یہ دیکھ پا رہی ہیں کہ مظلوم کی آہ برباد کردیتی ہے اور مظلوم بھی وہ جو اپنا ہو، اپنے جسم کا حصہ ہو۔۔۔۔
کیا اپنی کشمیری بہنوں کی عزت و ناموس کی خاطر پاکستانی فوج محمد بن قاسم کی صورت وہاں پہنچے گی۔۔۔۔۔کیا پاکستان کا دفاع کشمیر کے دفاع کے بغیر ادھورا نہیں؟
ہاں ایسا ممکن ہے۔۔۔ ہاں ایسا ضرور ہوگا۔۔۔کیونکہ جذبہ جہاد سرد ضرور پڑا ہے مگر مرا نہیں ۔۔۔لاکھوں کشمیری اور مسلمان بہنیں اس کی منتظر ہیں کہ جب سرینگر کی فضا میں یہ نعرہ گونج رہا ہوگا پاک فوج زندہ باد ۔۔۔۔۔پاکستان پائندہ باد۔۔۔