ملک میں سیاسی واقتصادی عدم استحکام کیوں۔۔۔؟؟؟

پاکستان میں قریبا ہر سیاستدان لیڈر بننا چاہتا ہے ،ہر لیڈر رکن اسمبلی , ہر رکن اسمبلی وزیر اوروزیر وزیر اعظم بننا چاہتا ہے ،اسی طرح قریبا ہر ملازم افسر ، ہر افسر چند برسوں میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کا آرزو مند ہوتا ہے .ہر صنعت کار اور تاجر دنوں میں لکھ پتی اور ہر ورکر اور لیبر لیڈر فیکٹری مالک بننے کا خواہاں ہے مگر افسوس کہ ان میں سے ایک بھی سچا، کھرا انسان بننے کی طرف کوشاں نہیں۔اکژ لوگ کاروباری مصروفیت اور غفلت کے اندھیروں میں مقصد زندگی کو ہی بھول گئے ہیں اور حصول زر کو ہی مقصد زندگی بنا لیا ہے ، اس کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے. دن رات اسی کے لئے ہی ڈور دھوپ کرتے ہیں اورخودکو کھوبیٹھتے ہیں ،اسی طرح مصروفیت بڑھتی ہے ، دولت والوں کویہ خدشہ بھی دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں یہ ضائع نہ ہوجائیں۔ بلندی کے ساتھ تنزلی کا خدشہ بھی انہیں پریشان رکھتا ہے ، بے جامصروفیت کے باعث اکثر احباب ہائی بلڈ پریشر ،ذیابیطس،بواسیر،اعصاب شکنی،دل کے امراض اور بے خوابی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کی خانگی زندگی پرسکون ہونے کے بجائے تلخیوں اور دکھوں سے بھر جاتی ہے ، افسوس ایسے لوگوں نے حکومت ،زراعت ،تجارت اور ملازمت کو اپنا رازق ٹھہرالیا ہے ،اکثر لوگ حصول زر کے لئے شارٹ کٹ راستہ اختیار کرتے ہیں،کبھی وہ سیاست کو اس کا ذریعہ بناتے ہیں اور کبھی رشوت ،سود،بدعنوانی ،ذخیرہ اندوزی ،ملاوٹ،ٹیکس چوری کو اپنی فلاح وبہبود کا ذریعہ سمجھتے ہیں،یہ طریقے بظاہر تو منزل تک پہنچنے کے لئے  شارٹ کٹ ہیں مگر  ناجائز راستے اختیار کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مری سے اسلام آباد بذریعہ سڑک جانے کے بجائے راول ڈیم اور اسلام آباد کی جگمگاتی روشنیوں کو دور سے للچاتی نظروں سے دیکھ کر پہاڑوں کے اوپر  ناک کی سیدھ چل پڑے.بظاہر سڑک کا طول ہے مگر یہ یقینی اور آسان ہے،اسی طرح شارٹ کٹ طریقوں سے کامیابی ممکن نہیں.قرآنی اصول واضح ہے . ارشاد رب العزت ہے کہ ’’حرام اور حلال رزق برابر نہیں ،اگرچہ حرام کی کثرت تم کو پرکشش معلوم ہو،پس اللہ سے ڈرواور حرام سے پرہیز کرو،اے عقلمند لوگوتاکہ تم کامیاب ہو جاؤ (المائدہ:100)،یہ زریں اصول مسلمہ ہیں کہ حصول رزق کے لئے اور ہر دینی ودنیاوی کام کے لئے تدبیر ،منصوبہ بندی اور اپنی استعداد کے مطابق کوشش کرنا ضروری ہے ،جس طرح اولاد کی پرورش اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے کوشاں رہنا باعث ثواب ہے، اسی طرح ملک کی مادی اور روحانی ترقی کے لئے بھی کوشاں رہنا عین دینداری ہے مگر اکثر لوگوں کی دیوانہ وار مصروفیت کی وجہ حرص زر ہے،جس کو مقصد بنا کر لوگوں نے اللہ اور روز آخرت کو بھلا دیا ہے۔اس کے حصول کے لئے انسان  بلا تفریق حلال و حرام قبر پہنچ تک پہنچ جاتا ہے .ارشاد رب العزت ہے کہ ’’ کثرت دنیا کی حرص نے تمہیں غافل کر رکھا ہے ،یہاں تک کہ تم قبروں میں پہنچ گئے‘‘۔اللہ نے رزق کی تقسیم کے متعلق زریں اصولوں کو واضح لفظوں میں بیان کردیا ہے کہ رزق کون دیتا ہے اور کہاں سے ملتا ہے ،آج کل لوگ حلا ل کے ساتھ حرام ذرائع کو اس لیے اختیار کرتے ہیں تاکہ دولت میں اضافہ ہوجائے حالانکہ رزق تو مقرر ہے ،ہر حالت میں رزق اتنا ہی ملتا ہے جتنا مقدر میں ہے ۔