“ہم پہ واجب ہوا قلم کا جہاد اور قلم میں بلا کی قوت ہے”
قلم کا استعمال چاہے ادب کی کسی بھی صنف کے لیے کیا جائے، مقصد علم و آگہی اور شعور کی شمع روشن کرنا ہے۔ کسی صحافی کے قلم سے لکھا گیا تلخ و مزاح پر مبنی کالم ہو یا کسی ادیب کے قلم سے لکھا گیا ناول یا افسانہ، مقصد مثبت سوچ کا پرچار ہے تو یہ بلاشبہ جہاد بالقلم کے زمرے میں آتا ہے۔ قلم مصنف کا وہ طاقتور ہتھیار ہے جس کے استعمال سے وہ ایوان کے در و دیوار زیر و زبر کر سکتا ہے بشرطیکہ اس سے صرف حق اور سچ لکھا جائے۔
زیر نظرکتاب ’’حکایات خونچکاں‘‘ ادبی پلیٹ فارم رائٹرز کلب پاکستان کے زیر اہتمام شائع شدہ کتاب کا پہلا ایڈیشن ہے جو اراکین رائٹرز کلب کے منتخب افسانوں اور شاعری کا مجموعہ ہے۔ رائٹرز کلب کے زیر اہتمام سال 2019 میں شائع ہونے والی یہ دوسری کتاب ہے. اس سے قبل کتاب ’’قلم کا قرض‘‘ بطور سالنامہ پیش کی گئی تھی جو اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔ ’’حکایات خونچکاں‘‘ میں بھی اس انفرادیت کو قائم رکھا گیا ہے۔ اگرچے یہ کتاب اس قدر ضخیم نہیں ہے لیکن اس میں بھی کم و بیش 12 لکھاریوں کے افسانے اور شاعری شامل ہیں۔ یہ تمام لکھاری وہ ہیں جو نوک قلم کو سنوارنے میں کوشاں ہیں۔
کتاب کا دیدہ زیب اور خوش رنگ سرورق قاری کو پہلی ہی نظر میں متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کتاب کا منفرد نام ’’حکایات خونچکاں‘‘ ذوق و تشنگی مطالعے میں اضافے کا سبب ہے۔ کتاب کے ٹائٹل پر لکھا مرزا اسد اللہ خاں غالب کا شعر اہلیان قلم کے جذبات کی عکاسی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ کتاب کے ابتدئی صفحات پر کتاب کے بارے میں ا ہم معلومات درج ہے۔ ایڈیشن نمبر، کتاب کے صفحات و قیمت اور ملنے کا پتہ وغیرہ۔ اس کے بعد فہرست اور بانی و سرپرست رائٹرز کلب پاکستان کی جانب سے کتاب کا پیش لفظ تحریر کیا گیا ہے۔ بعد ازاں رائٹرز کلب پاکستان کا جامع تعارف اور آغاز سفر سے لے کر اب تک کی کاوشوں کو مختصر اور جامع انداز میں ضبط تحریر کیا گیا ہے۔ کتاب میں مصنفین کے افسانوں اور شاعری کے ساتھ ان کا مختصر تعارف بھی شامل ہے جو بلاشبہ قاری اور مصنف کے درمیان ربط قائم کرنے میں مددگارثابت ہوگا۔
کتاب میں شامل عارف رمضان جتوئی صاحب کے افسانے معاشرتی ناہمواریوں اور سماجی رویوں کی عکاسی کرتے نظر آئے۔ انہوں نے اپنی ہر تحریر کے ذریعے قاری کو کوئی نہ کوئی مثبت پیغام پہنچانے کی سعی کی ہے۔ انیلہ افضال کے افسانے زمانے کے سرد و گرم سہتے کرداروں کے گرد گھومتے رہے۔ کہیں تلخ و شیریں انداز میں انہوں نے اپنے کرداروں کو حالات سے نبرد آزما ہوتے دکھایا۔ ان کے قلم کی پختگی اور سوچ کی وسعت ان کے افسانوں سے جھلکتی ہے۔ عظمی ظفر نے بھی اپنے افسانوں میں کئی اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ پولیو زدہ میں اپنے معمولی نقص کی وجہ سے معاشرتی تلخیاں سہتی لڑکی ہو یا گنجی میں ایک مغرور خود پرست کردار۔ نادان تتلی میں بھٹک کر راہ راست پر آنے والی لڑکی کی کہانی بھی انہوں نے بہترین اور اچھوتے انداز میں قلمبند کی۔ اس کے علاوہ دیگر مصنفین میں عائشہ یاسین کے افسانوں میں بھی بہترین اسلوب اور افسانوی رنگ چھلکتا دکھائی دیا، ارم فاطمہ نے معاشرے میں درپیش عورتوں کے مسائل کی جانب بہترین انداز سے توجہ دلائی، نبیلہ خان کے افسانے بھی بہترین تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہے، ام محمد عبد اللہ کے افسانوں میں کہانی کا اسلوب نمایاں رہا۔ فاطمہ خان کا افسانہ آدھی روٹی ایک عمدہ افسانہ تھا۔
حکایات خونچکاں میں شامل افسانے و شاعری مجموعی طور پر قاری کے معیار پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں البتہ کئی جگہ کہانیاں افسانوں کے بجائے عام اور سادہ کہانیاں معلوم ہوئیں۔ جنہیں بلاشبہ مزید بہتر کیا جاسکتا تھا۔
دور حاضر میں کتاب کی اشاعت ایک مشکل ترین امر ہے۔ جمع و ترتیب سے لے کر اشاعت تک کے مراحل ممکنہ حد تک صبر آزما ثابت ہوتے ہیں۔ ’’حکایات خونچکاں‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جسے آنے والے دنوں میں ادبی حلقوں میں یقینا سراہا جائے گا۔ انتظامیہ رائٹرز کلب پاکستان کتاب کی اشاعت پر مبارکباد کی حق دار ہے۔ کتاب کی طباعت سابقہ کتاب کی طرح عمدہ ہے۔ ڈبل کور اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ کتاب یقینا بہترین کوالٹی کی ہے۔ ادبی ذوق مطالعہ کے حامل افراد کے لیے یہ کتاب ایک بہترین انتخاب ثابت ہوگی۔
کتاب کی کوالٹی کے حساب سے اس کی قیمت نہایت مناسب ہے۔200 صفحات کی کتاب 500 روپے میں دستیاب ہے۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے اس پتے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ’’جمعیت الفلاح اکبر روڈ ریگل چوک صدر کراچی‘‘۔ مزید معلومات کے لیے رابطہ کریں: 03017886719
کتاب میں شامل تمام لکھاریوں اور انتظامیہ کو بے حد مبارک باد۔ محترم عارف رمضان جتوئی بانی و سرپرست رائٹرز کلب پاکستان کی زیر سرپرستی امید ہے یہ سلسلہ یونہی جاری و ساری رہے گا۔