اللہ تعالی نے اس عالم کو تخلیق کیا اور اس میں انسان کو اپنا خلیفہ بنایا، اس نے مرد و عورت بنائے، اور نسل ِ انسانی کی بقا کا طریقہ بتایا، اس نے خاندان اور قبیلے بنائے، جو باہم الفت اور پہچان کا ذریعہ ہیں۔انسانوں کے باہمی تعلقات میں خیر اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد اور خیر کی جانب رہنمائی وہ بنیادی عنصر ہے، جو ان روابط کو مضبوط بناتا ہے، اسی طرح جو شخص یا گروہ گناہ اور زیادتی کے کاموں پر آمادہ ہو اسے شر سے روکنا بھی ضروری ہے، اور اسے برائی اور زیادتی کے کاموں سے رکنے کی تلقین کرنا بھی! یعنی انسانوں کے درمیان تعلقات کا عالمگیر ضابطہ یہ ہے کہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے، لیکن شر اور زیادتی کے کاموں میں کسی انسان یا گروہ سے تعاون ہرگزنہ کیا جائے، تاکہ کوئی بھی کسی پر نہ تو تکبر کا وار کرے اور نہ کسی پر جبرکرے۔
مظلوم کا مادہ (ظ ل م) ظلم ہے، جو عدل کا عکس ہے، اس کے معنی ’’کسی کے ساتھ برا کرنے کے ہیں‘‘۔ظلم کو بیان کرنے کے لئے سانپ کی مثال دی جاتی ہے، جو گوہ کے بل میں گھس کر اس کے بچوں کو کھا جاتا ہے اور اس کے بل پر قبضہ کر لیتا ہے۔
مظلوم ، مفعول ہے، یعنی جس پر ظلم کیا جائے، ’’جو کسی انسان کے ظلم کا شکار ہوا وہ مظلوم ہے۔‘‘
ظلم، کسی چیز کو اس کی نامناسب جگہ پر رکھنے کو کہتے ہیں، اصمعی اس کی مثال دیتے ہیں: کہ جیسے کسی نے بھیڑیے کو بکریوں کی نگرانی سونپ دی، تو یہ ظلم ہے۔(المعانی)
ظلم، کتاب و سنت، اجماع، قیاس اور عقل سب کی رو سے حرام ہے۔
{من قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطاناً} (بنی اسرائیل،۳۳)
(جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو، اس کے ولی کو ہم نے قِصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے۔)
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اور یہ بھائی چارہ ایک دوسرے پر حقوق اور فرائض عائد کرتا ہے، اور انہیں حقوق میں سے ایک اپنے مظلوم بھائی کی حمایت ہے، اور اس پر ظلم ہو رہا ہو تو ظالم کو اس کے مقالبے میںہر طرح کی مدد سے محروم کرنا ہے۔ جو ظالم کا ہاتھ نہیں روکتا، وہ اس کا خیرخواہ نہیں ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں، انہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے۔) (الاحزاب، ۵۸) اسلامی ریاست میں جھوٹا الزام لگانا بھی ظلم کا ارتکاب شمار ہو گا، اور ریاست اس کے مرتکب کو سزا دیکر مظلوم کی داد رسی کرے گی۔
(جو شخص ظلم اور زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا، اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے، اور یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔) (النساء، ۳۰)
کسی کی حق تلفی، خواہ وہ خدا ہو یا کوئی انسان، اس کے والدین ہوں یا اس کا اپنا نفس ، یہ گناہ کا کام ہے، اور ہر گناہ ظلم ہے، تو خواہ زیادتی حرمات کے معاملے میں ہو، یا حرمت ِ نکاح کا پاس نہ کیا ہو، یا دوسروں کے مال ظلم سے حاصل کئے ہوں، خواہ وہ غصب ہو، یا قمار بازی یا سود اور اس جیسے دوسرے حرام ذرائع، یا ناحق کسی کا خون کیا ہو، ان سب کی سزا آگ کا عذاب ہے۔
اللہ تعالی ظلم ہی کی ایک صورت بیان کرتے ہیں:
(جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں، درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں، اور وہ ضرور جہنم کی آگ میں جھونکے جائیں گے۔) (النساء، ۱۰)
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کی تاریکیوں میں سے ہے‘‘۔ (رواہ مسلم، ۲۵۷۸)
حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ان امور کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا، (جن میں آدمی ظلم کا ارتکاب کرتا ہے): ’’بے شک تمہارے خون، تمہارے اموال، تمہاری عزتیں اور کھالیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کا دن، یہ مہینہ، اور تمہارا یہ شہر حرام (حرمت والا) ہے۔ (رواہ مسلم، ۲۵۶۴)
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’من اعان ظالماً لیدحض بباطلہ حقّاً، فقد برئت منہ ذمۃ اللہ وذمۃ رسولہ‘‘۔ (اخرجہ الحاکم، وقال صحیح الاسناد)
(جس نے ظالم کی مدد کی ، تاکہ اس کے باطل کو حق ثابت کرے، تو اس سے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ختم ہو گیا۔)
رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو خبردار کر دیا ہے تاکہ کوئی بھی مظلوم کے خلاف ظالم کی مدد نہ کرے، اور اگر اس نے ایسا کیا تو اسے اس ظالم کا شریک کار سمجھا جائے گا۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ظالموں کی جانب جھکاؤ رکھنے پر متنبہ فرمایا ہے:
{ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسّکم النّار ، وما لکم من دون اللہ اولیاء ثمّ لا تنصرون} (ھود، ۱۱۳)
(ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے، اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے، اور تم کو کہیں سے مدد نہ پہنچے گی۔)
یہی جھکاؤ دنیا بھر کے ظالموں کو ظلم بڑھانے پر مائل کرتا ہے، اور وہ بلا خوف وتردد انسانوں پر ظلم کے نت نئے طریقے اپناتے ہیں۔اور اس جھکاؤ کی بدترین صورت یہ ہے کہ ظالم کا ظلم دنیا کے لئے خوشنما بن جاتا ہے، اور مظلوم کی چیخیں اور آہیں کسی کو سنائی نہیں دیتیں، یا ان پر کوئی کان نہیں دھرتا، کیونکہ ظالم کی جانب دنیا کا میلان اور جھکاؤ ہوتا ہے اور مظلوم انہیں دکھائی نہیں دیتا، یہی وہ صورت ِ حال ہے جس کا مشاہدہ آج فلسطین، کشمیر، برما اور کئی دوسرے مقامات پر ہو رہا ہے۔
آج کتنی ہی مجلسیں اور پلیٹ فارم ہیں جن میں مظلوموں کی آواز اٹھانے کے بجائے ظالموں سے خیر سگالی کا اظہار کیا جاتا ہے، اور مظلوموں اور ان کے خیر خواہوں پر نکتے اٹھائے جاتے ہیں یا انہیں مطعون کیا جاتا ہے، ایسی سب محفلیںظالم کی جانب جھکاؤ اور ظلم پر اس کی اعانت کے زمرے میں آتی ہیں، جو اسے اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ سے نکال دیتی ہیں۔
گھروں کے مظلوم
اپنے گھروں کے اندر بھی ہر صاحب ِ بصیرت کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں، تاکہ افراد کنبہ ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا گھر ،خاندان کے دوسرے گھروں پر ظلم کر رہا ہو، یا ان کے ظلم کا شکار ہو رہا ہو، اگر وہاں خاموش رہے تو ظالم کے ساتھی بنیں گے، اگر آپ کے گھر میں والدہ بہو پر ظلم ڈھاتی ہیں، تو آپ کس کی حمایت کریں گے؟ والدہ کی یا مظلوم بہو کی؟ اگر آ پ اس ظلم کو دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہے تو آپ ظالم کے ساتھی قرار پائیں گے۔ اگر بڑے بیٹے کے چھوٹے بہن بھائیوں پر ظلم کو دیکھ کر نگاہیں پھیر لیں گے تو یہ بھی مظلوم کی حمایت سے انکار اور ظالم کی مدد میں آئے گا۔اگر آپ کے گھر سے پڑوسیوں سے بد سلوکی ہو رہی ہے تو بھی آپ کو ظالم کا ہاتھ پکڑنا ہو گا۔ہر کنبے کو صاحب ِ اخلاق بننا ہو گا، تب ہی ایک علاقے سے ظلم کا خاتمہ ممکن ہے، اور ظالم کا ہاتھ ظلم سے روک لینا بھی اصلاً اس کی مدد ہی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’انصر اخاک ظالماً او مظلوماً۔ فقال رجل، یا رسول اللہ ﷺ، انصرہ اذا کان مظلوماً، ارئیت ان کان ظالماً کیف انصرہ؟ قال: تحجزہ ۔ او، تمنعہ۔ من الظلم؛ فانّ ذلک نصرہ‘‘۔ (رواہ البخاری)
(اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، ایک شخص نے سوال کیا: یا رسول اللہ ﷺ ، میں اس کی مدد کروں جب وہ مظلوم ہو، لیکن اگر وہ ظالم ہو تو اس کی مدد کیسے کروں؟ فرمایا : اسے ظلم سے ۔روک دو یا منع کر دو۔ تو یہی اس کی مدد ہے۔)
یعنی ظلم سے روکنے میں مدد ہی ظالم کی بہترین خیرخواہی ہے، اگر ظلم کرنے میں مدد کی تو وہ بھی ظالم کا ساتھی قرار پائے گا۔
ارشاد ہے:
{والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون} (الشوری، ۳۹)
(اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔)
جہاں بھی ظلم ہو رہا ہو، یہ اہل ِ ایمان کی صفت ہے کہ وہ اسے روکنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ، اور ظالموں اور جابروں کے لئے نرم چارہ نہیں ہوتے، جب کوئی طاقت ور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور دشمن کے دانت کھٹے کر دیتے ہیں۔ مومن کبھی ظالم سے نہیں دبتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا۔ اس قسم کے لوگوں کے لئے وہ لوہے کا چنا ہوتا ہے، جسے چبانے کی کوشش کرنے والا اپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے۔(دیکھئے: تفہیم القرآن، جلد چہارم، ص۵۱۱)
مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں، اور مظلوم کو اس کے حال پر چھوڑ دیں، یا الٹا ظالم کے ساتھی بن جائیں، بلکہ ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ظلم کے خاتمے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں، حتی کہ اگر طاقت کا استعمال کرنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کریں، تاکہ اس کے ظلم کا ازالہ ہو۔ اور اس خکم کا مخاطب وہ لوگ ہیں جو طاقت کے استعمال پر قادر ہوں۔
حلف الفضول؛ مظلوم کی مدد کا جاہلی معاہدہ
عہد ِ جاہلیت میں جب عرب میں ظلم و جور بہت بڑھ گیا، تو قریش کے چند قبائل عبد اللہ بن جدعان التیمی کے مکان پر جمع ہوئے اور آپس میں عہد کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا، خواہ مکہ میں رہنے والا ہو یا کہیں اور کا، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے، اور اسے اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول کریم ﷺ بھی شریک تھے اور بعد میں شرف ِ رسالت سے مشرف ہونے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا، کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں، اور اگر (دورِ) اسلام میں مجھے اس عہد و پیمان کے لئے بلایا جاتا تو میں لبیک کہتا۔‘‘ (ابنِ ہشام، جلد۱، ص۱۳۳)
اس معاہدے کا پس منظر بھی ایک مظلوم کی حمایت اور مدد تھی، جیسا کہ تاریخ میں ذکر ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لیکر مکہ آیا، عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا۔ لیکن اس کا حق روک لیا، اس نے حلیف قبائل عبد الدار مخزوم اور جمح ، سہم اور عدی سے مدد کی درخواست کی، لیکن کوئی مدد کو نہ آیا، اس کے بعد اس نے جبل ِ ابی قبیس پر کھڑے ہو کر چند اشعار پڑھے جن میں اپنی مظلومیت بیان کی تھی، اس پر زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار و مدد گار کیوں ہے، ان کی کوشش سے بنی ہاشم، بنی مطلب، بنی اسد، بنی زہرہ اور بنی تیم اکٹھے ہوئے، پہلے معاہدہ کیا اور پھر زبیدی کو عاص بن وائل سے اس کا حق دلوایا۔ (الرحیق المختوم، ص۹۰)
