مولانافضل الرحمن نے 27اکتوبر کو بالآخر دھرنا دینے کا واضح اعلان کردیا ہے اور اس بات کا اشارہ بھی دیا ہے کہ حکومت کسی طور ہمیں اسلام آباد میں دھرنا دینے سے نہیں روک سکتی لیکن مختلف سیاسی طبقہ ہائے فکر و اہل علم ودانش بشمول حکومتی اراکین کا خیال ہے کہ دھرنا نہیں ہوگا۔مگر مولانا اور ان کے ہم خیال سیاسی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ اب جینا ہوگا مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا۔مولانا کے عزائم سے تو لگ رہا ہے کہ انہوں نے دھرنے کو دھرم ہی بنا لیا ہے،دھرنا ہوگا یا نہیں ؟یہ ایک الگ موضوع بحث ہے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی میدان میں اپنی نشست بھی برقرار نہ رکھ پانے والے مولانا صاحب کس سیاسی طاقت یا اشارے کے تحت دھرنا دینے پر بضد ہیں ۔کیا اس دھرنے میں محض جمعیت علما (ف)کے سیاسی ومذہبی کارکنان ہی شامل ہوں گے یا کوئی اور سیاسی پارٹی بھی مولانا کے اس فعل کی حمائت کرے گی،کیونکہ ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس بات کی وضاحت اپنے اپنے سیاسی بیانات اور پریس کانفرنسز میں کر دی ہے کہ ہم آزادی مارچ تک مولانا کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن دھرنے میں شامل نہیں ہوں گے۔ن لیگ کے ترجمان احسن اقبال نے اپنی پریس کانفرنس میں صاف صاف کہہ دیا ہے کہ میاں نواز شریف کا فیصلہ حتمی ہوگا کہ دھرنا میں شمولیت اختیار کرنی ہے یا نہیں۔اسی طرح بلاول اور دیگر سیاستدانوں کا خیال ہے کہ ہم آزادی مارچ تک تو مولانا کا ساتھ دیں گے اس سے آگے نہیں۔سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی بلاول کو سیاسی نصیحت جاری کر دی ہے کہ مولانا کے ہاتھ میں احتجاج کا سٹیئرنگ نہ دینا،اس بات سے اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت مولانا پر کسی طور سیاسی اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے،اس کے پیچھے کیا راز اور سیاسی حکمت عملی ہے میرے خیال میں وہ تمام سینئر سیاسی رہنمااور میڈیا پرسن جانتے ہیں ،وہ ماضی قریب وبعید میں مولانا کی سیاسی چالیوں اور مفادات سے واقف ہیں۔موجودہ صورت حال میں اگر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی جمہوری اصولوں کے عین مطابق چلتی دکھائی دے رہی ہے .مسائل کا حل سڑکوں پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہوں تو جمہوری عمل میں تسلسل برقرار رہتا ہے۔اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہوتا ہے۔اسی سیاسی حسن کو مدنظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول کا خیال بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ مزاحمت کے بجائے جمہوری رد عمل کو اپنایا جائے جو کہ صرف اور صرف پارلیمنٹ کے ایوان میں ہی ممکن ہے،دوسری طرف رہبر کمیٹی کے ممبران بھی اس فیصلہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اب وقت آچکا ہے کہ حکومت کو استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہئے،لیکن اس سلسلے میں کمیٹی کا لائحہ عمل واضح نہیں ہے۔
مذکورہ تمام سیاسی حالات اور واقعات،پریس کانفرنسز،مولانا کے احتجاج کا فیصلہ اور رہبر کمیٹی کے احتجاج پر حکومتی اراکین کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔اس بات کا اندزہ وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ کے حالیہ بیانات سے ہوتا ہے . وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آزادی مارچ حزب مخالف کا جمہوری حق ہے اور حکومت اس سے بالکل بھی خائف نہیں ہے۔ایسے ہی جذبات کا اظہار حکومتی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا بھی ہے کہ مولانا کبھی بھی دھرنا نہیں دیں گے۔ایک طرف تو حزب مخالف کی یہ سیاسی سرگرمیاں ہیں تو دوسری طرف حکومتی وفد وزیراعظم کی قیادت میں تین روزہ چین کے دورے پر مفاہمت کی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط فرما رہا ہے۔اس دوران چینی صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کی جیونگ پاکستانی وزیر اعظم سے الگ الگ ملاقات بھی کریں گے جس میں دوطرفہ تعلقات کی حالیہ نوعیت اور نئے معاہدوں پر بات چیت بھی ہوگی۔اس دورے کی اہم بات چینی کمپنی گیژوبا گروپ کے چیئرمین سے ملاقات ہے کیونکہ یہ کمپنی پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی خواہاں ہے۔اگر توانائی کے شعبہ میں حکومت پاکستان کا وفد چینی کمپنی کو راضی کر لیتا ہے تو پاکستان کے نصف معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔کیونکہ معاشی ترقی کا دارومدار صنعتی ترقی میں مضمر ہے اور صنعتی ترقی کی بنیاد یقینا توانائی کی بحالی اور سپلائی پر منحصر ہے۔
اب تک کی ملاقاتوں میں سی پیک منصوبے کی تکمیل، اس کے معاشی اثرات اور خطہ کی خوش حالی جیسے موضوعات زیر بحث رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک کی تکمیل دراصل خطہ کی معاشی صورت حال کی بہتری کی ضامن ہے۔دورہ چین ابھی جاری ہے اور اس دوران بہت سے معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی ہونگے لیکن عوام اس دورے کے ثمرات کے منتظر ہیں کیونکہ بغیر ثمرات دورہ محض سیر سپاٹا کے سوا کچھ نہیں ،جبکہ عوام اب حکومت سے کچھ زیادہ ہی توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔خدا کرے کہ حکومت عوامی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب ہو جائے اور دورہ چین کے ثمرات جلد از جلد عوام کو دیکھنا نصیب ہو ۔