آ ج کشمیر کی فضائیں ”کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعروں سے گونج رہی ہیں ۔بچے ،جوان ، بوڑھے ہر زبان پربس ایک یہی نعرہ ہے ۔ آج اگر میں یہ کہوں کہ کشمیری قوم میں شعور آ چکا ہے تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گی۔یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ شعور تو تھا لیکن غلامی میں بسر کی گئی زندگی کی وجہ سے ہم نے عقل وشعور سے کام لینا چھوڑ دیا تھا ۔ہم خود کو پیدائشی غلام سمجھ بیٹھے تھے اوریہ بھول بیٹھے تھے کہ ہر انسان آزاد پیداہوا ہے ۔اس کی وجہ اپنی تاریخ سے دوری بھی تھی ۔ ہم سے ہماری تاریخ چھین کر غلام بنا دیا گیا لیکن غلام بنانے والے شاید بھول چکے تھے کہ آزادی ایک فطری جذبہ ہے، جو انسانوں میں ہی نہیں بلکہ جانوروں ،پرندوں حتیٰ کہ پودوں میں بھی پایا جاتا ہے تو پھر انسانوں کو اس نعمت خداوندی سے محروم کیسے رکھا جا سکتا ہے۔آزادی کا جذبہ جب ٹھاٹھیں مارتا ہے تو اپنے آگے آنے والی بڑی سے بڑی رکاوٹ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔حب الوطنی اورجذبہ آزادی ایسے جذبات ہیں جن کے لیے انسان اپنی جانوں کے نذرانے دینے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے ۔ یہی حب الوطنی اور جذبہ آزادی تھا جس کے لیے برہان مظفر وانی نے اور ان جیسے ہزاروں نوجوانان وطن نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر تحریک آزادی میں نئی روح پھونکی۔ آج کشمیر کا بچہ بچہ سید علی گیلانی کا سپاہی ہے اور آج کشمیر کا ہر نوجوان برہان مظفر وانی ہے ۔ پاکستان سے محبت کشمیریوں کے خون میں رچ بس گئی ہے ۔وہ اپنے شہیدوں کو سبز ہلالی پرچم میں سپرد خاک کرتے ہیں اور جنازوں میں نعرہ تکبیر کے بعد پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہیں ۔
جدوجہد آزادی کشمیر دراصل پاکستان کی بقاء کی جدوجہد ہے ۔پاکستان کے تمام دریاؤں کا منبع کشمیر ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ اسی وجہ سے قرار دیا تھا ۔گزشتہ 72سالوں میں ہمارے حکمرانوں کی غلطیوں کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کو اس طرح دنیا کے سامنے اجاگر نہیں کیا جاسکا ،جس طرح اسے اجاگر کرنا چاہیے تھا ۔پاکستان نے ہمیشہ کشمیر پر معذرت خوانہ رویہ اختیار کیا ہے اور جنرل پرویز مشرف کے دور تو میں ایک وقت ایسا تھا کہ حریت کی تحریک کو دہشت گردی قرار دینے کی بھی تیار ی کرلی گئی تھی ۔پاکستان اور کشمیر کا تعلق لاالہ اللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد ہے ۔کشمیر کے مرد جری سید علی گیلانی ببانگ دہل کہتے ہیں کہ وہ کسی نیشنل ازم، سوشلزم ،لبرل ازم اورکمیونزم کو نہیں مانتے۔کشمیریوں اور پاکستان کا تعلق اسلام کی وجہ سے ہے اور اسی بنیاد پر وہ پاکستانی ہیں ۔
بھارت کی انتہاء پسند مودی سرکاری کی جانب سے کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کرنے اور وہاں کرفیو کے نفاذ نے آج ایک مرتبہ پھر جدوجہد آزادی کشمیر کو دنیا بھر میں اجاگر کردیا ہے ۔مودی نے جو کیا سو کیا ،لیکن اب اصل امتحان پاکستان کی قیادت کا شروع ہوگیا ہے ۔وزیراعظم عمران خان کو بلاشہ آج کے وقت کا ”تقریراعظم” کہا جاسکتا ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم جو کچھ کہتے ہیں عملی اقدامات اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں ۔آزادکشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر سمیت وہاں کی تمام قیادت اس بات پر یکسو ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔راجہ فاروق حیدر تو ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے آبدیدہ بھی ہوگئے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی مائیں بہنیں روزانہ صبح اٹھ کر اپنے دروازوں سے باہر یہ دیکھنے کے لیے نکلتی ہیں کہ آیا پاکستانی فوج آگئی ہے یا نہیں جب کہ یہاں ہمارے پاکستانی وزیراعظم قوم کو مصلحت کا سبق سکھارہے ہیں ۔وہ پہلے کہتے تھے کہ مجھے جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے دو ،اس سے قبل کوئی بھی اقدام جدوجہد آزادی کشمیر کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے اور اب جب ان کی اس تقریر کو بھی کافی دن گذر چکے ہیں اس کے با وجود تاحال کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آیا ،جس سے قوم یہ سمجھے کہ حکومت مسئلہ کشمیر حل کرنے میں سنجیدہ ہے ۔
مقبوضہ کشمیر میں صورت حال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے ۔کرفیو کو اب کتنے دن ہوچکے ہیں لوگ تو اس کا شمار بھی بھول گئے ہیں ۔نجانے کشمیر کے مظلوم مسلمان کس طرح اپنے روز و شب بسر کررہے ہیں ۔ان کی نظریں پاکستان کی طرف لگی ہوئی ہیں ۔مودی سرکار نے ظلم کا جو بازار گرم کیا ہوا ہے ،وہ اس کو ثابت قدمی کے ساتھ سہہ رہے ہیں ۔سیاحوں کے نام پر وہاں آر ایس ایس کے غنڈوں کو دہشت پھیلانے کے لیے بھیجا جارہا ہے ۔بھارت دنیا کی پروا نہ کرتے ہوئے تمام ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے لیکن ہم اب تک ”تقریر ” کے سحر سے ہی نہیں نکل پارہے ہیں ۔
وقت کافی گزر گیا ہے ۔اب دعوؤں ،وعدوں اور تقریروں کا نہیں عمل کا وقت ہے ۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ محض سفارت کاری اور ”یہاں وہاں” کے دوروں سے مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گاتو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ۔دنیا اس وقت تک آپ کی بات نہیں سنے گی ،جب تک اس کو یہ احساس نہ ہوجائے کہ دو ایٹمی طاقتیں مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ”پوائنٹ آف نوریٹرن” پرپہنچ چکی ہیں ۔جب تک کشمیر کی آگ دنیا تک نہیں پھیلے گی اور ان کو اپنے پر جلتے ہوئے محسوس نہیں ہوں گے وہ اسی طرح خواب خرگوش کے مزے لیتے رہیں گے ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے اور بھارت کو واضح پیغام دے کہ اگر ایک مقررہ مدت تک کشمیر سے کرفیو نہیں اٹھایا گیا تو پاکستان ہر اقدام کرنے میں آزاد ہوگا ۔ پاکستان کا اسی طرح کا کوئی سخت پیغام ہی دنیا کو جھنجھوڑ سکتا ہے ۔ کشمیر کی آزادی کے لیے ہمیں اس سے اچھا موقع اب نہیں مل سکتا ہے ۔وزیراعظم بالغ نظری کا مظاہرہ کریں ۔مصلحت کو بالائے طاق رکھیں ،اپنی تقریر کے سحر سے نکلیں اور کشمیریوں کو پیغام دیں کہ ہم آرہے ہیں ۔۔۔