ایک جانب حلف الفضول کا غیر متعصبانہ معاہدہ ہے تو دوسری جانب رسول اکرم ﷺ کے علانیہ دعوتِ اسلام کے کچھ عرصے بعد ہی ابو لہب کی سرکردگی میں پچیس (۲۵) سرداران ِ قریش کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے ایک فیصلہ کن قرارداد منظور کی، یعنی یہ طے کیا کہ اسلام کی مخالفت، پیغمبر ِ اسلام کی ایذا رسانی اور اسلام کو ماننے والوں کو طرح طرح کے جور وستم اور ظلم و تشددکا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے گی۔ (الرحیق المختوم، ص۱۲۳)
اس قراداد کے بعد مکی دور میں ظلم و ستم کا نشانہ بننے والوں کی فہرست بہت طویل بھی ہے اور تکلیف دہ بھی! یہ سفر کمزورمظلوموں کی اذیت بھری داستانوں سے لبریز ہے، حتی کہ مظلوموں کا ایک گروہ اللہ کے حکم سے حمایت اور مدد کی تلاش میں مکہ سے نکل کھڑا ہوا، اور حبشہ کے بادشاہ کے ہاں پناہ لی، جو مظلوموں کا پشتیبان تھا۔
ایک مرتبہ حضرت حسین بن علیؓ اور ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کے درمیان مال پر جھگڑا ہو گیا، جس سے ان کے تعلقات میں تلخی پیدا ہو گئی، ولید امیر معاویہؓ کی جانب سے مدینہ کا والی مقرر کیا گیا تھا، ولید اس معاملے میں اس وجہ سے ہٹ دھرمی کر رہا تھا کہ وہ اس وقت اقتدار میں تھا، حضرت حسینؓ نے اس سے کہا: تم مجھ سے انصاف کرو ورنہ میں تلوار اٹھاؤں گا اور مسجد ِ رسول ﷺ (مسجدِ نبوی ) میں بیٹھ جاؤ گا اور حلف الفضول والوں کو بلاؤں گا‘‘۔
اور عبد اللہ بن زبیرؓ الاسدی القرشی نے کہا: ’’میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مجھے بلایا گیا تو میں تلوار تھام کر پہنچوں گا، اور ان کے ساتھ کھڑا ہوں گا، پھر یا تو انہیں حق دلواؤں گا یا ان کے ساتھ ہی موت کو گلے لگا لوں گا‘‘۔یہ معاملہ المسور بن مخرمہ الزھری القرشی تک پہنچا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا، اور عبد الرحمن بن عثمانؓ التیمی القرشی نے بھی اسی عزم کا ارادہ کیا، مجبوراً ولید بن عتبہ کو حضرت حسینؓ کو انکا حق دے کر راضی کرنا پڑا۔ مظلوم کی حمایت کا ارادہ اور اس کی پشت پر کھڑا ہو جانا بھی ظالم کے قدم لرزا دیتا ہے۔(الکامل فی التاریخ، ابن الاثیر، جلد ۲، ص۴۲)
مظلوم کے لئے نصیحت
اگر آدمی اپنے خلاف ہونے والی ہر زیادتی پر اٹھ کھڑا ہو اور بدلہ لینے کی ٹھان لے، تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ بدلہ لیتے ہوئے زیادتی کرتا ہے تو وہ ظالم بن جاتا ہے، اور جس سے اس نے بدلہ لیا وہ مظلومیت کی جگہ پر آ جائے گا۔ارشادِ باری تعالی ہے:
{وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ، ولئن صبرتم لھو خیر للصابرین} (النحل، ۱۲۶)
(اور اگر تم بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو۔ لیکن اگر تم صبر کروتو یقیناً یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔)
ظالموں کے خلاف گالی گلوچ کرتے ہوئے اور انہیں بد دعا دیتے ہوئے بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں قیامت کے روز بظاہر ظالم کا ہاتھ آپ کے گریبان پر نہ ہو، اس میں عمدہ راستہ یہ ہے کہ ’’وافوض امری الی اللہ‘‘کہہ کر اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دے۔حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ارحموا، ترحموا، واغفروا یغفر لکم‘‘ (اخرجہ احمدؒ)
(رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا، دوسروں کو بخش دو، تمہاری بخشش ہو گی۔)
’’روی ابی کبشۃ الانماری، سمعت رسول اللہ ﷺیقول: ثلاث اقسم علیھن، واحدثکم حدیثاً فاحفظوہ، قال: ما نقص من مال عبدٍ من صدقۃ، ولا ظلم عبدُ مظلمۃصبر علیھا الازادہ اللہ عزّاً، ولا فتح باب مسألۃ الافتح اللہ علیہ باب فقر(او کلمۃ نحوھا)‘‘۔(صحیح الجامع، ۳۰۲۴)
(ابو کبشہ الانماریؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: تین لوگوں پر میں قسم کھاتا ہوں اور تمہیں انکے بارے میں بتاتا ہوں، اسے یاد رکھو، فرمایا: صدقہ دینے سے آدمی کے مال میں کمی نہیں ہوتی، اور جس مظلوم نے ظلم پر صبر کر لیا ، اللہ تعالی اس کی عزت بڑھا دیتا ہے، اور جو مانگنے (سوال کرنے) کا دروازہ کھولتا ہے، اللہ اس کے لئے فقر کا دروازہ کھول دیتا ہے، (فقر یا اس جیسا کوئی لفظ کہا))
اگر مظلوم اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے بقدر بدلہ لے لے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے، لیکن اگر وہ خود کو بدلہ لینے سے روک لے گا اور صبر کرے گا تو اس کی بھی بہت فضیلت ہے، اور معاف کر دینے کا درجہ سب سے بلند ہے۔ اللہ تعالی معاف کرنے کو مومن کا شعار کہا ہے:
(برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے ، اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں، ان کو ملامت نہیں کی جا سکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں، اور ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔) الشوری، ۴۰۔۴۲
ان آیات میں مظلوم کو کچھ اصولی قواعد بتائے گئے ہیں:
۱۔بدلے کس جائز حد یہ ہے کہ جتنی برائی کسی کے ساتھ کی گئی ہو، اتنی ہی برائی وہ ظالم کے ساتھ کر لے، اس سے زیادہ برائی کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا۔
۲۔زیادتی کرنے والے سے اگرچہ بدلہ لینا جائز ہے، لیکن جہاں معاف کر دینا اصلاح کا موجب ہو سکتا ہو، وہاں اصلاح کی خاطر بدلہ لینے کی بجائے معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ اور چونکہ یہ معافی انسان اپنے نفس پر جبر کر کے دیتا ہے، اس لئے اسکا اجر اللہ تعالی اپنے ذمہ قرار دیتا ہے۔
۳۔ کسی شخص کو دوسرے کے ظلم کا انتقام لیتے ہوئے خود ظالم نہیں بن جانا چاہیے۔ ایک برائی کے جواب میں اس سے بڑھ کر برائی کر گزرنا جائز نہیں۔ اسی طرح گناہ کا بدلہ گناہ کی صورت میں لینا درست نہیں ہے۔ مثلاً کسی شخص کے بیٹے کو اگر کسی ظالم شخص نے قتل کیا ہے، تو اس کے لئے جائز نہیں کہ جا کر اس کے بیٹے کو قتل کر دے، یا اگر کسی کی بہن یا بیٹی کو کسی کمینے شخص نے خواب کیا ہے تو اس کے لئے یہ حلال نہیں ہو جائے گا کہ وہ اس کی بہن یا بیٹی سے زِنا کرے۔ (تفہیم القرآن، جلد چہارم، ص۵۱۱۔۱۲)
مظلوم کی پکار
مظلوم کی پکار ایک کمزور کی طاقتور پکار ہے، اوراسے کہیں سے بھی مدد مل سکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ یونان کے بادشاہ ثیودسیوس نے اپنے زمانے کے مشہور شاعر اور فلسفی کنتس کو خط لکھ کر اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ کنتس نے اپنا سب مال اسباب جمع کیا اور بادشاہ کی جانب چل پڑا، راستے میں اس پر ڈاکؤوں نے حملہ کر دیا، اور سارا مال اسباب چھین لیا، اور اس کے قتل کا ارادہ کیا۔ کنتس نے ان سے بہت کہا کہ مال اسباب لے لو اور میری جان بخشی کر دو، مگر وہ نہ مانے،اس نے کسی کو مدد کے لئے پکارنا چاہا مگر وہاں کوئی انسان موجود نہ تھا، البتہ اسے ایک کراکی (ایک پرندے کا نام)کو اپنے سر پر اڑتے دیکھا، تو اس نے اسی کو پکار کر کہا: ’’اے کراکی، یہاں میرا کوئی حامی و مددگار نہیں ہے، تو ہی میرے خون کا مطالبہ کرنا، اور میرا بدلہ لینا‘‘، ڈاکو اس کی بات پر خوب ہنسے اور انہوں نے کہا: ’’اس میں تو عقل نام کی کوئی چیز نہیں، اور جس میں عقل نہ ہو، اس کے قتل کا کیا گناہ ہو گا؟‘‘۔ انہوں نے اسے قتل کر دیا اور مال آپس میں تقسیم کر لیا، اور مطمئن ہو گئے۔ ادھر یونان کے بادشاہ کو خبر ہوئی تو وہ خود اپنے مصاحبین کے ساتھ جائے قتل پر پہنچ گیا، اور خیمے لگا دیے گئے، ارد گرد سے بھی لوگ آتے اور تسبیحات پڑھتے، ڈاکؤوں کا گروہ بھی آگیا، اور وہ سب ایک ستون کے پاس بیٹھ گئے، اچانک کراکی نے آکر انکے اوپر اڑنا اور آوازیں نکالنا شروع کیا، انہوں نے اس پر خوب مذاق اڑایا کہ یہ کنتس کے خون کا مطالبہ کرنے آئی ہے، وہ اسی استہزاء میں مصروف تھے جب ان کے قریب بیٹھے شخص نے ان کی بات کو بادشاہ تک پہنچا دیا، فوراً ہی اس گروہ کو گرفتار کر لیا گیا، جنہیں اس قتل کا اقرار کرتے ہی بنی، یوں بادشاہ نے ان سب کو قصاص میں قتل کروا دیا۔(الامتاع والموانسہ، ابوحیان التوحیدی، ص۲۲۸۔۲۹)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مظلوم کی آہ سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی روک ٹوک نہیں ہے‘‘۔ (رواہ البخاری)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مظلوم کی آہ سے بچو، اگرچہ وہ کافر ہو، اس کے درمیان میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے‘‘۔(البانی نے کہا، یہ صحیح ہے۔)
حضرت اوس بن شرجیل سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص کسی ظالم کو تقویت دینے کے لئے اس کے ساتھ چلا،یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ظالم ہے، تو وہ اسلام سے نکل گیا‘‘۔ (بیھقی، طبرانی کبیر)
واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: عصبیت کسے کہتے ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا: تیرا اپنی قوم کی اس کے ظلم پر ہونے کے باوجود مدد کرنا۔ (ابو داؤد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کی مدد سے باز رہتا ہے، جو کوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو ، اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جائے گا، اور جو کسی مسلمان کو کسی مصیبت سے نکالے گا، اللہ تعالی اسے روز ِ قیامت کی کسی مصیبت میں سے نکال دے گا، اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
ظلم بھری دنیا
آج دنیا ظلم اور فساد سے بھر گئی ہے، مشرق و مغرب میں مظلوموں کے مال لوٹے جا رہے ہیں، ان کی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں، ان کا خون بہہ رہا ہے، ان پر انکے ممالک کی سرزمین تنگ کر دی گئی ہے، ڈاکٹر عافیہ ایسی ہی مظلوم ہیں، جنہیں دنیا کی سب سے بڑی طاقت ور مملکت نے اپنا اسیر بنا رکھا ہے، ان کے بچے کو شہید کیا گیا، انہیں جھوٹا مقدمہ بنا کر چھیاسی برس قید کی سزا سنائی گئی، مصر کے صدر محمد مرسی کی حکومت کو ظالمانہ انداز میں ختم کیا گیا، اور پھر انہیں پر اسرار انداز میں جیل میں سہولتوں سے محروم رکھ کر اذیت میں مبتلا کیا گیا، حتی کہ انصاف کی دہائی دیتے ہوئے عدالت کے احاطے میں ہی وہ جان کی بازی ہار گئے۔بنگلہ دیش نے معاہدات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے محب وطن کئی قاعدین کو پھانسی کی سزا دے دی، کتنے ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں، پوری فلسطینی اور کشمیری قوم یہود و ہنود کی مکاری اور ظلم کا شکار ہے، برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ دراز ہے، توایغور مسلمانوں سے انسانیت سوز سلوک ہو رہا ہے، وہ کئی دہائیوں سے ٹارچر سیلوں میں اور بڑے بڑے قید خانوں میں سڑ رہے ہیں، وہ ایسے تاریک مقامات پر ہیں جہاں سے دنیا کو ان کی چیخیں بھی سنائی نہیں دیتیں، شام، یمن، تیونس، میں مسلمان اپنے ہی ممالک میں ظلم کا شکار ہیں، ایسا لگتا ہے:
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
دنیا ظلم سے بھر گئی ہے، کہیں مسلمان کافرفوجوں کے ظلم کا شکار ہیں تو کہیںاپنوں ہی کے ہاتھوں ان کے اموال، عزتیں اور جانیں خطرے میں ہیں، اور کہیں اپنی زبانوں سے دوسروں کا گوشت بھنبوڑ رہے ہیں، چند روپوں یا ایک موبائل کی قیمت پر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ڈاکو دندناتے ہوئے گھروں میں داخل ہوتے ہیں، اور مزاحمت کی ہر کوشش کا نتیجہ گولی کی صورت میں نکلتا ہے، اسی طرح غیبت، چغلی اور دوسروں پر ظلم کی ترغیب کے ذریعے اپنے ہی ہم جنسوں کو بے موت مار دیتے ہیں، اس حوالے سے میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے، اور ہر ایسے جتھے کا بھی، جو مظلوم کی پکار پر کان نہیں دھرتا، جو ظالموں کی پشت پناہی کرتا اور مظلوموں کی پکار کے لئے اپنے کان بند اور آنکھیں اندھی کر لیتا ہے، جو ظالم کے خلاف بات کرنے سے ہچکچاتا اور مظلوم کو ظالم بھی بنا دیتا ہے، جس کی سب و شتم کا نشانہ مظلوم بنتے ہیں، جو ان پر تہمتیں لگاتاہے اور ان کے بارے میں جھوٹ پھیلانے سے نہیں چوکتا۔ ایسے میں ایک ’’عالمی حلف الفضول‘‘ کی اشد ضرورت ہے تاکہ عالمی امن قائم ہو سکے، مظلوموں کی پکار سنی جائے، اور ان کی داد رسی کی جائے۔ایک ایسا معاہدہ جو مظلوم کی مدد اور ظالم کا ہاتھ روکنے پر تمام عالم کو اکٹھا کر دے۔ اسی سے کالمی امن بھی قائم ہو سکتا ہے اور تمام انسانوں کو سلامتی کی ضمانت بھی ملے گی۔ایسا معاہدہ جو رنگ، نسل، مذہب اور فرقے کی تفریق سے بالا تر ہو۔
ظالم کے مددگار
کہتے ہیں کہ ایک درزی سفیان ثوریؒ کے پاس آیا اور پوچھا: میں بادشاہ کا درزی ہوں، (اور بادشاہ ظالم تھا)، تو کیا میں بھی ظالم کا مددگار ہوں؟ سفیان نے کہا: تم تو خودظالم ہو۔ ظلم کے ساتھی تو وہ ہیں جو تمہیں دھاگہ اور سوئی بیچتے ہیں۔اسی طرح ظالم منصف کو قلم اور روشنائی فراہم کر والے بھی ظالم ہیں۔
ظالم کی سزا
اللہ تعالی نے ظالمو کے لئے کئی سزاؤ ںکا ذکر کیا ہے:
۔ ’’ظالموں کا نہ کوئی جگری دوست ہو گا، نہ ایسا سفارشی جس کی بات مانی جائے‘‘۔ (غافر۔ ۱۸)
۔ ’’ظالموں سے تو کہہ دیا جائے گا، اب چکھو مزا اس کمائی کا جو تم کرتے رہے ہو‘‘۔ (الزمر ۔ ۲۴)
مظلوم کی حمایت کیسے ہو؟
ظالم کا ہاتھ پکڑ لیجئے، اور اسے نصیحت کریں، ظالم اور مظلوم دونوں حیثیتوں سے مدد کا یہی طریقہ ہو گا۔
مظلوم کی مدد فرض ِ کفایہ ہے، اس کی فرضیت سلطان پر عائد ہوتی ہے۔
مومن مومن کا بھائی ہے ، وہ اس پر ظلم نہیْں کرتا، اور اسے اکیلا نہیں چھوڑتا، اور ظالم ظلم سے باز آ جائے تو اللہ اس کی سچی قبول فرما لیتا ہے۔
مظلوم کی حمایت و مدددبجائے خود انسان کو تقویت دیتی ہے، اس کی راہ واضح کرتی ہے، اور اسے مستقل رویے کی جانب آمادہ کرتی ہے۔
ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کے لئے ہر وقت تیاری دشمن پر رعب طاری کرتی ہے۔
اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔آمین
٭٭٭
ماشاءاللہ، بہت ہی خوبصورت تحریر