حرام ذرائع سے آدمی کا رزق بڑھ نہیں سکتا، یہ مشاہدہ تو عام ہے کہ اکثر حرام ذرائع اور مواقع عارضی ہوتے ہیں،دیرپا نہیں ہوتے اور یہ ذرائع اور مواقع جلد منقطع ہوجاتے ہیں مگر ان کی پریشانیاں باقی رہتی ہیں،ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ آج تخت ہے اور کل تختہ ،آج وزارت کی کرسی ہے اور کل جیل کی کال کوٹھری،بندے کو اعمال کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی،افسوس ہے کہ ہمیں اللہ پر اتنا بھروسہ بھی نہیں جتنا بچے کو اپنے والدین پر ہوتا ہے ،بچے کو کبھی یہ  گمان نہیں ہوتا کہ والدین اسے بھوکا اور بے سروسامان رکھیں گے،ہمارا اللہ پر توکل تو جانور جیسا بھی نہیں ،جس کا کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں،وہ اپنا رزق سٹور بھی نہیں کرتا،ارشاد رب العزت ہے کہ ’’اور بہت سے جانور ایسے ہیں ،جو اپنے رزق کو اٹھائے نہیں پھرتے ،اللہ ہی ان جانوروں کو رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی‘‘ (60عنکبوت) ۔ حصول رزق میں تاخیر ہمیں پریشان کرتی ہے اور اس تاخیر کی وجہ سے ہم حرام ذرائع اختیار کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں حالانکہ اللہ کی ہر بات میں حکمت ومصلحت ہے اور ہم یہ نہیں سمجھتے کہ بعض اوقات  دیر سے ملنے والا رزق جلد ملنے والے رزق سے بہتر ہوتا ہے ،اللہ ہر ایک کی ضروریات زندگی کو بروقت پورا کرتے ہیں،اس لیے ہمیں نہ تو پریشان ہونا چاہئے نہ ہی ناجائز ذرائع اختیار کرنے چاہئے اور نہ ہی جلد بازی کرنی چاہیئے.جو رزق ہمارے مقدرمیں ہے وہ مل کر رہے گا. دولت کی کثرت ،بے صبری اور جلدبازی پریشانی کا باعث بھی ہوسکتی ہے اور اس کی مثال سالانہ بجٹ کی طرح ہے اگر کوئی محکمہ اپنا بجٹ ایک سال میں خرچ کرنے کی بجائے چند ماہ میں ختم کرلے گاتو باقی مہینوں میں پریشان اور بدحال ہوگا اور اس کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ ہوگا،اسی طرح انسان اپنی عمر کا سارا رزق قبل از وقت حاصل کرے گا تو وہ باقی ماندہ عمر پریشان رہے گا یا عمر میں کمی واقع ہوگی کیونکہ رزق کے اختتام کے ساتھ ہی عمر کا اختتام بھی لازم ہے،سیاسی واقتصادی بدحالی کی وجہ حرام ذرائع ہیں،حرام کے مختلف شعبے ہیں،جیسے رشوت،سود،تجارتی بدعنوانیاں ،جعلی الاٹمنٹ،مال کا غضب کرنا،ٹیکس چوری وغیرہ.جو شخص حلال کی فضیلت اور حرام کی بدبختی سے بے پرواہ ہوجاتا ہے ،وہ دنیا پرست اور خواہش پرست ہوجاتا ہے ،خواہ اس کے لیے تمام اسلامی اصولوں کونظرانداز کرنا پڑے اورملک وملت سے غداری کرنی پڑے،ہمارے معاشرے کا بدترین فعل سیاسی رشوت ہے ،جس میں حکومت خود ملوث ہے جو خاص وعام کے لیے بدترین مثال بنتی ہے،حرام اور حلال میں اتنا فرق ہے ،جتنا کافر اور مسلمان میں،اندھے اور آنکھوں والے میں،مردہ اور زندہ میں ،حرام ایک زہر ہے جس کا اثر باطنی اندھا پن ،بہرہ پن اورروحانی ہلاکت ہے ،ایسے مردہ ضمیر لوگ ملک وقوم کے لیے خطرہ ہیں کیونکہ یہ اندھے ،بہرے اور مردہ لوگ نصیحت سے بدلتے ہی نہیں ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں